نواز شریف عام قیدی سے وی آئی پی قیدی تک
میاں نواز شریف کو عدالت سے ریلیف مل گیا ہے۔ ان کے ریلیف پر تحریک انصاف کے رہنماؤں کی پریشانی صاف عیاں ہے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو عدالت کی جانب سے ریلیف پسند نہیں آیا۔ ان کے خیال میں یہ ایک غیر معمولی ریلیف ہے اور ان کی خواہش ہے کہ پاکستان کی جیلوں میں قید تمام قیدیوں کو ایسا ہی ریلیف دیا جائے۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ایسے بیانات ان کی پریشانی اور ناامیدی کو ظاہر کر رہے ہیں۔ کیا کوئی تحریک انصاف سے سوال کر سکتا ہے کہ وہ عدالت کے ریلیف پر تو طنز کر رہے ہیں جب کہ انھوں نے خود ہی نواز شریف کو عام قیدی سے خاص قیدی بنا دیا ہے۔ کیا پنجاب کے تمام قیدیوں کے لیے اس طرح خصوصی میڈیکل بورڈ بناکر ان کے ذاتی معالجین کو اس بورڈ کا ممبر بنایا جاتا ہے؟ کیا تمام قیدیوں کے خاندان کے دیگر افراد کو اگر وہ جیل میں ہوں تو ان کے ساتھ اسپتال میں ساتھ والا کمرہ دیا جاتا ہے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ جیل کے قواعد میں ایسی کوئی شق نہیں ہے جس میں بیمار باپ کی قید بیٹی کو اس کے ساتھ جیل میں رکھا جا سکے۔
اس کی پاکستان کے آئین وقانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آج عبوری ضمانت منظور ہونے کے بعد بھی قید بیٹی نواز شریف کے ساتھ کس قانون کے تحت موجود ہے۔ عدالتی فیصلہ پر تبصرہ کرنے والے تحریک انصاف کے وزراء کیا اس سب کا جواب دے سکیں گے۔ عدالت سے تو یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ سب بیمار قیدیوں کی درخواستیں ایسے ہی سنے۔ لیکن کیا کوئی حکومت سے سوال کر سکتا ہے کہ وہ بھی تمام بیمار قیدیوں سے نواز شریف جیسا سلوک کیوں نہیں کر رہی ہے۔ حکومت کو کس نے روکا ہوا ہے۔ جب حکومت سب سے نواز شریف جیسا سلوک کرے گی تب ہی عدالت سے ایسا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔
کیا ہمیں یاد ہے کہ نواز شریف سے جیل میں اے سی کی سہولت واپس لینے کے لیے عمران خان نے واشنگٹن میں جلسہ عام میں اعلان کیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اے سی کی سہولت واپس لینا تو دور کی بات اس اعلان کے بعد مزید سہولیات دے دی گئیں۔ بتایا تو یہ جا رہا ہے کہ اے سی کے ساتھ فریج بھی دے دیا گیا تھا۔ کیا تمام بیمار قیدیوں کے ذاتی معالجین کو جیلوں میں ملنے اور معائنہ کرنے کی اجازت ہے۔
کیا تمام بیمار قیدیوں سے پنجاب کی وزیر صحت ملاقات کرتی ہیں۔ کیا پنجاب کے تمام بیمار قیدیوں کی صحت کے بارے میں وزیر صحت یاسمین راشد ایسی ہی دن میں کئی بار بار پریس کانفرنس کرتی ہیں، ٹاک شوز میں وضاحتیں دی جاتی ہیں۔ وزیر صحت ایسے ہی تمام قیدیوں کو پیشکش کرتی ہیں کہ اگر وہ باہر سے کوئی ڈاکٹر بلوانا چاہتے ہیں تو حکومت کے جہاز حاضر ہیں۔ ایسے ہی تمام قیدیوں کے لیے کراچی سے خصوص طورپر ڈاکٹر بلوائے جاتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ تحریک انصاف جب خود نواز شریف کے ساتھ عام قیدیوں جیسا سلوک کرنے میں ناکام رہی ہے تو اب ایسے بیان کیسے دے سکتی ہے۔
آپ نیب کو ہی دیکھ لیں، نواز شریف کی صحت کی خرابی پر نیب نے ایک وضاحتی پریس ریلیز جاری کی۔ جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ نیب نے نواز شریف کو اسپتال منتقل کرنے کے حوالے سے کوئی تاخیر نہیں کی ہے۔ کیا تمام قیدیوں کے لیے ایسی پریس ریلیز جاری کی جاتی ہے۔ کیا تمام قیدیوں کے لیے کارڈیک ایمبولنس نیب ہیڈ کوارٹر میں منگوا کر کھڑی کی جاتی ہیں۔ کیا جب قیدی اسپتال منتقل ہونے سے انکار کر دے تو سب قیدیوں کے بھائی بلا ئے جاتے ہیں اور بھائی سے درخواست کی جاتی ہے کہ قیدی کو اسپتال منتقل ہونے پر قائل کرے۔ کتنے بھائی نیب کی درخواست پر اپنے بھائی کو اسپتال منتقل ہونے پر قائل کرتے ہیں۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ نواز شریف کی بیماری سے تحریک انصاف کی حکومت بوکھلا گئی۔ حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ پہلے دن حکومت نے نواز شریف کی بیماری پر پوائنٹ اسکورنگ کی۔ لیکن جیسے ہی پلیٹ لیٹس گرتے گئے حکومت کے ہوش اڑ تے گئے۔ وہی عمران خان جو اے سی اتروانے کے نعرے لگاتے تھے صحت کی وی آئی پی سہولیات دینے کا اعلان کرنے لگے۔ حکومت شہباز شریف سے تعاون کی مدد مانگنے لگی۔ مریم نواز کو اسپتال بلا لیا گیا۔ نواز شریف کی والدہ کو اسپتال لایا گیا۔ جہاز دینے کی پیشکش کی جانے لگی۔ حکومت نے بیان دینے شروع کر دیے کہ نواز شریف جہاں علاج کرانا چاہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن کوئی اس پر حکومت سے سوال نہیں کر سکتا۔
کیا یہ سچ نہیں کہ جب نواز شریف کی صحت خراب ہوئی تو ان کے بیٹے حسین نواز نے لندن سے ٹوئٹ کر دیا تھا کہ نواز شریف کو زہر دیا گیا ہے۔ یہ تو حکومت دعائیں دے شہباز شریف کو جس نے معاملات کو سنبھالا۔ علاج میں تعاون کیا۔ ماحول کو گرم نہیں ہونے دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ سمیت سب کو شہباز شریف کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ نواز شریف کی صحت پر احتجاج اور آگ لگانے کی سیاست کرنے کے بجائے انھوں نے عدالت کا رخ کیا۔ وہ سڑکوں پر آنے کے بجائے عدالت میں گئے۔ انھوں نے قانون کا راستہ اپنایا۔ ورنہ ایک طرف آزادی مارچ شروع ہو رہا تھا۔
دوسری طرف نواز شریف کی صحت خراب ہو گئی تھی۔ اگر شہباز شریف چاہتے تو ماحول کر گرما سکتے تھے۔ ایک پریس کانفرنس سارا ماحول بدل دیتی۔ شہباز شریف کی حکمت عملی سے نہ صرف نواز شریف کا بر وقت علاج ممکن ہوا۔ وہ نیب کی حراست سے نواز شریف کو اسپتال لائے، وہاں علاج شروع کروایا۔ جس سے نواز شریف کی صحت بحال ہوئی۔ اور عدالت سے ریلیف کے لیے رجوع کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف کی حکمت نے ایک طرف نواز شریف کو رہائی دلوائی ہے۔ تو دوسری طرف حکومت کی بھی مدد کی ہے۔ دونوں فریقین کو شہباز شریف کا انفرادی طور پر شکر گزار ہونا چاہیے۔
حکومت کو یہ ماننا چاہیے کہ وہ نواز شریف کے ساتھ عام قید یوں جیسا سلوک کرنے میں ناکام رہی۔ حکومت کو تسلیم کرنا چاہیے نواز شریف پہلے دن سے ایک خاص وی آئی پی قیدی تھا۔ حکومت نے بہت کوشش کی کہ نواز شریف سے جیل میں تمام سہولیات چھین لے لیکن ناکام رہی۔ کیا یہ درست نہیں کہ حکومت خودچاہتی تھی کہ نواز شریف سے جان چھوٹ جائے۔ اب ان کے تبصر ے کھیسانی بلی کھمبا نوچے کے مانند ہیں۔
آپ دیکھ لیں نواز شریف کی خرابی صحت سے سبق سیکھتے ہوئے آصف زرداری کو بھی اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ ورنہ اس سے پہلے حکومت آصف زرداری سے بھی عام قید یوں جیسا سلوک کرنے پر بضد تھی۔ شاید نواز شریف کے تجربہ نے ہوش ٹھکانے لگا دیے ہیں اور زرداری کی صورتحال بھی نواز شریف جیسی نہ ہوجائے اس لیے انھیں پہلے ہی اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
خبر تو یہ بھی ہے کہ خورشید شاہ کو بھی سکھر میں اسپتال میں چیک اپ اور طبی معائنہ کے لیے منتقل کیا گیا ہے۔ خبر تو یہ ہے کہ آصف زرداری ابھی خو د ہی اپنی ضمانت کی درخواست دینے کے لیے تیار نہیں ہیں ورنہ طبی بنیادوں پر ان کی ضمانت کے لیے راہ ہموار ہے۔ لیکن زرداری کو سیاسی ٹائمنگ کا اندازہ ہے۔
لوگ آزدای مارچ کے حوالے سے سوال کر رہے ہیں۔ مارچ ابھی شروع ہوا ہے۔ لیکن اس کے شروع ہونے سے پہلے ہی حکومت کے سیاسی ہوش ٹھکانے آگئے ہیں۔ حکومتی گالم گلوچ بریگیڈ تو ایسا لگتا ہے غائب ہی ہو گیا ہے۔ نظر ہی نہیں آرہی۔ مفاہمت والے آگے آگئے ہیں۔ حکومت کی پریشانی اس بات سے بھی عیاں ہے کہ مارچ کو نہ روکنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ باقی جہاں تک معاہدہ کی بات ہے تواس کے چلنے کے امکانات کم ہیں۔