آئی جی پنجاب کے نام
آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان نے عہدہ کا چارج سنبھالنے کے بعد پنجاب پولیس میں اس طرح تقرر تبادلے نہیں کیے جن کی توقع کی جا رہی تھی۔ ورنہ جب بھی نیاآئی جی آتا ہے، وہ اپنی ٹیم لانے کے نام پر صوبے میں تقرر تبادلوں کا ایک طوفان لے آتا ہے۔
اگر تقابلی جائزہ میں دیکھا جائے تو چیف سیکریٹری پنجاب جنھوں نے راؤ سردار کے ساتھ ہی چارج لیا ہے، انھوں نے کافی تبادلے کیے ہیں۔ جن میں چھوٹے اور بڑے سب شامل ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں پنجاب پولیس میں اس طرح تبادلے نہیں ہوئے۔ ویسے تو راؤ سردار علی خان نے آٹھ ستمبر کو چارج لیا اور ایک ماہ بعد میں کالم لکھ رہا ہوں۔ ایک ماہ تبادلوں کے انتظار کے لیے کافی وقت تھا۔
میں نے جب جاننے کی کوشش کی کہ پنجاب پولیس میں اس دفعہ اس طرح تبادلے کیوں نہیں ہوئے جیسے پہلے نئے آئی جی کے آنے پر ہوتے رہے ہیں تو مجھے پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ پہلے ہی اجلاس میں راؤ سردار علی خان نے واضح کر دیا تھا کہ تقرر تبادلوں کو وہ کوئی اچھی چیز نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک کسی کا ٹرانسفر بھی کوئی سزا نہیں ہے۔ ٹرانسفر کو بطور سزا وہ غلط سمجھتے ہیں۔ ان کی رائے میں غلط کام کرنے والے کو صرف ٹرانسفر کر دینا کوئی سزا نہیں ہے بلکہ قانون کے مطابق سخت کارروائی ہونی چاہیے۔
یہ ٹرانسفر کر نا کوئی اچھی حکمت عملی ثابت نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنے پالیسی واضح کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ کالی بھیڑوں اور غلطی کرنے والوں کو وہ نوکریوں سے نکال کر ہی جائیں۔ وہ کسی ٹیم پر یقین نہیں رکھتے۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ جو جہاں کام کر رہا ہے کرتا جائے۔ میں کسی کو تبدیلی نہیں کر رہا۔ یہ فیصلے کارکردگی کی بنیاد پر ہوں گے اور ساتھ ساتھ غلطیوں پر سخت سزاؤں کا عمل شروع کیا جا رہا ہے۔
کون نہیں جانتا کہ پولیس میں برہمن او ر دلت کا ایک کلچر موجود ہے۔ ایک طرف پی ایس پی ہیں دوسری طرف رینکر ہیں۔ پی ایس پی رینکرز کو کم تر سمجھتے ہیں۔ ایسا صرف پنجاب پولیس میں نہیں ہے، یہ برہمن اور دلت کا معاملہ چاروں صوبوں میں موجود ہے۔ راؤ سردار علی خان نے کہا ہے کہ ان کے نزدیک سب افسر برابر ہیں۔
کسی پی ایس پی کو رینکر پر فضلیت حا صل نہیں ہو گی۔ اﷲ انھیں اپنے اس بیان پر قائم رہنے کی ہمت اور حوصلہ دے۔ ورنہ ہم تو کئی دہائیوں سے رینکرز کو روتے ہی دیکھ رہے ہیں۔ پی ایس پی افسروں نے کئی عہدوں کے لیے انھیں اچھوت قرار دے دیا ہے اور ان کی جان بوجھ کر پولیس میں ان عہدوں پر تعیناتی نہیں کی جاتی۔ اگر راؤ سردار علی خان کی نظر میں دونوں برابر ہیں تو بڑی بات ہے۔
اسی لیے ہم نے دیکھا ہے کہ رینکرز کے خلاف تو سخت سے سخت کارروائی ہو جاتی ہے لیکن پی ایس پی کے خلاف کارروائی ہوتی ہم نے کم ہی دیکھی ہے، چاہے پہاڑ ہی کیوں نہ ٹوٹ جائے، اس کا تبادلہ ہی اس کے لیے کافی سزا سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے یہ دعا ہے کہ اﷲ انھیں پولیس میں برہمن اور دلت کا کلچر ختم کرنے کی ہمت اور حوصلہ دے۔ حا لانکہ وہ خود پولیس کی برہمن کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔
پنجاب پولیس کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پرراؤ سردار علی خان کی جانب سے پنجاب پولیس کے لیے ایک روڈ میپ جاری کیا گیا ہے۔ اس روڈ میپ کے کئی نکا ت سے مجھے اتفاق اور کئی سے اختلاف ہے۔ اس کا پہلا نقطہ ہے ریاست کی رٹ کا قیام۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات درست ہے کہ ریاست کی سول رٹ کی نشانی پولیس ہی ہے۔ جتنی پولیس کی رٹ ہو گی اتنی ہی ریاست کی رٹ ہو گی۔ پولیس ریاست کی رٹ قائم کرنے کا سول ادارہ ہے۔
