استعفوں کی سیاست
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ابھی تک 2014میں رہتے نظر آرہے ہیں۔ کیا 2022 میں بھی 2014 کی سیاست ممکن ہے۔ آپ استعفوں کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ عمران خان استعفوں پر ابھی 2014کی طرح ہی اظہار کر رہے ہیں۔
ابھی تک تحریک انصاف کی جو سیاست سمجھ آئی ہے اس کے مطابق تحریک انصاف نے استعفے دینے بھی نہیں ہیں اور یہ کہتے رہنا ہے کہ ہم نے استعفے دے دیے ہیں اور ڈپٹی اسپیکر دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ استعفے منظور ہو گئے ہیں۔ مگر آپ کو یاد ہوگا کہ 2014 میں بھی عمران خان نے ایسے ہی کیا تھا۔ استعفے دیے نہیں تھے بس کہتے رہے کہ ہم نے استعفے دے دیے اور پھر کئی ماہ بعد اسمبلیوں میں واپس آگئے تھے۔
عمران خان سے بہتر کون جانتا ہے کہ اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا آئین و قانون میں ایک طریقہ کار درج ہے۔ یہ طریقہ کار 2014 میں بھی تھا اور آج بھی ہے۔ تحریک انصاف نے 2014میں بھی آئین کے مطابق جان بوجھ کر استعفے نہیں دیے تھے اور آج بھی آئین کے مطابق استعفے نہیں دیے ہیں۔ اس لیے لگ ایسے ہی رہا ہے کہ نہ تب استعفے قبول ہوئے تھے اور نہ ہی اب قبول ہونے کا امکان ہے۔
تب بھی اسپیکر بار بار کہتے رہے کہ آئین و قانون کے مطابق ہر ممبر نے انفرادی طور پر اسپیکر چیمبر میں اپنے استعفے کی تصدیق کرنی ہے۔ استعفیٰ اس کے ہاتھ سے لکھا ہونا چاہیے۔
انفرادی طور پر تصدیق کے بعد ہی استعفیٰ قبول ہو سکتا ہے۔ تب بھی تحریک انصاف کو سمجھایا گیا تھا کہ آئین میں اکٹھے استعفیٰ دینے کا کوئی قانون نہیں۔ ہر ممبر انفرادی طور پر حلف اٹھاتا ہے اور انفرادی طور پر ہی مستعفی ہوتا ہے۔ آج بھی وہی معاملہ ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ نہ 2014میں تحریک انصاف استعفیٰ دینے میں سنجیدہ تھی اور نہ ہی آج سنجیدہ ہے۔ تب بھی استعفوں پر سیاست کی گئی۔ آج بھی استعفوں پر سیاست کی جا رہی ہے۔ وہی پرانا اسکرپٹ وہی پرانا ڈراما۔
آپ دیکھیں اس وقت قومی اسمبلی کا کوئی اسپیکر نہیں ہے۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے پاس اسپیکر کے اختیارات ہیں۔ اگر ڈپٹی اسپیکر چاہیں تو تحریک انصاف کے تمام ممبران کے استعفیٰ قبول کرنے کا نوٹیفکیشن جاری بھی کر سکتے ہیں۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے ایک ایک ممبر سے تصدیق کر لی ہے سب نے اپنے استعفیٰ کی تصدیق کی ہے۔ اگر فوٹو کاپی پر استعفیٰ قبول نہیں تو وہ تحریک انصا ف کے تمام ممبران سے ہاتھ سے لکھے استعفیٰ منگوا بھی سکتے ہیں۔
اگرچہ بطور قائم مقام اسپیکر قاسم سوری نے اپنے ایک ٹویٹ میں تحریک انصاف کے 125ارکان کے استعفے قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ دوسری جانب اسد قیصر کا اسپیکر شپ سے تو استعفیٰ قبول ہوا ہے لیکن بطور رکن قومی اسمبلی ان کا استعفیٰ بھی قبول نہیں ہوا ہے۔
حالانکہ اسد قیصر نے جب اسپیکر شپ سے استعفیٰ دیا تھا تب وہ بطور رکن قومی اسمبلی بھی استعفیٰ دے سکتے تھے۔ دونوں استعفے اکٹھے دے سکتے تھے۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ قاسم سوری اور اسد قیصر کے اپنے استعفے خود قبول نہ کرنا صاف ظاہر کر رہا ہے کہ تحریک انصاف کا قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا کوئی موڈ نہیں ہے۔ وہ 2014 کی طرح صرف استعفوں پر سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ دینا نہیں چاہتے۔
کیا یہ درست نہیں کہ عمران خان ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری جو اس وقت اسپیکر کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں، ان کے پاس پہنچیں اور اپنے استعفیٰ کی تصدیق کریں۔ قاسم سوری ان کے استعفیٰ کی تصدیق کریں۔ اسی طرح باقی استعفوں کی تصدیق بھی کی جا سکتی ہے۔
