جیل سے رانا ثناء اللہ کا ایک خط
پاکستان مسلم لیگ (ن) آج اقتدار میں نظر آرہی ہے، لیکن اقتدار کی یہ منزل ان کے لیے کوئی آسان نہیں رہی ہے۔ دوبارہ اقتدار تک پہنچنے کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صف اول کی قیادت نے قید و بند کی وہ صعوبتیں برداشت کی ہیں جن کا تصور بھی ممکن نہیں۔ آج کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک طویل قید کاٹی ہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف، احسن اقبال اور مفتاح اسماعیل سمیت سب نے جیلیں کاٹی ہیں۔
نو منتخب وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز شریف نے بھی لمبی جیل کاٹی ہے۔ حتیٰ کے جب ان کی بیٹی پیدا ہوئی تب بھی وہ جیل میں ہی تھے اور اسے کافی عرصہ نہ دیکھ سکے۔ خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان کی جیل نہ صرف طویل تھی بلکہ مشکل بھی تھی۔ لیکن رانا ثناء اللہ کی جیل ان سب کی جیل سے مشکل اور سخت جیل تھی۔
جس طرح رانا ثناء اللہ کو منشیات میں پکڑا گیا، جیل میں رکھا گیا، اس کی کسی بھی مہذب معاشرہ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ وہ وقت تھا جب رانا ثناء اللہ کے حق میں بات کرنا بھی مشکل تھا۔ لیکن رانا ثناء اللہ نے وہ وقت بھی نہایت ہمت اور حوصلہ سے گزار لیا۔ آج اقتدار ان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
رانا ثناء اللہ نے جیل سے مجھے ایک خط لکھاتھا۔ یہ خط اس وقت شایع کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ممکن نہ ہو سکا۔ وہ وقت ہی عجیب تھا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں رانا ثناء اللہ کا یہ خط شایع کرنے کا آج بہترین وقت ہے۔ مجھے امید ہے آج جب اقتدار کے گیت رانا ثناء اللہ کے دروازے پر گنگنا رہے ہیں۔
یہ خط ان کے لیے بھی ایک یاد دہانی سے کم نہیں ہوگا لیکن قارئین کے لیے بھی یہ خط کے مندرجات جاننا ضروری ہے کہ اس وقت سیاسی مخالفین کو کس قسم کے انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ خط آج کی حکومت اور جانیوالی حکومت دونوں کے لیے ہی اہم ہے، کیونکہ وقت کیسے تیزی سے بدلتا ہے، یہ خط اس کی زندہ مثال ہے۔ قارئین کے لیے خط حاضر ہے۔
محترم بھائی مزمل سہروردی صاحب:
اسلام علیکم!
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ اللہ آپ کو حفظ و امان میں رکھے۔ میری خیریت تو آپ کو معلوم ہی ہوگی۔ کیمپ جیل لاہور کے اندر ایک اور جیل ہے جو میرا جائے مسکن ہے۔ جس طرح جیل والوں کا باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔ میرا جیل کے اندر جیل والوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے۔
یہاں جیل میں خواجہ سعد رفیق سمیت کوئی سو کے قریب دوست موجود ہیں جو اکٹھے ہیں۔ لیکن جیل میں اڑھائی ماہ ہونے کے باوجود میری ان سے ملاقات ممکن نہیں۔ حتیٰ کے عید پر بھی مجھے ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
ویسے قیدی ایک دوسرے کو عید مل سکتے ہیں۔ لیکن میں نہیں۔ مجھے سیکیورٹی وارڈ میں رکھا جاتا ہے۔ وہاں ڈیوٹی کے علاوہ جیل ملازمین اور جیل افسران کا داخلہ بھی ممنوع ہے۔ بلکہ جن ملازمین کی ڈیوٹی ہوتی ہے انھیں بھی باہر سے تالہ لگا کر ڈیوٹی کے دوران بند کر دیا جاتا ہے تا کہ انھیں ملنے کے بہانہ سے کوئی مجھ سے نہ مل سکے۔
کچھ دن میں اس سخت ڈیوٹی کی وجہ سے ملازمین بیمار پڑ جاتے ہیں اور ڈیوٹی سے بھاگ جاتے ہیں لیکن میں وہیں قید رہتا ہوں۔ خیر یہ وقت بھی انشاء اللہ گزر ہی جائے گا۔ اخبار کبھی کبھار دوسرے تیسر ے ہاتھ پرانا مل جاتا ہے۔ ایک کئی دن پرانے اخبار میں مجھے آج آپ کا کالم ـ ـ"پولیس اصلاحات ہوں اور کیسے "دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ماشاء اللہ زور قلم کافی زور پکڑ رہا ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ہو۔
