Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Muzamal Suharwardy
  3. Khufia Muahide Aur Khufia Muzakrat

Khufia Muahide Aur Khufia Muzakrat

خفیہ معاہدے اور خفیہ مذاکرات

حکومت پاکستان کی طرف سے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اعلان تو کیا ہے کہ ٹی ٹی پی سے پاکستان کے آئین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے مذاکرات اور معاہدہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عسکری قیادت نے ملک کی پارلیمانی قیادت کو افغانستان اور تحریک طالبان سے ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے ان کیمرہ بریفنگ دی ہے۔

گو اس بریفنگ کے مکمل مندرجارت سامنے نہیں آئے ہیں تا ہم جتنی بات بھی سامنے آئی ہے، اس کے مطابق اپوزیشن کے رہنماؤں نے ایسے تمام معاہدے پارلیمان میں لانے کا مطالبہ کیا ہے اور خفیہ معاہدوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

حکومت نے تحریک لبیک کے ساتھ معاہدے کو تاحال خفیہ رکھا ہوا ہے۔ ایک طرف معاہدہ خفیہ ہے دوسری طرف جتنے بھی اقدامات سامنے آرہے ہیں، وہ بتا رہے ہیں کہ معاہدے میں کیا کیا شامل ہے۔ حکومت نے جتنی جلد بازی میں تحریک لبیک کی کالعدم حیثیت ختم کی ہے، وہ سارے خفیہ معاہدے کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔

پنجاب حکومت نے اس ضمن میں کابینہ کا باقاعدہ اجلاس بلانے کی بھی زحمت نہیں کی بلکہ ایک سمری کے ذریعے ہی کابینہ ارکان سے رائے مانگ لی۔ ایک ہی دن میں سب کام کر کے حکومت پاکستان کو بھجوا دیا اور حکومت پاکستان کی وزارت داخلہ نے راتوں رات پابندی ختم کر دی۔ شاید اسے ہی پاکستان کے قانون اور آئین کا دائرہ کہا جاتا ہے۔

حکومت پاکستان بالخصوص وزارت داخلہ نے تحریک لبیک کو کالعدم بھی اسی طرح راتوں رات کر دیا تھا۔ حالانکہ وہ الیکشن کمیشن کے پاس باقاعدہ جسٹرڈ سیاسی جماعت ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کالعدم کرنا درست فیصلہ نہیں تھا اور اب اسی طرح کالعدم اسٹیٹس ختم کرنا بھی درست نہیں ہے۔ اس ساری صورتحال نے کالعدم کرنے کے سارے عمل کو ہی مشکوک بنا دیا ہے۔

کوئی بھی حکومت کسی بھی سیاسی و غیر سیاسی جماعت کو راتوں رات کالعدم کرنے اور پھر اس کی کالعدم حیثیت کو ختم کرنے کا اختیار اس طرح استعمال نہیں کر سکتی۔ میں سمجھتا ہوں موجودہ صورتحال نے ثابت کر دیا ہے کہ حکومت کے پاس اس قسم کا اختیار ہونا درست نہیں ہے اس معاملے پر حکومت کو کسی نہ کسی کے سامنے جوابدہ بنایا جانا چاہیے۔ ٹی ایل پی کو پہلے کالعدم قرار دینا بھی غلط تھا اور پھر کالعدم کی حیثیت ختم کرنا، اس سے بڑی غلطی تھی۔ ایسا کسی خفیہ معاہدہ کے بنیاد پر کرنا تو بالکل درست نہیں۔

اس ساری صورتحا ل نے یہ ثابت کیا ہے کہ ایک کمزور حکومت کے پاس یہ اختیار طاقت نہیں بلکہ ایک کمزوری بن گیا ہے۔ کوئی بھی حکومت کو چیلنج کر کے اس سے اپنی کالعدم حیثیت ختم کرا سکتا ہے۔ آپ دیکھیں دیگر کالعدم جماعتوں کی جانب سے بھی مطالبات سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ اب جس کی بات بھی نہیں مانیں گے وہ بھی اپنے کارکنوں اور حامیوں کو لے کر اسلام آباد کی طرف نکل پڑے گا۔ آپ کس کس سے خفیہ معاہدے کریں گے اور کس کس کی کالعدم حیثیت ختم کریں گے؟ ہم دنیا کو کیسے جواب دیں گے؟ پہلے ہی فیٹف میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کیا یہ عمل ہماری بین الاقوامی مشکلات میں مزید اضافہ نہیں کر دے گا۔

جس طرح تحریک لبیک کے لوگوں کو رہا کیا گیا ہے، ایسا کرنے سے قانون کی حکمرانی کا تصور دھندلا ہوا ہے۔ جس انداز میں لوگوں کا فورتھ شیڈیول ختم کیا گیا ہے، اس نے بھی یہ سوال جنم دیا ہے کہ کیا ان لوگوں کو فورتھ شیڈیول میں ڈالاہی غلط گیا تھا یا اب نکالا غلط گیا ہے؟ کہیں تو کچھ غلط تھا۔ یا ڈالنا غیر قانونی تھایااب نکالنا غیرقانونی ہے۔

کہیں تو قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ افسوس کی بات یہ کہ دونوں صورتوں میں حکومت ہی قصوروار نظر آرہی ہے۔ اسی طرح سعد رضوی کے معاملے پر بھی حکومت نے قانون کے بجائے ہٹ دھرمی سے کام لیا۔ جب عدالت نے انھیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا تو انھیں زبردستی جیل میں رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ اور اگر زبردستی اندر رکھنا اتنا ہی ضروری تھا تو اب سب کچھ واپس لینے کی کیا ضرورت ہے۔

ادھر حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کے بارے میں سوچ کر بھی خوف ہی آتا ہے۔ نیوزی لینڈ کے دورہ پاکستان کو منسوخ کرانے کا معاملہ ابھی تازہ ہے۔ یہ بھی عجیب منطق دی جا رہی ہے کہ افغان طالبان اب تحریک طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے لیے زور ڈال رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ جیسے انھوں نے امریکا کے ساتھ امن معاہدہ کیا ویسے ہی پاکستان بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ امن معاہد ہ کر لے۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ امریکا نے تو افغانستان پر غیر قانونی قبضہ کیا ہوا تھا جب کہ افغان طالبان اس قبضے کو چھڑانے کی جدو جہد کر رہے تھے۔ جب کہ پاکستان میں تو ایسی کو ئی صورتحال نہیں تھی اور نہ ہے۔ اس لیے اس قسم کی دلیل ہی غلط ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح خفیہ معاہدے اور خفیہ مذاکرات سے پاکستان میں قانون اور آئین کی حکمرانی کمزور ہو رہی ہے۔ ایک پنڈورا بکس کھل رہا ہے۔ مسلح جتھوں کو طاقت سے اپنی بات منو انے کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ ایک ماحول بن رہا ہے کہ ملک میں قانونی سیاسی سرگرمیوں کی تو اجازت نہیں ہے لیکن غیر قانونی، غیر سیاسی سرگرمیوں کے لیے کھلی چھوٹ ہے۔

ملک میں ایک ایسی حکومت ہے جو سیاسی قوتوں کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تو تیار نہیں لیکن مسلح گروپوں کو ہر قسم کی رعایت دینے کے لیے تیار ہے۔ پارلیمان سے قانون سازی کی جاتی ہے اور نہ ہی حکومت اپنے خفیہ معاہدے پارلیمان میں پیش کرتی ہے۔ یہ اچھی صورت حال نہیں ہے، اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

Check Also

Dr. Shoaib Nigrami

By Anwar Ahmad