لیکن ابھی تک عمران خان کے استعفیٰ کی تصدیق بھی نہیں ہوئی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے تو ایوان میں استعفیٰ کا اعلان کیا ہے۔ لیکن قاسم سوری نے ان کے استعفیٰ کی تصدیق بھی نہیں کی ہے۔ ان کے مستعفی ہونے کا نوٹیفکیشن بھی نہیں جاری کیا گیا ہے۔ یہ تمام تمہید لکھنے کا مطلب قارئین کو یہ باور کروانا ہے کہ ہم سمجھ سکیں کہ تحریک انصاف استعفوں پر 2014والی سیاست ہی کر رہی ہے۔ نہ وہ استعفیٰ دینا چاہتے ہیں اور نہ ہی وہ چاہتے ہیں کہ ان کے استعفے قبول کیے جائیں۔
لیکن عمران خان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ 2014میں انھیں مقتدر حلقوں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ ان کی خالی کرسیاں بھی نہیں دکھائی جاتی تھیں۔ ان کے خلاف طاقت کے استعمال سے بر ملا روکا جاتا تھا۔ اسی لیے ان کے استعفے بھی قبول نہیں کیے گئے تھے۔ انھیں نظام میں رکھنے کی ہدایات تھیں۔ ان کی غلط باتوں کو بھی سیاسی کور حاصل تھا۔ لیکن آج عمران خان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ انھیں اب مقتدر حلقوں کی وہ حمایت حاصل نہیں ہے۔ اس لیے استعفوں کی سیاست کے شاید وہ ثمرات بھی حاصل نہ ہو سکیں جو انھیں 2014میں حاصل ہوئے تھے۔
یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ تحریک انصاف کے ممبران کی ایک تعداد مستعفی ہونے کے حق میں نہیں ہے۔ ان ارکان کا موقف ہے کہ اگر ان کے حلقوں میں ضمنی انتخابات ہو گئے تو وہ کیا کریں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حقیقت میں عمران خان کے پاس چالیس سے زائد استعفے نہیں ہیں۔ ارکان کو بھی علم ہے کہ اس طرح استعفیٰ قبول نہیں ہو سکتے۔ اسی لیے شیخ رشید بھی کہہ رہے ہیں کہ میں نے اپنا استعفیٰ عمران خان کو دے دیا ہے۔ کوئی ان کو بھی بتائے کہ آئین و قانون کے تحت استعفیٰ عمران خان کو نہیں اسپیکر کو دینا ہے۔ عمران خان استعفیٰ دینے کا کوئی آئینی فورم نہیں ہے۔
اسی لیے ارکان یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں حلقوں کو انتخابی عمل میں خالی نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ہار جیت الگ بات ہے لیکن انتخابی میدان خالی چھوڑنے کے نتائج ہارنے سے بہت زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ اس لیے ارکان کو ڈر ہے کہ اگر انھوں نے واقعی حقیقت میں استعفیٰ دے دیے تو وہ اپنے حلقوں کو ضمنی انتخاب میں خالی نہیں چھوڑ سکتے۔ اگر عمران خان کھیل کو عام انتخابات کی طرف نہیں لیجا سکے تو کیا ہوگا۔ اگر اسمبلیوں نے مدت پوری کر لی تو پھر ان کا مستقبل کیا ہوگا۔ اس لیے تحریک انصاف کے اندر کی حکمت عملی یہی نظر آرہی ہے کہ استعفیٰ دینے بھی نہیں ہے اور بس کہتے رہنا ہے کہ ہم نے استعفیٰ دے دیے ہیں۔
کیا 2014کی طرح جب عمران خان تھک جائیں گے اور اگلے تین ماہ میں انھیں سمجھ آجائے گی کہ وہ ملکی سیاست کو انتخابات کی طرف نہیں موڑ سکتے ہیں۔ ان کا مجوزہ اسلام آباد مارچ بھی ناکام ہو جائے گا۔ وہ تھک جائیں گے۔ تو وہ دوبارہ اسمبلیوں میں واپس آجائیں گے۔ ان کے پاس اسمبلیوں میں واپس آنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوگا۔ اس لیے حکومتی اتحاد بھی ان کی واپسی کا انتظار ہی کرے گا۔ نہ وہ استعفیٰ دینا چاہتے ہیں اور نہ ہی حکومتی اتحاد ان کا استعفیٰ قبول کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے کھیل بھی پرانا ہے۔ کھلاڑی بھی پرانے ہیں۔ کچھ بھی نیا نہیں ہے۔
عمران خان کے لیے آنے والے دن مشکل ہیں۔ انھیں بھی علم ہوگا کہ چند جلسوں سے حکومت نہیں جاتی۔ اس دفعہ اسلام آباد مارچ میں مدد کے بغیر کیا نتیجہ برآمد ہوگا، دیکھتے ہیں۔ وہ سیاسی طور پر بند گلی میں نظر آرہے ہیں۔ مقبولیت کو کب تک برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ یہ سیاسی بلبلہ ہے۔ امریکا کا بیانیہ غلط ثابت ہو گا تو کیا ہوگا۔ ریاستی اداروں نے سختیاں شروع کیں تو کیا ہوگا۔ عمران خان نے ابھی تک تو مقتدر حلقوں کی مدد سے ہی سیاست کی ہے۔ ان کے خلاف سیاست کی مشکلات کا شاید انھیں ابھی کوئی اندازہ نہیں ہے۔