جہانگیر ترین گروپ بند گلی
حکومت کے اتحادیوں نے رنگ بدلنے شروع کر دیے ہیں۔ جہانگیر ترین اس کھیل میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے جیسے جہانگیر ترین کھیل میں شامل ہوں گے، کھیل واضح بھی ہوتا جائے گا اور عمران خان کے لیے مشکلات بھی بڑھتی جائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ جہانگیر ترین کہاں جائیں گے؟ کیا وہ اس موقعے پر عمران خان کو سپورٹ کرنے کا رسک لے سکتے ہیں؟ کیا جہانگیر ترین کے ساتھیوں کو یہ اندازہ نہیں کہ عمران خان ان کو اگلی بار ٹکٹ نہیں دیں گے۔ جہانگیر ترین گروپ میں شمولیت کے بعد ان کی تحریک انصاف میں جگہ ختم ہو چکی ہے، اس لیے انھیں اب اپنی اگلی منزل طے کرنا ہے۔ موجودہ سیاسی صو رت حال اس سے بہتر موقع نہیں دے سکتی۔
یہ درست ہے کہ جہانگیر ترین کی ن لیگ سے زیادہ پیپلزپارٹی میں دوستیاں ہیں۔ ان کی رشتے داریاں بھی پیپلزپارٹی میں ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو پیپلزپارٹی ان کی پہلی چوائس ہونی چاہیے۔ لیکن ان کے ساتھ جو لوگ ہیں، پیپلزپارٹی ان کی پہلی چوائس نہیں ہو سکتی۔ بالخصوص پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کو پیپلزپارٹی میں جانے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔
آپ اندازہ لگائیں راجہ ریاض جیسے لوگ پیپلزپارٹی جو چھوڑ کر آئے ہیں، اب دوبارہ پیپلزپارٹی میں کیسے چلے جائیں۔ پیپلزپارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ جیت کی گارنٹی نہیں ہے۔ اس سے بہتر ہے جہانگیر ترین کے لوگ آز اد حیثیت میں ہی الیکشن لڑ لیں۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر پنجاب میں الیکشن لڑنا کوئی سیاسی دانشمندی نہیں سمجھی جا سکتی۔ اس لیے جہانگیر ترین کے لوگ کسی بھی صورت میں پیپلزپارٹی کے ساتھ آگے نہیں چلنا چاہیں گے۔ پارلیمنٹ میں پہنچنے کے لیے انھیں پیپلزپارٹی اچھی چوائس نہیں لگے گی۔
ان کی پہلی اور آخری چوائس ن لیگ ہی نظر آرہی ہے۔ ان سب کی خو اہش یہی نظر آرہی ہے کہ ن لیگ کے ساتھ ہی ایڈ جسٹمنٹ ہو جائے، اس طرح اگلے الیکشن میں انھیں اپنی جیت نظر آتی ہے۔ وہ اپنے اپنے حلقوں میں تحریک انصاف کو بھی شکست دے سکیں گے۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ ن لیگ کے پاس پہلے ہی ان حلقوں میں مضبوط امیدوار موجود ہیں۔
ن لیگ موجودہ سیاسی صورتحال میں جہانگیر ترین گروپ کے کتنے لوگوں کو اکاموڈیٹ کرنے کی پوزیشن میں ہے؟ کس کس کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ممکن ہے اور کس کے ساتھ ممکن نہیں۔ یہی خد شات جہانگیر ترین کو ن لیگ کے ساتھ جانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ن لیگ کا ماضی بھی اس حوالے سے کوئی خاص اچھا نہیں ہے۔ ٹکٹ دینے کے وقت ن لیگ بہت سخت ہو جاتی ہے۔ ماضی میں ہم نے اتحادیوں کو ٹکٹ کے لیے روتے بھی دیکھا ہے۔ اس لیے جہاں ضرورت ہے وہاں خدشات بھی ہیں۔
اس صورت حال میں دیکھا جائے تو جہانگیر ترین گروپ تاحال بند گلی میں گھومتا ہوا نظر آتا ہے۔ عمران خان کے ساتھ جانا نہیں چاہتے کیونکہ وہاں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ جانے میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی نقصان ہے۔ ن لیگ کی ضرورت ہے لیکن اس پر اعتبار نہیں ہے، وہ دھوکا دے سکتی ہے۔
ایسے حالات میں جائیں تو جائیں کہاں ؟ سیاسی کھیل جہانگیر ترین گروپ کے لیے مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ جہانگیر ترین اپنے گروپ کو وسیع نہیں کر رہے دوسری طرف یہ بھی منظر نامہ ہے کہ آخر وہ کتنے لوگوں کو آگے اکاموڈیٹ کرا سکتے ہیں۔ اپنے لوگوں سے سیاسی خودکشی تو نہیں کرانی ہے۔ ایسے میں گروپ کی تعداد اتنی ہی رکھنی چاہیے، جن کو سنبھالا جا سکے۔
