انتخابی اصلاحات مستحکم جمہوریت کی ضمانت
حکومت بار بار اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی دعوت دے رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ تاہم اپوزیشن بار بار حکومت کی اس دعوت کو مسترد کر رہی ہے۔
حکومت کے ساتھ بات چیت نہ کرنے کا اپوزیشن کا یہ کوئی نیا موقف نہیں ہے۔ تاہم اب صورتحال بدل گئی ہے۔ پہلے اپوزیشن ایک متحدہ پلیٹ فارم سے حکومت کو گھر بھیجنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کی بات ہو رہی تھی۔ اور اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کی بات ہو رہی تھی۔ یقیناً ایسے ماحول اور ایجنڈے کے ساتھ بات چیت ممکن نہیں تھی۔ تاہم اب منظر نامہ بدل گیا ہے۔
پیپلزپارٹی نے اپنی تمام جدوجہد پارلیمان کی حد تک محدود کر دی ہے۔ اس لیے وہ سڑکوں پر احتجاج کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی عندیہ دے دیا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ انھیں حکومت کے پانچ سال مکمل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس لیے اب اس بدلے منظر نامہ میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان انتخابی اصلاحات کا راستہ نکل سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن اور حکومت کو انتخابی اصلاحات پر بات چیت کا کوئی نہ کوئی راستہ نکالنا چاہیے۔
حکومت اگلے انتخابات میں ای ووٹنگ مشین لانا چاہتی ہے۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ ای ووٹنگ انتخابی دھاندلی کا ہی ایک اور راستہ ہوگا۔ حکومت کا موقف ہے کہ ای ووٹنگ مشین انتخابی عمل میں شفافیت لانے میں مددگا ثابت ہوں گی۔ جب کہ اپوزیشن کا موقف ہے کہ ای ووٹنگ مشین دھاندلی کو سائنٹیفک بنانے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ حکومت کا موقف ہے کہ بین الاقوامی طور پر ای ووٹنگ کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ جب کہ اپوزیشن کا موقف ہے کہ بین الاقوامی طور پر ای ووٹنگ کا تجربہ ناکام رہا ہے۔ کہیں نہ کہیں اپوزیشن کا یہ بھی خیال ہے کہ گزشتہ انتخاب میں آر ٹی ایس نے بہت مایوس کیا ہے۔ گزشتہ انتخاب میں آر ٹی ایس نے ہی دھاندلی کی بنیاد رکھی اور تمام دھاندلی آر ٹی ایس کے ذریعے ہی کی گئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن کے اس موقف کو اگر مان لیا جائے کہ آر ٹی ایس ہی دھاندلی کی بنیاد تھا تو پھر بھی دھاندلی کو ختم کرنے کے لیے کبھی نہ کبھی تو حکومت اور اپوزیشن کو ملکر بات کرنی ہوگی۔
یہ درست ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں حکومت اور اپوزیشن نے ملکر انتخابی اصلاحات کی تھیں۔ تب تحریک انصاف اور عمران خان اپوزیشن میں تھے تاہم شدید محاذ آرائی کے باوجود حکومت اور اپوزیشن نے ملکر متفقہ انتخابی اصلاحات کی تھیں۔ تب عمران خان اپوزیشن میں تھے اور آج ن لیگ اپوزیشن میں ہے۔ اگر تب حکومت اور اپوزیشن متفقہ انتخابی اصلاحات کر سکتی ہیں تو آج کیوں نہیں کرسکتیں۔ ماضی کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو یہ ممکن ہے۔ ماضی میں بھی سیاسی قوتوں نے انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لیے بات چیت کی ہے جس کے مثبت اثرات سامنے آئے ہیں۔ اب بھی اگر حکومت اور اپوزیشن ملکر انتخابی اصلاحات کریں توآگے اس کے مثبت اثرات ہی سامنے آئیں گے۔
میں سمجھتا ہوں اپوزیشن کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) انتخابی اصلاحات کی حامی ہیں۔ وہ ملک میں انتخابی اصلاحات کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتی ہیں۔ دونوں نے اپنے اپنے ادوار میں اپوزیشن کے ساتھ ملکر انتخابی اصلاحات کی بھی ہیں۔ اس لیے اصولی طور پر ان کا اس کی اہمیت اور ضرورت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ لیکن شائد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے۔ دونوں ملکر بیٹھنے کے لیے صرف اس لیے تیار نہیں ہیں کہ دونوں کے درمیان باہمی اعتماد کا فقدان ہے اور محاذ آرائی کے اس ماحول میں حکومت کے ساتھ بیٹھنا اپوزیشن کو سیاسی مفاد میں نہیں لگ رہا ہے۔ ایک رائے بن گئی ہے کہ اس وقت حکومت کے ساتھ مذاکرات کا اپوزیشن کو کم اور حکومت کو زیادہ فائدہ ہوگا۔
