کراچی کی سیاست، مصطفی کمال سے ایک مکالمہ
دو دن کراچی میں رہنے کے بعد وہاں کی حالت پر بہت افسوس ہوا۔ شہر کی اہم شاہراؤں پر کچرا ایسے پڑا ہے جس پر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اگر کراچی پاکستان کا دروازہ ہے تو دروازے کی ایسی حالت کس کا قصور ہے۔ سڑکوں کے کنارے گند اور شہر میں مکھیوں نے پورے کراچی کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ کراچی میں بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ سب ہی کراچی کی حالت پر پریشان ہیں۔ لیکن کسی کے پاس کوئی حل نہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کراچی لاوارث ہے۔
کراچی کے سابق میئر اور پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال سے ایک طویل نشست ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ کراچی میں اس قدر گند اور کچرے کی وجہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا کرپشن اور صرف کرپشن۔ میں نے کہا، سندھ حکومت نے میئر کو وسائل ہی نہیں دیے وہ کیا کرے؟ انھوں نے کہا یہ وسیم اختر کا بیانیہ ہے۔
یہ بیانیہ انھوں نے اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے بنایا ہوا ہے۔ یہ ایک سیاسی بیانیہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ میں نے کہا کہ کیا آپ نہیں مانتے کہ پیپلزپارٹی نے لوکل گورنمٹ کا ایسا ناقص نظام بنایا ہے، جس کی موجودگی میں کوئی بھی کام نہیں ہو سکتا۔ انھوں نے لوکل گورنمنٹ سسٹم کے ہاتھ اور پاؤں باندھ دیے ہیں۔ مصطفی کمال نے کہا کہ میں یہ بات مانتا ہوںکہ یہ ایک کمزور نظام ہے۔ لیکن کراچی کا کچرا صاف کرنے اور صفائی کرنے میں یہ نظام رکاوٹ نہیں ہے۔
میں نے کہا کیا مصطفی کمال یہ کہہ رہا ہے کہ اس نظام میں ہی کراچی صاف ہو سکتا ہے؟ مصطفی کمال نے کہا آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ کراچی کا گند صاف کرنے، کچرا اٹھانے، صفائی کرنے کے لیے کراچی کی کارپوریشن مزید کسی وس، ائل کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے کراچی کو چلا یا ہے۔
کراچی کی صفائی کرائی ہوئی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ بہت وسائل اور اختیارات موجود ہیں۔ وسیم اختر کام نہ کرنے کی ایک مربوط پالیسی پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کچرا اٹھانا چاہتے ہیں اور نہ ہی گند صاف کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے پہلے دن سے ایک بیانیہ بنا لیا ہے کہ نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی اختیار ہے۔ حالانکہ یہ حقیقت نہیں ہے۔ مصطفی کمال کا موقف ہے کہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ وسیم اختر کو الطاف حسین نے میئر نامزد کیا تھا۔ میرے بعد وہ ایسے کسی شخص کو میئر نہیں بنانا چاہتے تھے جو کام کرے۔ اس لیے ان کو بنایا ہی اس لیے گیا تھا کہ یہ کام نہیں کریں گے اور انھوں نے پہلے دن سے کام نہیں کیا۔
میں نے مصطفی کمال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کراچی کا سیاسی ماحول بہت گرما دیا ہے۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے نہیں، پہلے اس لیے سیاسی ماحول گرم نہیں ہوتا تھا کہ جو بولتا تھا، اس کو مار دیا جاتا تھا۔ کراچی میں بات کرنے اور اختلاف کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ٹارگٹ کلنگ تھی۔ بھائی اور بھائی کے چیلوں کے خلاف بھی بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ آپ پاک سرزمین پارٹی کو اتنا کریڈٹ تو دیںکہ ہم نے کراچی میں سیاسی ڈائیلاگ شروع کرا دیا ہے۔
