جماعت اسلامی کا دوسرا جنم
جماعت اسلامی بھی سڑکوں پر ہے۔ ملک بھر میں جماعت اسلامی کے آزادی کشمیر مارچ ہو رہے ہیں۔ کراچی کے بعد لاہورمیں بھی آزادی کشمیر مارچ ہو گیا ہے۔ ملک کے عمومی سیاسی منظر نامے میں اس وقت ان آزادی کشمیر مارچ کی وہ اہمیت نہیں ہے جو ہو سکتی تھی۔
یہ درست ہے کہ ملک میں کشمیر اس وقت بہت بڑ ا ایشو ہے۔ لیکن پھر بھی مولانا فضل الرحٰمن کے دھرنے نے ملک کا سیاسی منظر نامہ ہائی جیک کیا ہوا ہے۔ ادھر ایل او سی تک مارچ کا بھی شہرہ ہے۔ لیکن پھر بھی جماعت اسلامی کے آزادی کشمیر مارچ میں عوامی شرکت کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے۔ آزادی کشمیر مارچ سے بلا شبہ جماعت اسلامی کو دوسرا جنم ملا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ سراج الحق اور امیر العظیم کی جانب سے جماعت اسلامی کو اتحادی سیاست کی دلدل سے نکال کر اپنے جھنڈے اور اپنے پلیٹ فارم سے فعال کرنے کی حکمت عملی کے ثمرات آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ابتدائی طور پر میرا بھی یہ خیال تھا کہ جماعت اسلامی کا سیاسی کارکن اور ووٹر ان سے مستقل ناراض ہو گیا ہے۔ اس لیے جماعت اسلامی کی سیاست کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔
تا ہم جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل بننے کے بعد سے امیر العظیم کا موقف رہا کہ ووٹر اور کارکن ناراض نہیں ابہام کا شکار ہے۔ جیسے جیسے یہ ابہام دور ہوتا جائے گا ویسے ویسے ہمارا کارکن اور ووٹر دوبارہ ہمارے نشان اور جھنڈے تلے آتا جائے گا۔ ابتدائی طور پر یہ ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔ بالخصوص 2018 کے انتخابی نتائج اس کی نفی کر رہے تھے۔ سونے پر سہاگا متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے انتخابات لڑنے کے فوری بعد جماعت اسلامی نے متحدہ مجلس عمل اور مولانا فضل الرحمٰن سے علیحدگی اختیار کر لی۔ جس کا بھی سیاسی فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہونے کاا مکان تھا۔
جماعت اسلامی کے حالیہ آزادی مارچ اس کے دوسرے جنم کی نوید سنا رہے ہیں۔ جس بڑی تعداد میں لوگ ان میں آئے ہیں۔ ا س سے یقینا جماعت اسلامی کی قیادت کے حوصلہ بلند ہوئے ہوں گے۔ انھیں ڈوبتی اور مرتی جماعت اسلامی میں دوبارہ زندگی نظر آرہی ہوگی۔ ناراض کارکن میں جوش دوبارہ نظر آرہا ہوگا۔ لاہور سمیت تمام شہروں میں ہونے والے مارچ میں عوام کی شرکت قابل ذکر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے جماعت اسلامی کی سیاست زندہ ہوئی ہے۔
مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور وہاں کرفیو کے نفاذ کے بعد صرف جماعت اسلامی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جو مسئلہ کشمیر کو لے کر چل رہی ہے۔ اگر آپ 5اگست کے بعد سے جماعت اسلامی کی سرگرمیوں کو دیکھیں تو آپ کو ان میں ایک تسلسل نظر آئے گا۔ سب سے پہلے چھ اگست کو امیر العظیم نے لاہور پریس کلب کے سا منے احتجاجی مظاہرہ سے تحریک کا آغاز کیا۔
اس کے بعد ملک بھر میں آزادی کشمیر مارچ کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ جس کے تحت کندھ کوٹ، ایبٹ آباد، گوجرہ، جیکب آباد، سیالکوٹ، سوات، لوئر دیر، گوجرانولہ، حافظ آباد، اوکاڑہ، مانسہرہ، اسلام آباد، کراچی، پشاور میں مارچ کیے گئے ہیں۔ جماعت اسلامی نے اسی سلسلہ میں اب 16اکتوبر کو اسلام آباد میں کشمیر آزادی مارچ کا اعلان کیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ مارچ حکومت کے لیے خطرہ نہیں ہے۔ اس کا ہدف حکومت کو گرانا نہیں ہے۔ یہ پر امن مارچ ہوگا۔ اس میں بھی مسئلہ کشمیر کی بات کی جائے گی۔ حکومت کی کشمیر پالیسی پر تنقید کی جائے گی۔ لیکن پھر بھی اس مارچ کی ایک بڑی اہمیت بن گئی ہے۔
