جوڈیشل ایکٹوازم کا وقت نہیں ہے
آئین پاکستان کی قانونی لڑائی سپریم کورٹ پہنچ تک پہنچ چکی ہے۔ حکومت نے ایک ریفرنس دائر کیا ہے، جس میں عدالت عظمیٰ سے رائے مانگی گئی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے موقعے پر کیا منحرف ارکان اسمبلی کا ووٹ گنا جا سکتا ہے؟ کیا منحرف ارکان تاحیات نا اہل ہوں گے؟ سپریم کورٹ نے اس پر لارجر بنچ بنا دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ ریفرنس دائر کرتے وقت سرکار کی نیت مشکوک ہے۔
سیاسی حالات بتا رہے ہیں کہ حکومت اس ریفرنس کی آڑ لے کر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کارروائی میں تاخیر کرنا چاہتی ہے۔ اس ریفرنس کے چکر میں التوا حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے ہمیں اس ریفرنس کی کارروائی کو بغور دیکھنا ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں یقین دہانی کرائی ہے کہ کسی بھی ایم این اے کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکا نہیں جائے گا تاہم یہ ایک مبہم بیان ہے کیونکہ انھوں نے یہ یقین دہانی تو کرادی ہے کہ کسی رکن اسمبلی کو وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹ کاسٹ کرنے سے نہیں روکا جائے گا لیکن یہ یقین دہانی نہیں کرائی ہے کہ تمام ارکان اسمبلی کے ووٹ گنے بھی جائیں گے۔ حکومت کا اسپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے گیم پلان ہی یہی ہے کہ ووٹ گنے نہ جائیں۔ ووٹ کاسٹ تو ہوجائیں لیکن ان کی گنتی نہ کی جائے تو گننے کے عمل میں ریفرنس کے التوا کو بطور ہتھیار استعمال کیا جائے۔
اسی لیے ریفرنس اتنی تاخیر سے دائر کیا گیا ہے تا کہ تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے موقعے تک اس پر کوئی فیصلہ نہ ہو سکے۔ ورنہ یہ ارکان گزشتہ ایک ماہ سے حکومت سے الگ ہیں۔ جلسوں میں ان کی بات کی جا رہی تھی۔ لیکن حکومت نے ریفرنس نہیں دائر کیا جا رہا ہے۔
انتظار کیا جا رہا تھا کہ ریفرنس اتنا لیٹ دائر کیا جائے کہ اس کے التوا کو بطور ہتھیار عدم اعتماد کی گنتی کے موقع پر استعمال کیا جا سکے۔ عمومی رائے یہی ہے کہ اسمبلی کی لڑائی اسمبلی میں ہی لڑی جائے اور سپریم کورٹ کو بے وجہ نہ گھسیٹا جائے لیکن یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جب آئین توڑا جارہا ہو یا آئین سے انحراف کیا جائے گا تو پھر اس کا دفاع اور تحفظ سپریم کورٹ نے ہی کرنا ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک میں آئین سے کھلم کھلا انحراف شروع ہو جائے، پارلیمنٹ کو آئین کے مطابق نہیں بلکہ حکمران کی مرضی سے چلایا جائے اور سپریم کورٹ اس پر ایکشن نہ لے۔ میں سمجھتا ہوں، سپریم کورٹ کو ہر حال میں ملک میں آئین وقانون کی بالادستی قائم رکھنی ہے، اس سے چشم پوشی ممکن نہیں۔
آرٹیکل 63کا یہ ریفرنس عمران خان کے اقتدار کو طول دینے اور اسپیکر کو من مرضی کرنے کا موقع دینے کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ ابھی تک اٹارنی جنرل نے جو وووٹ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، اس کے ساتھ عدالت عظمیٰ کے لارجر بنچ کو ووٹ گنے جانے کی بھی یقین دہانی کرانی چاہیے تا کہ حکومت کے اگر کوئی سیاسی عزائم ہیں تو انھیں ناکام بنایا جا سکے۔
مجھے امید ہے کہ جب ایک دفعہ یہ طے ہو جائے کہ ووٹ ڈالنے کے ساتھ ہی ووٹ گنے بھی جائیں گے تو حکومت کی اس ریفرنس میں ساری دلچسپی ختم ہو جائے گی۔ حکومت کی دلچسپی آئین کے آرٹیکل کی تشریح میں نہیں ہے بلکہ اس کا واحد مقصد اپنے اقتدار کو طول دیناہے۔
اس لیے بادی النظر میں یہ ریفرنس دائر ہی بدنیتی سے کیا گیا ہے۔ نظام انصاف میں اس بات کو بہت اہمیت حاصل ہے کہ کیا آپ صاف نیت کے ساتھ عدالت میں آئے ہیں۔ اپنے مقاصد کے لیے نظام انصاف کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں سپریم کورٹ کو عدم اعتما دکی ووٹنگ تک اسلام آباد میں ہر قسم کے جلسے جلوس اور ریلی پر پابندی لگا دینی چاہیے تھی۔ جب فریقین ایک ہی دن جلسہ و جلوس اور ریلی کریں گے تو بے شک مقام الگ الگ بھی ہوں، تصادم کا خطرہ موجود رہے گا۔ اگر عدم اعتماد پر ووٹنگ تک اسلام آباد میں عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی جاتی تو یہ ملک کے لیے بہتر تھا۔ دفعہ 144نافذ تھی، اپوزیشن بھی اس پر مان جاتی۔ حکومت کا تو فرض ہے کہ قانون پر عمل کرے۔
تا ہم اب جب جلسوں کی اجازت دے دی گئی ہے تو مجھے لگتا ہے کہ تصادم کا خطرہ موجود رہے گا۔ ایسے میں جب 24مارچ سے اپوزیشن سڑکوں پر آجائے گی اور اسی دن سے اسلام آباد میں ریفرنس پر لارجر بنچ سماعت بھی شروع کرے گا تو ایک عجیب منظر نامہ بن جائے گا۔ میری رائے میں اس ریفرنس کو جلد از جلد نبٹانے کی ضرورت ہے اور قانونی پیچیدگیوں میں الجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس ریفرنس کو ایک آئینی معاملہ کے طور پر رائے دے کر جلد نبٹانے کی کوشش ہونی چاہیے۔ اگر ایک لمحہ کے لیے یہ نقطہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ ووٹ اجتماعی ہے تو کیا اس کے تحت آئین میں تحریک عدم اعتماد کا مقصد ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اگر ووٹ اجتماعی ہے تو پارلیمانی نظام کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے اور متناسب نمایندگی کا نظام رائج ہو جاتا ہے۔ ارکان اسمبلی کی اہمیت اور ضرورت ہی ختم ہو جاتی ہے اور پارٹی چیئرمین آمرمطلق بن جاتا ہے۔
اس لیے اگر تحریک عدم اعتماد کے آئینی عمل کو زندہ رکھنا ہے تو ارکان اسمبلی کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع بھی دینا ہوگا۔ ارکان اسمبلی کو بھیڑ بکریاں نہیں سمجھا جاسکتا۔ کم از کم قانون اور نظام انصاف تو یقیناً ایسا نہیں سمجھتا، مجھے تو اس میں کوئی ابہام نظر نہیں آتا۔
ماضی میں جوڈیشل ایکٹوازم کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ بالخصوص دو سابق چیف جسٹس صاحبان کے جوڈیشل ایکٹوازم کو قانون دان حلقوں اور سنجیدہ اور فہمیدہ شہری حلقوں میں سراہا نہیں جاتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی جوڈیشل ایکٹوازم سیاسی طور پر بھی کسی کوکوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