کیا جہانگیر ترین کے پاس عمران خان کے پاس واپسی کا کوئی راستہ ہے؟ مجھے نہیں لگتا۔ ن لیگ کے حوالے سے تو صرف شک ہے کہ وہ دھوکا نہ دے دے جب کہ عمران خا ن کے بارے میں تو سب کویقین ہے کہ وہ اس مشکل سے نکل گئے تو وہ جہانگیر ترین سمیت ان کے سب لوگوں کو عبرت کا نشان بنانے کی کوشش کریں گے، اس لیے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ واپسی میں سیاسی موت یقینی ہے۔
آگے تو پھربھی زندگی کے آثار ہیں۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ اب واپسی کا کوئی راستہ ہے۔ ویسے بھی عمران خان نے واپسی اور صلح کے بہت سے مواقعے ضایع کیے ہیں۔ وہ پہلے صلح کر سکتے تھے، اب وقت گزر گیا ہے۔ اب شاید جہانگیر ترین چاہتے ہوئے بھی صلح نہیں کر سکتے۔ انھیں ساتھیوں کے مستقبل کے بارے میں بھی سوچنا ہے، وہ سب کو مروا کر صلح نہیں کر سکتے۔
ادھر ن لیگ کو جہانگیر ترین کو ساتھ ملانے کے لیے اپنے بہت سے لوگوں کی قربانی دینی ہے۔ جہانگیر ترین کے لوگوں کو ٹکت دینے کے لیے اپنے وفادار ساتھیوں کا سیاسی قتل کرنا ہوگا جو ایک مشکل کام ہے۔ وہ سب پارٹی میں شور مچا رہے ہیں۔ اپنی وفاداریوں کا شور مچا رہے ہیں۔ وہ سب مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔
انھوں نے مشکل وقت میں پارٹی کا جھنڈا پکڑے رکھا ہے۔ آج ان کا سیاسی قتل کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ن لیگ کے لیے جہانگیر ترین کو ساتھ ملانے کے لیے اپنے ساتھیوں کی سیاسی لاشوں پر سفر کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن سیاست میں یہ سب جائز ہے۔ ن لیگ پہلے بھی ایسے مراحل سے گزری ہے۔ اس کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہم خیال گروپ اس کی ایک مثال تھے۔ اس لیے ایسا نہیں کہا جا سکتا کہ ن لیگ یہ نہیں کرے گی۔ وقت آنے پر وہ ایسے کڑوے گھونٹ پینے کا تجربہ رکھتے ہیں، صرف بات قیمت کی ہے، کس قیمت پر اور کتنے نقصان پر۔
جیسے جیسے جہانگیر ترین اور ن لیگ کے درمیان معاملات طے ہوں گے ق لیگ کی سیاسی قیمت کم ہوتی جائے گی۔ ق لیگ کی اہمیت بھی کم ہو جائے گی۔ ن لیگ دونوں کو ساتھ نہیں رکھ سکتی، اس لیے جیسے ہی جہانگیر ترین کے ساتھ معاملات طے ہوں گے، ق لیگ کے لیے دروازے بند ہو جائیں گے۔ ان کے لیے عمران خان کے ساتھ رہنے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہ جائے گی۔
اگر وہ عمران خان کو چھوڑنا بھی چاہیں گے تو اس کے لیے انھیں کوئی قیمت نہیں ملے گی۔ ویسے تو عمران خان بھی ان کو کوئی خاص پسند نہیں کرتے۔ ق لیگ کے سیاسی عزائم جہانگیر ترین گروپ سے زیادہ ہیں، اس لیے ان کے لیے مشکلات بھی زیادہ ہیں۔
حکومتی اتحادی اپنی پوزیشن بدل رہے ہیں۔ ایم کیو ایم بھی پوزیشن بدل رہی ہے۔ لیکن ایم کیو ایم کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ ان کو کسی کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ انھوں نے کسی کے ساتھ کوئی سیٹ ایڈ جسٹمنٹ نہیں کرنی ہے۔ وہ آزاد ہیں۔ ان کے پنجاب میں کوئی اسٹیک نہیں ہیں۔
ان کے لیے عمران خان کو چھوڑنا کوئی مشکل نہیں۔ عمران خان ویسے بھی ان کے حلیف کم حریف زیادہ ہیں۔ پیپلزپارٹی سے ان کے مسائل مختلف قسم کے ہیں جن میں خطرے والی کوئی بات نہیں، اس لیے ایم کیو ایم کے لیے فیصلہ آسان ہے۔ انھوں نے بس اشارہ ہی دیکھنا ہے، وہ جیتنے والی گاڑی میں بیٹھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کبھی ہارنے والے کا ساتھ نہیں دیا۔ اب بھی وہ ہارنے والے کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہتے۔ ان کی بس اتنی ہی سیاست ہے۔ لیکن جہانگیر ترین گروپ کے لیے اگلے انتخابات بڑا مسئلہ ہے۔ انھوں نے آج کے ساتھ کل کے بارے میں بھی سوچنا ہے جو آسان نہیں ہے۔