حکومت سے ایک انٹرویو
آج کل حکومت بہت مشکل میں ہے۔ اکیلی جان اور مشکلیں ہزار پیدا ہو گئی ہیں۔ دو ماہ قبل تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ لیکن اب سب کچھ الٹ پلٹ ہو گیا ہے۔ سیاسی محاذ بھی گرم ہے۔ قومی اسمبلی میں حکومت کو دو بلوں پر شکست ہو گئی ہے۔
کل تک دبکنے والی اپوزیشن اب شیر کی طرح دھاڑ رہی ہے۔ ایسے میں مہنگائی اور دیگر مسائل نے بھی حکومت کو جکڑ لیا ہے۔ ایک مشکل ختم ہوتی نہیں کہ دوسری شروع ہو جاتی ہے۔ چینی نے تو جان ہی نکال لی ہے۔ بجلی، گیس، پٹرول سب ہی پریشان کر رہے ہیں۔ ایک اکیلی حکومت اتنے محاذوں پر کیسے لڑے۔ ایک صفحہ بھی پھٹ گیا ہے۔ جس کے اپنے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔
بہر حال مشکل میں گھری اس حکومت سے مجھے بات کرنے کا موقع مل گیا۔ بطور ایک اخبار نویس میں نے کوشش کی کہ حکومت کا زیادہ وقت بھی ضایع نہ ہو اور میں عوام کے ذہنوں میں موجود تمام سوالات بھی حکومت سے پوچھ لوں تاکہ سب کو جواب مل سکے۔ میں نے حکومت پر واضح کیا کہ مجھے ان کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے لیکن عوام کو بات سمجھ نہیں آرہی اس لیے یہ سوال پوچھ رہا ہوں ورنہ میں تو ساری بات سمجھتا ہوں۔ حکومت مسکرائی اور اس نے مجھے کہا پوچھو عوام کیا جاننا چاہتے ہیں۔
میں نے حکومت کی اجازت سے حکومت سے سوال پوچھنے شروع کیے، ویسے ہی جیسے جابر سلطان سے پوچھ کر کلمہ حق بلند کیا جاتا ہے۔ حکومت کے ساتھ ہونے والے سوال و جواب کی نشست قارئین کے لیے لکھ رہا ہوں۔
سوال۔ ملک میں مہنگائی بہت ہے۔ کیا حکومت کو اس کا اندازہ ہے؟
جواب۔ دیکھیں آپ میڈیا والے لوگوں کو سچ نہیں بتا رہے۔ میں نے اوور سیز پاکستانیوں کو کہا ہے کہ وہ اپنے اپنے ممالک سے ویڈیوز بنا کر پاکستان کے عوام کو سمجھائیں۔ مہنگائی پوری دنیا میں ہے۔ آپ دیکھیں فلاں فلاں ملکوں میں تو مہنگائی پاکستان سے بھی زیادہ ہے۔ وہاں کے عوام تو شور نہیں مچا رہے۔ آپ لوگوں کو مہنگائی کے حوالے سے گمراہ کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ شور ہے۔ آپ ٹھیک ہو جائیں مہنگائی کا شور خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔
سوال۔ میں نے پھر پوچھا کہ عوام کہہ رہے ہیں کہ پٹرول گیس بجلی بہت مہنگی ہو گئی ہے؟
جواب۔ حکومت غصہ میں لال پیلی ہو گئی۔ اس نے کچا کھاجانے والی نظروں سے مجھے دیکھا۔ ارد گرد دیکھا۔ پھر خاموش ہو گئی۔ میں بھی خاموش ہو گیا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد حکومت بولی۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ پاکستان میں پٹرول اس وقت دنیا میں سب سے سستا ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش، برطانیہ، امریکا اور یورپ سب جگہ پٹرول پاکستان سے مہنگا ہے۔ یہ جھوٹ ہے کہ پٹرول مہنگا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پٹرول سستا ہے ابھی ہم نے مہنگا کرنا ہے۔ بجلی ہماری سب سے سستی ہے۔ گیس ہماری سستی ہے۔ آپ دیکھیں فلاں فلاں ملکوں میں پٹرول گیس بجلی ہم سے بھی مہنگی ہیں۔ عوام کو بتائیں۔ عوام کو یہ بتانا آپ کا فرض ہے۔
سوال۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پھر سوال کیا کہ آٹا، چینی، گھی، سبزیاں، دالیں بہت مہنگی ہو گئی ہیں؟ لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی مشکل ہو گئی ہے؟
جواب۔ چینی کا تو ہم بندو بست کر رہے ہیں۔ ڈٹ کر کھڑا ہے کپتان چینی مافیا کے سامنے۔ کپتان نے فیصلہ کیا ہے کہ چینی مافیا کو این آر او نہیں دے گا۔ آج کل جہانگیر ترین لندن گئے ہوئے ہیں۔ بس واپس آلیں۔ ان کا حساب ہو جائے گا۔ ہم نے چینی باہر سے منگوائی ہے۔
