ماتحت عدلیہ میں خواتین ججز کے مسائل
پاکستان کی ماتحت عدلیہ میں خواتین ججز کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ نوجوان خواتین ماتحت عدلیہ کے ججز کا امتحان پاس کر کے میرٹ پر آگے آرہی ہیں۔ یہ پاکستان کے نظام انصاف کے لیے خوش آیند ہے۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی ماتحت عدلیہ میں خواتین کی نمایندگی کافی بہتر ہے۔ ماتحت عدلیہ میں خواتین کا تناسب ہائی کورٹس میں خواتین ججز کے تناسب سے بہتر ہے اور سپریم کورٹ میں تو اس وقت کوئی خاتون جج نہیں ہے۔
ماتحت عدلیہ میں خواتین ججز کے ساتھ بعض وکلا کے ناروا سلوک کے بھی بہت سے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ ویسے توماتحت عدلیہ میں مرد ججز کے ساتھ بھی بعض وکلا کے ناروا سلوک کے واقعات کی بھر مار ہے۔ چند دن پہلے 27مارچ کو قصور بار نے ایڈیشنل سیشن جج ڈاکٹر ساجدہ چوہدری کے خلاف ایک اجلاس طلب کیا۔
یہ خبر میری نظر سے گزری تو میں نے واقعہ کی تفصیل جاننے کی کوشش کی، معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ سیشن عدالت میں اندراج مقدمہ کی ایک پٹیشن 22- A اور 22-B زیر سماعت تھی۔ عدالت کی آرڈر شیٹ کے مطابق گزشتہ سال جون میں یہ پٹیشن دائر کی گئی اور 15جولائی کو پولیس نے اپنا جواب جمع کرادیا۔ پولیس کے جواب کے بعد معزز وکیل صاحب نے اس پر بحث کرنی تھی اور اس کے بعد فیصلہ ہوجانا چاہیے لیکن یہ معاملہ طول پکڑ گیا اور جج صاحبہ نے اس پر فیصلہ دے دیا، یوں یہ تنازعہ شروع ہوا۔
پاکستان میں اکثر اوقات پولیس ایف آئی آر درج کرنے میں لیت ولعل کا مظاہرہ کرتی ہے۔ سائل پھر اندراج مقدمہ کے لیے عدالت سے رجوع کرتے ہیں۔ عدالت میں اندراج مقدمہ کی درخواست کوئی باقاعدہ مقدمہ نہیں ہوتا۔ عدالت درخواست دائر ہونے کے بعد پولیس سے جواب طلب کرتی ہے اور بحث سن کر فیصلہ کر دیتی ہے۔ اس قسم کی درخواست کی سماعت میں جس کے خلاف مقدمہ درج ہونا ہوتا ہے، اسے نہیں سنا جاتا۔ اس لیے ان درخواستوں کا جلد فیصلہ ہوتا ہے۔ عدالت صرف پولیس کا موقف سنتی ہے کہ اس نے مقدمہ کیوں نہیں درج کیا اور قانون کے مطابق فیصلہ کرتی ہے۔
قصور میں جو واقعہ ہوا، اس میں بار بار مدعی فریق سے بحث نہ کرنے پر ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے کیس کا فیصلہ کر دیا گیا یوں محترم وکیل صاحب کو بھی غصہ آگیااور انھوں نے عدالت میں ساتھی وکلا کے ساتھ پہنچ کر احتجاج کیا۔ اطلاع کے مطابق معزز جج صاحبہ نے اس واقعہ کی تحریری شکایت ڈسٹرکٹ سیشن جج قصور کو ایک خط کے ذریعے بھی کی ہے۔ جس کے جواب میں قصور کی بار نے اجلاس طلب کر لیا اور اس طرح ایک تنازعہ پیدا ہوگیا۔
ہمارے نظام انصاف میں اندراج مقدمہ کی درخواست کو اکثر وکلا کئی کئی ماہ التوا میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، دیکھنے میں آیا ہے وکلاء بحث کے لیے عدالت میں نہیں آتے بلکہ اپنے منشی کے ذریعے تاریخ پر تاریخ حاصل کرتے رہتے ہیں، شائد انھیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا کیس کمزورہے، اس لیے وہ اسے التوا میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ویسے وکیل کی عدم حاضری کی فائل پڑھ کر معزز جج صاحبان فیصلہ دے سکتے ہیں، قانون انھیں اس کی اجازت دیتا ہے۔ یقیناً وکلاء حضرات کو اس قانونی پہلوکا علم ہوگا۔ منشیوں کے ذریعے کارروائی رکوانا اور تاریخ پر تاریخ کے کلچر کو ختم کرنے کا یہی بہترین طریقہ ہے۔
چند ماہ قبل پتوکی میں بھی ایک خاتون سول جج کے ساتھ عدالت میں وکلا نے ناروا سلوک کیا ہے جس پر کافی شور برپا ہوا۔ جج صاحبہ کی عدالت کو تالہ بھی لگایا گیا۔ اس طرح کے واقعات اکثر اوقات سامنے آتے رہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اس قسم کا سلوک صرف خواتین ججز کے ساتھ ہی روا رکھاجاتا ہے بلکہ وکلا کی ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان کے ساتھ بدسلوکی اب ایک روٹین بن گئی ہے۔
کئی وکلا حضرات نے ایک ماحول بنا لیا ہے کہ اگر ماتحت عدلیہ کے جج ان کی بات نہیں سنتے تو وہ ان پر چڑھائی کر سکتے ہیں۔ ویسے تو حال ہی میں اسلام آباد کے چیف جسٹس کے ساتھ جو ہوا ہے، اس کے بعد یہ دلیل بھی کمزور پڑ گئی ہے کہ صرف ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان کے ساتھ ہی بدسلوکی ہوتی ہے۔ اب یہ روش اعلیٰ عدلیہ تک پہنچ رہی ہے۔ جب ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان پر چڑھائی ہوتی رہی ہے تو اس پر کوئی راست ایکشن نہیں ہوا حالانکہ اگر اولین واقعہ پر ہی نوٹس لیاجانا چاہیے تھا۔