کام کو عزت دو کا نعرہ
پنجاب میں کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی جیت نے نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے کام کو عزت دو کا نعرہ استعمال کیا ہے، اس کے بہترین نتائج آئے ہیں۔ اس سے کم از کم ایک بات تو ثابت ہوئی کہ انتخاب جیتنے کے لیے صرف ووٹ کو عزت دو کا نعرہ ہی ضروری نہیں ہے بلکہ مسلم لیگ (ن) اپنی کارکردگی اور کام کی بنیاد پر بھی عوام سے ووٹ مانگ کر جیت سکتی ہے۔
کام کو عزت دو کا نعرہ جمہوریت کی بنیاد بھی ہے۔ ایک جمہوری حکومت عوام میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ہی اپنی مقبولیت قائم رکھ سکتی ہے، اگر لوگ آپ کی کارکردگی کی بنیاد پر آپ کو دوبارہ ووٹ ڈالنے کے لیے تیار ہیں تو اس سے بہترین کوئی اور بات نہیں ہو سکتی۔
میں سمجھتا ہوں کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگنا سب سے مشکل ہے۔ اسی لیے سیاسی جماعتیں کارکردگی کے بجائے ووٹ لینے کے لیے دیگر نعروں کا سہارا لیتی ہیں۔ لیکن اگر مسلم لیگ ن اپنے کام کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگ سکتی ہے تو یہ پاکستان کی سیاست میں ایک اچھا شگون ہے۔
میاں شہباز شریف پہلے دن سے اس بات کے قائل ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو اپنی کارکردگی اور عوامی خدمت کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگنے چاہیے۔ 2018کے انتخابات میں بھی ان کی رائے تھی کہ کارکردگی کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگنے چاہیے۔ ان کی رائے میں مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی ایسی ہے کہ ہم اس کی بنیاد پر ووٹ مانگ سکیں، ہمیں متنازعہ نعروں کاسہارا لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
آزاد کشمیر کے انتخابی مہم جس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف خاموش رہے، ان کی یہی رائے تھی کہ اگر مسلم لیگ (ن) اپنی کارکردگی کے بنیاد پر آزاد کشمیر کی عوام سے ووٹ مانگتی تو بہتر نتائج آسکتے تھے۔ ان کی رائے میں پانچ سال آزاد کشمیر میں حکومت کرنے کے بعد ہمیں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگنے چاہیے۔ ہم خوامخواہ ووٹر کو بھی کنفیو ژ کرتے ہیں اور پارٹی بھی کنفیوژ ہوتی ہے۔
کام کو عزت دو کے نعرہ پر انتخاب لڑنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ نے ووٹ کو عزت دو کی پالیسی کو ترک کر دیا ہے۔ لیکن اگر ووٹ کو عزت دو کی پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے عوام میں کام کو عزت دو کے نعرہ کے ساتھ جایا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔
بالخصوص پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اپنے کاموں کی بنیاد پر ووٹ بہت شان سے مانگ سکتی ہے۔ شہباز شریف کی کارکردگی آج بھی ان کے مخالفین کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) ہی اس کارکردگی کے نام پر ووٹ نہ مانگے تو اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ کا م ہی جمہوریت کی پہچان ہے۔ اس لیے کام کے نام پر ووٹ مانگنا جمہوریت کی پہچان ہونا چاہیے۔
پیپلزپارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی دوران اقتدار کارکردگی ایسی نہیں رہی ہے کہ دوبارہ عوام میں اپنے کام اور کارکردگی کے نام پر ووٹ مانگ سکیں۔ اس لیے یہ جماعتیں عوام سے دوبارہ ووٹ مانگنے کے لیے دیگر نعروں کا سہارا لیتی ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی کارکردگی پر بات ہی نہ کی جائے اور سیاسی ماحول کو الجھائے رکھا جائے کہ بات کارکردگی کی طرف جائے ہی نہ۔
اب تحریک انصاف کی بھی یہی کوشش ہے کہ وہ عوام کو سیاسی نعروں میں الجھائے کہ بات اس کی کارکردگی کی طرف جائے ہی نہ۔ اسی لیے ہمیں تحریک انصاف کی انتخابی مہم میں بھی کام اور کارکردگی کی کوئی بات نظر نہیں آتی۔ بلکہ تحریک انصاف کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو کام اور کارکردگی طرف آنے ہی نہ دے۔
ویسے بھی اگر ووٹ کو عزت دو اتنا ہی مقبول نعرہ ہے تو اس کے اثرات پنجاب سے باہر کیوں ختم ہو جاتے ہیں۔ کیا سندھ کے عوام ووٹ کو عزت دو پر یقین نہیں رکھتے۔ کیا کے پی کے عوام ووٹ کو عزت دو کے نعرہ پر یقین نہیں رکھتے۔ اور کیا بلوچستان کی عوام ووٹ کو عزت دو کے نعرہ پر یقین نہیں رکھتے۔ اس لیے یہ سوال اہم ہے کہ ووٹ کو عزت کا نعرہ اٹک سے آگے اور رحیم یار خان سے آگے کیوں اپنی طاقت کھو دیتا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ اصل میں مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی نے ہی پنجاب میں اس کے ووٹ بینک کو مستحکم رکھا ہوا۔
شہباز شریف کے ناقدین کے پاس کیا اس بات کا جواب ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پانچ سال مضبوط حکومتوں کے بعد بھی اگر وہاں ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے ساتھ کامیابی ممکن نہیں ہوئی تو اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ وہ مضبوط حکومتیں پنجاب میں شہباز شریف کی طرح عوام کی خدمت نہیں کر سکی تھیں۔
جہاں کام اور کارکردگی نہیں ہو گی وہاں لوگ ووٹ کو عزت دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہوں گے۔ جہاں کام اور کارکردگی بول رہی ہوگی وہاں ووٹ کی عزت خودبخود نظر آئے گی۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت رہی ہے لیکن اس وقت پارٹی وہاں سے ایک سیٹ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ایک بھی ایسا کام نہیں کر سکی جس کے نام پر آج وہاں ووٹ مانگے جا سکیں۔ اس لیے ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ لوگ ووٹ دیتے وقت کسی بھی سیاسی جماعت کی کارکردگی اور کام کو سامنے رکھتے ہیں۔
ووٹ دینے کے اور بھی محرکات ہو تے ہیں۔ کسی خاص موقع پر آپ کو ہمدردی اور مظلومیت کا ووٹ بھی مل جاتا ہے۔ جیسے پیپلزپارٹی نے پاکستان کی انتخابی تاریخ میں دو مرتبہ ہمدردی اور مظلومیت کے نام پر ووٹ لیا ہے۔ لیکن یہ ووٹ وقتی اور عارضی ہوتا ہے۔ یہ ایک خاص ماحول میں تو مل جاتاہے۔ ماحول تبدیل ہوجائے تو پھر ووٹرز محض ہمدردی اور مظلومیت کے نام پر دوبارہ ووٹ نہیں دیتے۔ دوبارہ کارکردگی کے نام پر ہی ووٹ لینا ہوتا ہے۔ یہی جمہوریت ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) اگر اپنی مستقبل کی حکمت عملی میں کام کو عزت دو اور کارکردگی کے بنیاد پر ووٹ مانگنے کا فیصلہ کرے تو اس کے لیے انتخاب جیتنا آسان ہوتا جائے گا۔ محاذ آرائی بھی کم ہوجائے گی اور جیت بھی آسان ہو جائے گی۔ بلا وجہ کی محاذ آرائی نے مسلم لیگ (ن) کو کوئی خاص فائدہ نہیں دیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر کام کو عزت دو کا نعرہ لگایا جا ئے گا تو لوگ ووٹ نہیں دیں گے۔ بلکہ اگر مسلم لیگ (ن) عوام کو صرف اور صرف کام اور کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دینے پر قائل کر سکے تو اس کے ووٹ بینک میں اضافہ ممکن ہے۔
لوگ موجودہ حکومت کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں۔ اس لیے وہ لوگ جو شاید ووٹ کو عزت دو سے متفق نہیں کام کو عزت دو پر مسلم لیگ (ن) کو ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ آج بھی اس بات پر تنقید ہوتی ہے کہ اپوزیشن عوام کے مسائل پر سیاست نہیں کر رہی ہے۔
اپوزیشن ایسے مسائل میں الجھی ہوئی جس کا عام آدمی کی زندگی سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ بیانیہ کی بحث نے مسلم لیگ (ن) کو عوام کے اصل مسائل سے دور کر دیا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ووٹ کی عزت پاکستان کا مسئلہ نہیں۔ لیکن شاید حکومتوں کی کارکردگی مہنگائی اور عوام کے دیگر مسائل زیاد ہ بڑے مسائل ہیں۔
پٹرول کی قیمت بڑا مسئلہ ہے، اور مسلم لیگ (ن) کے پاس ان مسائل پر عوام کا ووٹ حا صل کرنے کے لیے اپنی کارکردگی موجود ہے۔ اس لیے ان پر ووٹ مانگنا زیادہ آسان ہے۔ اگر کام پر ووٹ مانگنے سے شہباز شریف کی عزت بڑھتی ہے اور اس کی وجہ سے کام کے نام پر ووٹ مانگنے سے اجتناب کیا جاتا ہے تو اس پر افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