ایک طرف مولانا فضل الرحمٰن نے 27اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف آزادی مارچ کا اعلان کیا ہوا ہے۔ جب کہ اس سے پہلے جماعت اسلامی اسلام آباد میں مارچ کرنے جا رہی ہے۔ جماعت اسلامی کا اسلام آباد مارچ حکومت کے لیے اتنا ہی خطرنا ک ہوسکتا ہے جتنا مولانا فضل الرحمٰن کا۔ میری حکمرانوں سے درخواست ہے کہ جماعت اسلامی کے مارچ کو فرینڈلی نہ سمجھا جائے۔ یہ درست ہے کہ سراج الحق ابھی حکمرانوں کو فوری طو رپر گھر بھیجنے کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں دھرنا دینے کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ وہ عمران خا ن سے ابھی استعفیٰ بھی نہیں مانگ رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی جماعت اسلامی کا کشمیر آزادی مارچ حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ کرے گا۔
سراج الحق ابھی تک حکومت کی کشمیر پالیسی سے خوش نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں حکومت کشمیر کا مقدمہ درست نہیں لڑ رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت نے انھیں اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سراج الحق شامل نہیں ہوئے۔ حالانکہ میری رائے تھی کہ جب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک ڈیڈ لاک کی صورتحال ہے ایسے میں سراج الحق کو ایک پل کا کردار ادا کرتے ہوئے حکومتی کمیٹی میں شامل ہونا چاہیے۔
تا ہم جماعت اسلامی نے حکومتی کمیٹی میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ شاید جماعت اسلامی اس وقت اپنا وزن حکومت کے پلڑے میں نہیں ڈالنا چاہ رہی۔ لیکن دوسری جماعت اسلامی اپنا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں بھی نہیں ڈال رہی۔ وہ دونوں سے دور رہ رہی ہے۔ آپ دیکھیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے سے جماعت اسلامی نے خود کو شعوری طور پر لاتعلق رکھا ہوا ہے۔ ایک طرف جب ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اس دھرنے کی سیاست میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ جماعت اسلامی خود کو اس سے الگ رکھ رہی ہے۔
لیکن ایک ایسا منظر نامہ بھی بن سکتا ہے جب مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد میں دھرنا دے چکے ہوں۔ اور حکومت اور مولانا کے درمیان مذاکرات کی ضرورت محسوس ہونے لگے تب پھر سراج الحق کا کردار سامنے آسکتا ہے۔ لیکن سراج الحق یہ کردار پہلے بھی ادا کر چکے ہیں۔ جب عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تب بھی سراج الحق ہی وہ واحد سیاسی شخصیت تھے جو مذاکرات کے لیے درمیان میں آئے تھے۔
لیکن شاید سراج الحق اور جماعت اسلامی نے اس ثالثی سے سبق سیکھ لیا ہوگا۔ اور اب وہ ایسی کسی سیاسی ثالثی میں شریک نہیں ہونا چاہیں گے۔ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ ثالثی ایک بے لذت گناہ کے سوا کچھ نہیں۔ مطلب نکل جانے کے بعد دونوں فریق ہی ناراض ہو جاتے ہیں۔
آپ دیکھیں کہ عمران خان کے دھرنوں میں ثالثی میں پہلے تو دونوں فریق بہت خوش ہوئے لیکن بعد دونوں نے ہی جماعت اسلامی کو نظر انداز کیا۔ کیا یہ دیکھنا اہم نہیں ہے کہ اس ثالثی کا سیاسی طور پر سراج الحق کو فائدہ ہوا یا نقصان۔ سیاست ایک بے رحم کھیل ہے، اس میں بے لذت گناہوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جماعت اسلامی نے اپنے نشان اور اپنے جھنڈے کے تحت سیاست کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے۔ اس کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ جلسوں اور ریلیوں میں شرکا کی تعداد میں بہت بڑی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ ووٹ بینک میں بھی اضافہ ہوگا۔ یہ جماعت اسلامی کا دوسرا جنم ہوگا۔ کیونکہ اتحادی سیاست کی دلدل میں پھنس کر کے جماعت اسلامی اپنے ووٹر اور کارکن سے دور ہو گئی تھی۔ اب دوبارہ یہ راستہ مشکل ضرور ہے لیکن کامیابی نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