اس لیے اگر ملک میں سول نظا م کو مضبوط کرنا ہے تو پولیس کو مضبوط کرنا ہوگا۔ پولیس کو اس قابل کرنا ہوگا کہ چھوٹے چھوٹے معاملات پر اسے فوج کی مدد نہ طلب کرنی پڑی۔ پولیس کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ معاشرہ میں ہر قسم کے حا لات کا خود مقابلہ کرنے کے قابل ہو۔ بار بار فوج کی طلبی کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ لیکن ریاست کی رٹ قائم کرتے کرتے پولیس جو اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتی ہے۔ اس پر بھی گرفت کرنا ضروری ہے۔ اختیارات سے تجاوز پولیس کے حوالے سے ایک عمومی شکایت ہے۔ اس لیے جہاں اسٹیٹ کی ر ٹ قائم کرنی ہے وہاں اس رٹ کے غضب سے عام آدمی کو بھی بچانا ہے۔
راؤ سردار نے اپنے روڈ میپ میں تفتیش پر خاص زور دیا ہے۔ انھوں نے بروقت اور شفاف تفتیش کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اگر پولیس میں تفتیش کا عمل ٹھیک ہو جائے تو آدھے سے زائد مسائل حل ہو جائیں۔ اگر تفتیش کے نام پر بغیر ثبوت کے لوگوں کی گرفتاریاں رک جائیں تو پنجاب پولیس اسکاٹ لینڈ یارڈ بن جائے۔
راتوں کو گھروں کے چھاپوں کا سلسلہ رک جائے، پولیس چادر اور چار دیواری کا تحفظ شروع کردے۔ تو سب ٹھیک ہو جائے۔ راؤ سردار علی خان کو اپنے تفتیشی افسران کو سمجھانا ہو گا کہ تفتیش کے لیے گرفتاری ضروری نہیں۔ ضمانت کو پولیس اور تفتیش کی شکست نہ سمجھا جائے۔ اگر کوئی تفتیش کے لیے حاضر ہے تو اسے ضمانت کرانے پر مجبور نہ کیا جائے۔ بغیر ثبوت کسی کو گرفتارنہ کیا جائے۔ بغیر ضمانت شامل تفتیش کرنا کوئی بری نہیں اچھی بات ہے۔ اگر راؤ سردار علی خان پولیس کے نظام تفتیش میں سے خامیاں دور کرنے میں واقعی کامیاب ہو جائیں، اس کو سائنسی بنیادوں پر بنا دیں تو پولیس اصلاحا ت ہو جائیں گی۔ یہ سب سے بڑی اصلاح ہے۔
تھانوں میں کرپشن کا خاتمہ بھی آئی جی پنجاب کے روڈ میپ میں شامل ہے۔ تھانہ ہی پولیس کااصل چہرہ ہے۔ جیسے جیسے یہ چہرہ اپنی شکل بہتر کر لے گا پولیس کا امیج بھی بہتر ہو جائے گا۔ اس لیے راؤ سردار علی خان نے بیماری کی تشخیص تو ٹھیک کر لی ہے۔ لیکن کیا وہ ان بیماریوں کا علاج بھی کر سکیں گے۔ شاید ان بیماریوں کی تشخیص کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے۔ ان کا علاج بڑی بات ہے۔ اگر وہ صحیح علاج کر لیں تو ہی انھیں پولیس کا ٹھیک ڈاکٹر مانا جائے گا۔ ورنہ آج تک آئی جی کے عہدوں پر ہم نے کئی نیم حکیم بھی آتے دیکھے ہیں۔ انھوں نے پولیس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ کیا ہے۔
آخر میں پنجاب پولیس کے سربراہ سے ایک درخواست ہے کہ خدارا پنجاب پولیس کو طالبان کی پولیس نہ بننے دیں۔ یہ جو مورال پولیسنگ ہے، یہ بھی کوئی ٹھیک نہیں۔ فائیو اسٹار ہوٹل کے اندر تو پولیس گھس نہیں سکتی لیکن عام گیسٹ ہاؤسز پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ بڑے سیلون اور سپاء کی طرف تو دیکھا بھی نہیں جا سکتا لیکن چھوٹے سیلون اور سپاء پر چھاپے مارنے کا حکم کوئی انصاف نہیں۔ امیر کے لیے آزادی اور غریب کے لیے طالبان پولیس، یہ بھی کوئی انصاف نہیں۔ سنا ہے آپ نے حکم دیا ہے کہ معاشرہ کی برائیوں کو ٹھیک کرنا بھی پولیس کا کام ہے۔ یہ کام پولیس کا نہیں ہے۔
لوگوں کو ان کی مرضی سے زندگی جینے دیں۔ یہ پولیس کا کام نہیں ہے کہ کمرے چیک کرے اور نکاح نامہ دیکھے، منہ سونگھے، اس سے نہ پہلے پولیس کو نیک نامی ملی ہے اور نہ ہی اب ملے گی۔ یہ کوئی کارکردگی نہیں کہ میں نے گیسٹ ہاؤس پر چھاپہ مارا۔ یہ سرکار اور پولیس کے ٹائم اور وسائل کا ضیاع ہے کوئی اچھی پولیسنگ نہیں۔