آپ لوگ گولی سے نہیں دلیل سے بات کرتے ہیں۔ کیا یہ چھوٹا کریڈٹ ہے۔ آج کراچی کے گند اور کچرے پر کراچی میں سیاسی ڈائیلاگ ہو رہا ہے۔ کسی کو جان کا خوف نہیں ہے۔ یہ خوف ختم کرنے میں ہمارا بھی کردار ہے۔ مصطفی کمال نے کہا لوگ چاہتے ہیں کہ ہم نا امید ہو کر کراچی چھوڑ جائیں اور کراچی میں خوف کا دور بھی شروع ہو جائے۔ میں بات کرتا ہوں تو باقی بھی بات کرتے ہیں۔ میں خاموش ہو گیا تو انھیں باقیوں کو خاموش کرانے میں وقت نہیں لگے گا۔
میں نے مصطفی کمال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں کراچی نے آپ کو مسترد کر دیا ہے۔ آپ ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکے۔ آپ عوامی طور پر مسترد ہونے کے بعد ان کو چیلنج کر رہے ہیں جن کو عوام نے ووٹ کیا ہے۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے 2018ء کے انتخابات کے نتائج تو وہ بھی نہیں مان رہے جو جیت گئے ہیں۔ جو جیت گئے ہیں وہ بھی پریشان ہیں کیسے جیت گئے ہیں۔ میں ان نتائج کو نہیں مانتا۔ اگر مجھے کراچی کے عوام نے مسترد کر دیا ہے تو کراچی میں میرے جلسے اتنے بڑی کیسے ہو جاتے ہیں۔ میری کال پر لوگ کہاں سے آ جاتے ہیں۔
میں نے کہا اگلا روڈ میپ کیا ہے۔ اب تو آپ ہار گئے ہیں۔ پانچ سال انتظار کریں۔ انھوں نے کہا پہلی بات تو یہ ہے کہ مجھے یہ سسٹم پانچ سال چلتا نظر نہیں آ رہا۔ اتنی بری معاشی صورتحال سے یہ حکومت پانچ سال نہیں نکال سکتی۔ مجھے نہیں امیدکہ ایسے چل سکے۔ میں نے کہا کیا ہو گا کہنے لگے مجھے نہیں معلوم۔ لیکن عقل نہیں مانتی کہ ایسی حکومت پانچ سال قائم رہ سکے۔ کیا ہو گا کیسے ہو گا۔ اس پر ابھی بات نہیں ہو سکتی۔ لیکن ادارے بھی ایسی حکومت کو مزید ساتھ نہیں دے سکتے۔
میں نے کہا مصطفی کمال اگلے انتخاب کے انتظار میں بیٹھا ہے۔ کہنے لگے نہیں۔ اگلے سال کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہونے ہیں۔ اس بلدیاتی نظام کی مدت مکمل ہو رہی ہے۔ ہم نے عاشورہ کے بعد کراچی کی 204 یونین کونسلوں میں اپنے امیدوار فائنل کرنے کے لیے انٹریوز شروع کرنے کا شیڈو ل بنا لیا ہے۔ اس ضمن میں پاک سرزمین پارٹی اگلے ماہ تک امیدوار فائنل کر لے گی۔ انھوں نے کہا یہ آسان کام نہیں ہے۔ ہر یونین کونسل میں گیارہ ٹکٹ دینے ہیں۔ ہم ایک ایک ٹکٹ سوچ سمجھ کر دیں گے تا کہ ہر سیٹ جیتی جا سکے۔
میں نے کہا ایسے تو ظاہر ہے کہ اب آپ دوبارہ کراچی کے میئر بننا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا اس میں کوئی مذائقہ نہیں ہے۔ خدمت کرنی ہے جس حیثیت میں موقع ملے کریں گے۔ میں نے کہا اگر دوبارہ آپ سے دھاندلی ہو گئی تو انھوں نے کہا ماضی بھی گواہ ہے کہ بڑے انتخاب میں تو دھاندلی ہو جاتی ہے لیکن لوگل گورنمٹ گلی محلہ کا الیکشن ہوتا ہے۔
گلی محلہ میں نہ تو دھاندلی ہو سکتی ہے اور نہ ہی کوئی ہونے دیتا ہے۔ اسی لیے جب حکومتوں کو بلدیاتی انتخاب ہارنے کا ڈر ہو تو وہ انتخاب ملتوی کر دیتی ہیں۔ دھاندلی نہیں کرتیں۔ آپ دیکھ لیں پنجاب میں نہیں کروائے گئے۔ حالانکہ تحریک انصاف بہت دعویٰ کرتی تھی کہ وہ پنجاب میں سب سے پہلے بلدیاتی انتخاب کرائے گی۔ لیکن انھیں اندازہ ہو گیا کہ مرکز اور پنجاب کی حکومت بھی بلدیاتی انتخاب جیتنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔ رات بہت ہو گئی تھی۔ میں نے مصطفی کمال سے اجازت لی۔ اور ملاقات ختم ہو گئی۔
مصطفی کمال سے طویل نشست سے مجھے اندازہ ہوا ہے کہ انھیں کراچی کے میئر کا انتخاب لڑنے کا اشارہ مل گیا ہے۔ وسیم اختر نے جب انھیں ڈائریکٹر لگا یا تو انھوں نے قبول بھی اسی لیے کر لیا کہ وہ میئر کے لیے میدان میں آنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ شائد وسیم اختر کو اس کا اندازہ نہیں تھا۔ کہیں نہ کہیں کراچی میں مصطفی کمال کی واپسی کے اشارے مل رہے ہیں۔
ایم کیو ایم چار نشستوں تک محدو د ہے۔ اب ان سے کراچی کی بلدیات چھیننے کی تیاری ہے۔ شائد تحریک انصاف بھی کراچی نہیں جیت سکتی۔ اس لیے مصطفی کمال کے لیے راہ ہموار ہو رہی ہے۔