آپ نے بہت خوب خوب عملی سطح پر جا کر بہت مناسب اور قابل عمل تجاویز دی ہیں۔ جو آپ کے ذاتی مشاہدے کی گواہی دیتی ہیں۔ میں بھی انھی معاملات پر کام کرنے کا تجربہ رکھتا ہوں۔ ایسا ہونا چاہیے۔ لیکن ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ سے لے کر آئی جی جس پر ذمے داری آتی ہے کوئی بھی آزاد خود مختار یا با اختیار نہیں۔ ایک نا معلوم قوت ہر چیز کو احاطہ بلکہ جکڑے ہوئے ہوتی ہے۔
پارلیمنٹ میں۔ 70 80-ایسے لوگ بیٹھے ہیں جنھیں عوام نے منتخب نہیں کیا بلکہ کروائے گئے ہیں اور وہی بیلنس ہیں۔ میڈیا بظاہر آزاد ہے لیکن نہیں ہے۔ ایسا کئی دہائیوں سے ہے۔ اور اب صورتحال اس حد تک پیچیدہ ہو چکی ہے کہ مزید زیادہ دیر تک اس کا قائم رہنا قانون فطرت کے خلاف ہے۔ اگر اس طرح سے ملک چلائے جا سکتے ہوتے تو شہنشاہ ایران تا حیات حکومت کرتا رہتا۔
ہمیں اس پر غور و فکر اور توجہ دینی چاہیے۔ مزمل صاحب مجھے بتائیں کہ جب حکومت وقت اپنے مخالفین کو بغیر ثبوت، وجہ اور اصول جیلوں میں بند کر دے، جیلوں کے اندر ایذا اور تکلیف پہنچائے۔ کیا اس میں کوئی شک ہو سکتا ہے کہ مجھے سڑک سے گرفتار کر کے ہیروئین برآمدگی کا کیس بنا کر پچھلے اڑھائی ماہ سے جیل میں بند کیا گیا ہے۔ جج کو ضمانت لینے سے روکا گیا۔ کسے نہیں معلوم میرے مقدمے میں وزیر اعظم خود فریق ہے۔
ایسے میں بیچارہ آئی جی کیا کر سکتا ہے۔ اس سے پہلے جو دو آئی جی صاحبان پنجاب میں جس طرح سے تبدیل ہوئے آپ کو بخوبی علم ہے۔ ہمیں اگر عوام نے 2013میں مینڈیٹ دیا تھا تو صرف چھ ماہ بعد ہی ہمارے پیچھے ایسا دھرنا لگایاگیا کہ کام یا اصلاحات کیا کرتے خود کو بچانے میں ہی وقت گزر گیا۔ وہی "نامعلوم قوت"یہ تو خدا کا شکر ہے کہ بچتے بچاتے سی پیک بجلی کی پیداوار اور دہشت گردی کے خلاف کچھ کامیابی مل گئی، ورنہ صفر بٹا صفر تھا۔ اور پھر جو الیکشن 2018میں ہواوہ سب کے سامنے ہے۔
جب تک یہ حالات رہیں گے میرے بھائی سہروردی صاحب۔ IGصاحب کچھ نہیں کر پائیں گے۔ اور تھانے میں بیٹھا اللہ دتہ تھانیدار خود نہیں بدلے گا، اس کا جس پر زور چلے گا چلائے گا۔ اگر حکومت سیاسی انتقام میں میرے خلاف کیس بنا سکتی ہے جو جھوٹ اور فراڈ ہے۔ تو اللہ دتہ کی پہنچ مجھ تک تو نہیں لیکن جس تک ہے وہ کام دکھائے گا۔
بہر حال آپ کا کالم پڑھ کر خوشی ہوئی۔ آپ اپنے حصے کا کام کر تے رہیں اور میرے لیے دعا کریں۔ آپ جیسے دوستوں کا حوصلہ اور دعا ہی مشکل وقت میں کام آتی ہے۔ اللہ ہمیں سرخرو کرے۔ (آمین۔)
دعا گو۔ رانا ثناء اللہ ڈسٹرکٹ جیل، لاہور
رانا ثناء اللہ کا یہ خط بیان کرتا ہے کہ انھیں جیل میں کس طرح رکھا گیا۔ ان پر کس طرح ظلم کیا گیا۔ باہر سے تودور کی بات ان کی جیل کے اندر بھی ملاقاتیں بند تھیں۔ عید والے دن بھی کسی سے نہیں ملنے دیا گیا۔ دوست بتاتے ہیں کہ شدید گرمی کے دنوں میں بھی رانا ثناء اللہ جرابیں پہن کر سونے پر مجبور تھے کیونکہ ان کے سیل میں کیڑے اتنے زیادہ ہوتے تھے کہ رات کو سوتے وقت کاٹتے تھے۔ ان سے بچنے کے لیے وہ شدید گرمی میں پورے بازوں کے کپڑے اور جرابیں پہننے پر مجبور تھے۔ پنکھا بند رہتا تھا۔ ایسی جیل کا تصور کر کے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
لیکن رانا ثناء اللہ نے یہ جیل بہت حوصلے اور ہمت سے کاٹی۔ جب سب کہتے تھے اب رانا ثناء اللہ کو موت کی سزا ہو جائے گی وہ زندگی سے مایوس نہیں تھے۔ جیل سے رہائی کے بعد بھی رانا ثناء اللہ نے بہت جارحانہ سیاست کی۔ ان کی سوچ اور لہجے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ جیل سے زیادہ مضبوط ہو کر نکلے۔ مجھے امید ہے کہ رانا ثناء اللہ نے تھانہ اصلاحات کا جو وعدہ جیل میں بذریعہ خط کیا ہے۔ وہ اس پر قائم رہیں گے، کیونکہ پاکستان میں پولیس اصلاحات ناگزیر ہیں۔