جام کمال کیوں مستعفی ہوئے؟
بلوچستان میں تبدیلی کی ہوائیں چل پڑی ہیں۔ جام کمال نے بالآ خر استعفیٰ دے دیا ہے۔ حالانکہ وہ چوبیس گھنٹے قبل تک استعفیٰ نہ دینے کا اعلان کر رہے تھے۔
وہ بار بار تردید کر رہے تھے کہ ان کا مستعفی ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن میڈیا بھی بضد تھا کہ انھوں نے مستعفی ہونا ہی ہے، وہ استعفیٰ دے رہے ہیں اور بالاخر ہم نے دیکھا کہ انھوں نے استعفیٰ دے ہی دیا۔ وہ ہار گئے۔ جاتے جاتے دکھی دل کے ساتھ انھوں نے بہت باتیں کی ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ تبدیلی کی ہوائیں بلوچستان سے چلنا شروع ہو گئی ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ جام کمال بار بار مستعفی نہ ہونے کا اعلان کس بنیاد پر کر رہے تھے؟ انھیں کیا اور کس امید پر قائم تھے اور وہ امید کب ٹوٹی؟ ویسے تو یہ جام کمال کے خلاف دوسری دفعہ عدم اعتماد جمع کرائی گئی تھی۔ پہلی عدم اعتماد کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کوئٹہ گئے اور انھوں نے جام کمال کو معاملات ٹھیک کرنے کے لیے پندرہ دن کا وقت دے دیا۔
جام کمال کے اپنے ساتھیوں نے ان کے سامنے مطالبات کی ایک لمبی فہرست رکھی۔ انھوں نے پندرہ دن میں یہ مطالبات پورے کرنے تھے۔ تب بھی سب کو اندازہ تھا کہ جام کمال جا رہے ہیں۔ پندرہ دن میں کچھ نہیں ہونا۔ البتہ یہ رائے بھی تھی کہ شاید جام کمال معاملات کو سنبھال لیں۔
اس دوران جام کمال نے اسلام آباد کا دورہ بھی کیا، وہ وزیر اعظم سے بھی ملے اور دیگر اہم لوگوں سے بھی ملاقات کی۔ خبریں یہی ہیں کہ وزیر اعظم آخری دم تک ان کے ساتھ تھے۔ وہ بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کے حق میں نہیں تھے۔
انھوں نے پوری کوشش بھی کہ کسی نہ کسی طرح یہ بحران ٹل جائے لیکن جس طرح جب مسلم لیگ (ن)کے دور میں ثناء اللہ زہری کی حکومت ختم کی جا رہی تھی تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بے بس نظر آئے۔ اسی طرح اب جب بلوچستان میں جام کمال کی حکومت ختم ہو رہی تھی تو وزیر اعظم عمران خان بھی بے بس نظر آئے ہیں۔ تب شاہد خاقان عباسی نے تو اپنا کردار اداکرنے کی کوشش بھی کی، وہ کوئٹہ بھی گئے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔ لیکن شاید عمران خان کو شاہد خاقان عباسی سے اندازہ تھا کہ جب فیصلہ ہو جائے تو وزیر اعظم کچھ نہیں کر سکتا۔ اس لیے انھوں نے چاہتے ہوئے بھی کوشش نہیں کی تا ہم بے بسی عیاں تھی۔
جام کمال وزیر اعظم کی حمایت کے بعد پر اعتماد تھے۔ دورہ اسلام آباد کے بعد انھوں نے پر اعتماد بیانات بھی دیے۔ جس دن عدم اعتماد پیش ہوئی اس دن بھی وہ پر اعتماد تھے۔ لیکن انھیں اسلام آباد سے جس مدد کا یقین تھا وہ نہیں مل سکی۔ جام کمال کو پہلا دھچکا تو اس وقت لگا جب جام کمال کے پانچ مخالف ارکان کے غائب ہونے کے باجود ان کے مخالفین نے عدم اعتماد کی منظوری کے لیے 33ارکان کا ہدف حاصل کر لیا۔ اگر اس دن ارکان 32ہو جاتے تو جام کمال بچ جاتے۔ پانچ ارکان غائب تھے۔ ایک دم درود کی وجہ سے لیٹ پہنچا پھر بھی 33 پورے ہو گئے۔
اس لیے کہیں نہ کہیں جام کمال کی مدد کی بھی جا رہی تھی لیکن وہ اتنی موثر اور طاقتور نہیں تھی کہ وہ بچ ہی جاتے۔ پانچ ارکان کے غائب ہونے کا انھیں براہ راست فائدہ تو تھا لیکن یہ فائدہ اتنا نہیں تھا کہ بحران ختم ہی ہو جاتا۔
اپوزیشن اپنے ارکان کے غائب ہونے پر مسلسل شور مچاتی رہی۔ وہ اپنے ارکان کو مسنگ پرسن قرار دے رہے تھے۔ اسمبلی کا بھی عجب منظر تھا کہ عدم اعتماد پیش ہوچکی ہے اور چار ارکان تو مکمل غائب تھے۔ ایک دم درود کے بعد واپس آگئے۔ یہ چار ارکان جہاں بھی تھے اس کا فائدہ جام کمال کو ہو رہا تھا۔ اگر ایک رکن اور غائب ہو جاتا تو عدم اعتماد ناکام ہو سکتی تھی۔ اس لیے جام کمال کے لہجہ میں اعتماد نظر آرہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ انھیں یقین دہانی تھی ارکان عدم اعتماد پر رائے شماری سے پہلے منظر پر نہیں آئیں گے۔ یہی جام کمال کے بچنے کا واحد راستہ تھا۔ انھوں نے صرف دو ارکان اور توڑنے تھے جو زیادہ مشکل کام نہیں تھا۔