چینی مہنگی نہیں ہوئی ہے۔ چینی مافیا مہنگا ہو گیا ہے، پہلے سستا تھا۔ لیکن سیاسی حالات کی وجہ سے چینی مافیا کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ باقی فلاں فلاں ملکوں میں آٹا، گھی اور سبزیاں ہم سے بھی مہنگی ہیں۔ عوام کو بتائیں۔ میرے ایک وزیر نے پہلے بھی مشورہ دیا تھا کہ دو کی جگہ ایک روٹی کھائیں۔ آٹا آپ کو سستا لگے گا۔ گھی صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔ دالیں پیٹ خراب کرتی ہیں۔ کون دالیں کھاتا ہے۔ فضول کا پراپیگنڈہ ہے۔ عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔
سوال۔ کھاد بیج بہت مہنگے ہو گئے ہیں۔ ڈی اے پی مہنگی ہو گئی ہے۔ کسان پریشان ہے؟
جواب۔ ہمارا کسان سب سے خوشحال ہے۔ ہم نے کسان کو گیارہ سو ارب روپے زیادہ دیے ہیں۔ باقی فلاں فلاں ملکوں میں کھاد بیج کی قیمت ہم سے بُہت زیادہ ہے۔ وہاں کا کسان تو پریشان نہیں ہے۔ ہماراکسان کیوں پریشان ہے۔ کیا کسان کو پریشانی کی بیماری تو نہیں ہو گئی۔ ڈاکٹر کو دکھائے۔
سوال۔ ملازمین اور مزدوروں کی ماہانہ آمدن مہنگائی کے مقابلے میں بہت کم ہو گئی ہے؟
جواب۔ فلاں فلاں ملکوں میں ملازمین اور مزدوروں کی آمدن ہم سے بھی بہت کم ہے۔ پھر کیا وہاں لوگ حکومت کے خلاف ہو گئے ہیں۔ مزدور کا کام ہے کام کرنا مزدوری کم ہو یا زیادہ کیا فرق پڑتا ہے۔ یاد ہے وہ زمانہ جب مزدور کو کوئی مزدوری ہی نہیں دیتا تھا۔ مزدور دو وقت کی روٹی پر مزدوری کرنے پر مجبور تھا۔ اب مزدوری ملتی ہے۔ اللہ میاں کا حکم ہے جو ملے اللہ کا شکر ادا کریں۔ مزدور اور ملازمین کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
سوال۔ ملک میں بے روزگاری بُہت بڑھ گئی ہے اور دو کروڑ افراد مزید لوئر مڈل کلاس سے غریب کی کیٹیگری میں آگئے ہیں؟
جواب۔ ہم نے لنگر خانہ کھولے ہیں۔ کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔ جس کے پاس نوکری نہیں لنگر خانہ میں جائے کھانا کھائے اور سو جائے۔ مزے کرے۔ مشکل کی کیا بات ہے۔ لوگ گاڑیا ں بیچ کر موٹر سائیکلیں خرید رہے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے۔ موٹر سائیکلیں بیچ کر سائیکلیں خرید رہے ہیں۔ یہ اور اچھی بات ہے۔ سائیکل بیچ کر پیدل چل رہے ہیں یہ صحت کے لیے اور اچھا ہے۔ حکومت کوعوام کی صحت کا بہت خیال ہے۔
سوال۔ ادویات کی قیمتیں گزشتہ تین سالوں میں تین گنا بڑھ گئی ہیں اور عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔
جواب۔ کس نے کہا ہے کہ لوگ بیمار ہوں۔ بیمار ہونگے تو دوائی خریدنی پڑے گی۔ ادویات مہنگی اس لیے کی جا رہی ہیں تا کہ لوگ شوقیہ بیمار نہ ہوں۔ ہمارے ملک میں تو دوائیاں کھانے کا فیشن ہو گیا تھا۔ یہ فیشن بند کرنا ہوگا۔ اس لیے ادویات اتنی مہنگی کی جا رہی ہیں تا کہ صرف جان کے لالے پڑ جائیں تو کوئی کھائے۔ ویسے آپ لکھ لیں فلاں فلاں ملکوں میں ادویات کی قیمتیں ہم سے بھی زیادہ ہیں۔
سوال۔ پاکستان میں سرکاری اداروں میں تبادلوں اور تقرریوں میں بہت کرپشن ہے۔ تھانوں کچہریوں اور عدالتوں میں میرٹ کی بجائے کرپشن کا راج ہے۔ آپ کے دور میں کرپشن کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہے۔ افسران کو روز روز تبدیل کیا جا رہا ہے۔
جواب۔ حکومت شدید غصہ میں آگئی۔ اس نے حقارت سے میری طرف دیکھا۔ اور پوچھا کہ آپ کا کون سی جماعت سے تعلق ہے۔ میں نے کہا میں غیر جانبدار ہوں۔ کسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔ عوام کے لیے سوال پوچھ رہا ہوں۔ حکومت مسکرائی اور کہنے لگی مجھے بیوقوف سمجھتے ہوئے۔ یہ سب تم لوگوں کا پراپیگنڈا ہے۔ ورنہ فلاں فلاں ملکوں میں حالات ہم سے بھی بد تر ہیں۔ یہ اپوزیشن کا پروپیگنڈہ ہے۔
حکومت کا غصہ بہت بڑھ چکا تھا۔ یک دم حکومت نے مجھے کہا آپ جا سکتے ہیں۔ آپ کی انٹرویو کے لیے تیاری نہیں تھی۔ آپ پلانٹڈ سوال کر رہے ہیں۔ آپ کا کوئی ایجنڈا ہے۔ آپ کے خلاف ٹوئٹر پر ٹرینڈ چلانا پڑے گا۔ آپ جیسے لوگوں کا یہی علاج ہے۔ میں نے جان کی ا مان مانگی اور وفاداری کا مکمل یقین دلایا اور وہاں سے نکل آیا۔