حکومت ای ووٹنگ اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے حق ووٹ کے لیے بات کرنا چاہتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ اپوزیشن حکومت کی تجاویز من و عن مان لے۔ اپوزیشن کو اس ضمن میں صرف مذاکرات نہیں کرنے کی رٹ لگانے کی بجائے اپنی تجاویز حکومت اور عوام کے سامنے رکھنی چاہیے۔ عمران خان نے دلیل کے طور پر امریکی انتخابات کا حوالہ دیا ہے کہ ٹرمپ دھاندلی کا الزام لگا رہے تھے لیکن ای ووٹنگ کی وجہ سے و ہ دھاندلی کا اپنا الزام ثابت نہیں کر سکے۔ اور انتخابی عمل کی شفافیت قائم رہی۔ تا ہم اپوزیشن صرف یہ کہہ رہی ہے کہ ای ووٹنگ دنیا کے کئی ممالک میں ناکام ہو گئی ہے۔ لیکن ابھی تک کن ممالک میں ناکام ہوئی ہے اور اس ناکامی کی کیا وجوہات تھیں وہ نہیں بتائی ہیں۔
پاکستان میں اگر جمہوریت کو مستحکم کرنا ہے تو انتخابی عمل کو شفاف بنانا ہوگا۔ انتخابی دھاندلیوں کے نعروں اور بیانیہ سے جمہوریت مضبوط نہیں کمزور ہوتی ہے۔ پاکستان میں ہارنے والے کو ہار تسلیم کرنا ہوگی۔ ایسے جمہوریت نہیں چل سکتی کہ ہارنے والا کبھی ہار نہ مانے۔ کب تک ہم انتخابات میں حصہ بھی لیتے رہیں گے اور ان کو متنازعہ بھی بناتے رہیں گے۔ اس لیے ملک میں اگر جمہوری نظام کا تسلسل قائم رکھنا ہے تو ایسی انتخابی اصلاحات کرنا ہونگی جن سے انتخابی شفافیت کو بہتر سے بہتر کیا جا سکے۔ ڈسکہ اور کراچی کے انتخابات سامنے ہیں۔ ڈسکہ میں تو حکومت نے دھاندلی کی لیکن کراچی میں تو اپوزیشن کی جماعتیں ایک دوسرے پر دھاندلی کا الزام لگا رہی ہیں۔ اس لیے بات صرف عمران خان کی نہیں ہے۔ اپوزیشن کو آپس میں انتخاب لڑنے کے لیے بھی انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
حکومت کو بھی چاہیے کہ صرف اپوزیشن کو ہی انتخابی اصلاحات پر بات چیت کے لیے بار بار دعوت نہ دے بلکہ عوام میں حکومت کی تجویز کر دہ انتخابی اصلاحات کے حق میں رائے عامہ بنانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ اپنی تجاویز اور ان کے حق میں دلائل صحافیوں اور دانشور کے ساتھ شئیر کی جائیں۔ ملک میں بالخصوص میڈیا میں اس پر ایک بحث شروع کروانی چاہیے۔ جب ملک میں بحث شروع ہو جائے گی تو عوامی دباؤ اپوزیشن کو مذاکرات کی میز پر نہ صرف آنے بلکہ اپنے جوابی دلائل اور جوابی تجاویز سامنے لانے پر مجبورکر دے گا۔ کیسے ممکن ہے کہ ایک عوامی اور قومی بحث سے اپوزیشن خود کو الگ رکھ لے گی۔
حکومت کو نہ صرف اپوزیشن بلکہ عوام کو سمجھانا چاہییے کہ دھاندلی کرنے والے عناصر اس ای ووٹنگ کا دھاندلی کے لیے استعمال کیسے روک سکیں گے۔ کیسے جن قوتوں نے آر ٹی ایس کو بٹھا دیا تھا وہ ای ووٹنگ کو بھی قابو میں نہیں کر لیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس دن حکومت یہ بات سمجھانے میں کامیاب ہو گئی اس دن بات چل پڑے گی۔ ایسے خدشات موجود ہیں کہ ٹیکنالوجی کا استعمال تب تک کار آمد نہیں ہو سکتا جب تک ٹیکنالوجی استعمال کرنے والی قوتیں غیر جانبدار نہیں ہوں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کا حل بھی انتخابی اصلاحات سے ہی نکل سکتاہے۔
اپوزیشن کو ایسی تجاویز سامنے لانی چاہیے جن سے ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے والی قوتوں کو غیر جانبدار رہنے پر مجبور کیا جا سکے۔ یہ بھی موثر قانون سازی سے ہی ممکن ہے۔ صرف احتجاج اور بیانات سے یہ ممکن نہیں ہے۔ دھاندلی کی سخت سزائیں بھی مقرر کی جا سکتی ہیں۔ دھاندلی ثابت کرنے کے لیے موثر پلیٹ فارم بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ دھاندلی کرنے والے عناصر کی سرکوبی کے لیے بھی قانون سازی انتخابی اصلاحات کا حصہ ہو سکتی ہیں۔
ہم نے نگران حکومتیں بنا کر دیکھ لیا نگران حکومتیں بھی شفاف انتخابات کروانے میں کوئی خاص کامیاب نظر نہیں آئی ہیں۔ اس لیے ماضی کے تجربات کی روشنی میں نئی اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں۔ محاذ آرائی کے اس ماحول میں اس کے لیے راستہ نکالنا ہوگا۔ سب حکومت کو کہتے ہیں کہ وہ سیاسی درجہ حرارت کم کرے۔ اپوزیشن کو واپس پارلیمنٹ میں لائے۔ لیکن اگر یہ ممکن نہیں تو الیکشن کمیشن میں انتخابی اصلاحات کے لیے بات چیت کا بھی آغاز ہو سکتا ہے۔ اگر اس وقت اپوزیشن پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے لیے تیار نہیں تو الیکشن کمیشن کی مدد سے اکٹھا بیٹھا جا سکتا ہے۔ ایک دفعہ جب الیکشن کمیشن میں اکٹھے بیٹھ جائیں گے توپارلیمنٹ میں بھی اکٹھے بیٹھنے کا راستہ نکل آئے گا۔ لڑائی اور بات چیت ماضی میں بھی ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں۔ اب بھی چلنے چاہیے۔