لیکن پھر عجیب بات ہو گئی چار مسنگ ارکان یک دم منظر عام پر آگئے۔ سب کے سب اسلام آباد سے ہی منظرعام پر آگئے۔ کسی نے کہا وہ علاج کے لیے آیا تھا۔ ایک نے کہا کسی کی خیریت دریافت کرنے کے لیے آیا تھا۔ حیرانی کی بات ہے کہ اسلام آباد میں سب کے فون بھی بندتھے۔ حالانکہ آج کل تو بندہ اب مر بھی جائے تو اس کا فون بند نہیں ہوتا جب کہ یہ ارکان تو زندہ سلامت تھے لیکن فون بند تھے اور انھی کی گمشدگی میں جام کمال کی وزارت اعلیٰ کی جان تھی۔
لیکن پھر حالات بدل گئے، گمشدہ ارکان مل گئے۔ وہ میڈیا کے سامنے بھی آگئے۔ انھوں نے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔ وہ کوئٹہ پہنچ گئے اورجام کمال کے مخالف کیمپ میں شامل ہو گئے۔ میری رائے میں یہ وہ موقع تھا جب جام کمال کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں، ان کی اسلام آباد سے امیدیں بھی دم توڑ گئیں۔ ارکان کا منظر عام پر آنا ہی جام کمال کے لیے نوشتہ دیوار بن گیا۔ انھیں سمجھ آگئی کہ وہ ہار گئے ہیں حالانکہ اس سے پہلے وہ کافی پر امید تھے۔ ان ارکان کا منظر عام پر آنا تاحال معمہ ہے۔ یہ کس کے پاس تھے اور کون ان کو منظر عام پر لایا، جب یہ کہانی سامنے آئے گی تو سب کی سمجھ میں آجائے گا کہ کھیل کیا تھا۔
جام کمال بلوچستان کے پہلے وزیر اعلیٰ نہیں ہیں جن کے خلاف عدم اعتماد آئی ہے۔ وہاں کسی نے کبھی مدت پوری نہیں کی ہے، سب نے ہی استعفیٰ دیا ہے۔ اس لیے جب جام کمال مستعفی ہونے سے انکار کر رہے تھے تو یہ بلوچستان کی روایت کے خلاف تھا۔ اگر عدم اعتماد پر رائے شماری ہوجاتی تو یہ ایک نئی روایت ہوتی۔ ماضی میں بھی ہم نے استعفے ہی دیکھے ہیں۔ اب بھی استعفیٰ ہی آیا ہے۔
کیا جام کمال کے استعفیٰ کا ملک کے سیاسی منظر نامے پر کوئی اثر ہوگا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ باپ پارٹی تقسیم ہو گئی ہے۔ جس کے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں براہ راست اثرات ہوں گے۔ دونوں جگہ یہ تقسیم خطرناک نتائج دے سکتی ہے۔ صادق سنجرانی کے لیے زیادہ خطرات ہوں گے۔ اگر اپوزیشن دوبارہ متحد ہو گئی تو ان کا جانا ممکن ہوسکتاہے۔ جام کمال کے بعد اگلا نمبر ہو سکتا ہے اور بعد میں سفر آگے بڑھ سکتا ہے۔ بظاہر یہ ممکن نہیں لگتا کہ تبدیلی کا کھیل بلوچستان میں ہی رک جائے۔ ماضی میں ایسا ہو ا ہے اور نہ ہی اب ایسا ہوگا۔ بلوچستان میں جب بھی تبدیلی آئی ہے، اس کے مرکز میں بھی اثرات آئے ہیں لہٰذا اب بھی آئیں گے۔
عمران خان کے لیے خطرناک کی بات یہ ہے کہ بلوچستان میں مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت جے یو آئی کھیل میں واپس آگئی ہے کیونکہ جام کمال کی تبدیلی ان کے بغیرممکن نہیں تھی۔ اس لیے اگلی حکومت ان کی مرضی سے آئے گی۔ یہ ابھی طے نہیں کہ ان کی جماعت وزارتیں لے گی کہ نہیں۔ لیکن یہ اہم بات ہے اگلی حکومت ان کی دوست حکومت ہو گی۔ ان کے لیے اقتدار کے راستے کھل گئے ہیں۔
اسی لیے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مولانا سے پہلے دھرنے میں جو وعدے کیے گئے تھے، اب وہ پورے کیے جا رہے ہیں۔ تاخیر ہو ئی ہے۔ لیکن وعدے پورے رہے ہیں۔ اگر ایسا مان لیا جائے تو یہ بھی عمران خان کے لیے الارمنگ ہے۔ باقی معاملات سب کے سامنے ہیں۔ کون سا کھیل کہاں پھنسا ہوا ہے۔ سارے پاکستان کے علم میں ہے، اس پر لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