حکومت اور موجودہ صورتحال
پاکستان کے سیاسی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ ایک مضبوط حکومت ایک ہی واقعہ کے بعد کمزور معلوم ہو رہی ہے۔ حکومت اور مقتدر حلقوں کے درمیان اختلافات کی خبریں اس کے لیے نقصان دہ ہیں۔ یہ خبریں نہ صرف حکومت بلکہ مقتدر پارٹی کی سیاست کو بھی کمزور کر رہی ہیں۔
اگر کوئی اسے یہ سمجھا رہا ہے کہ وہ مقتدر حلقوں سے اپنے اتحاد کے حوالہ سے بھی یوٹرن لے سکتی ہے تو وہ حکومت کا دوست نہیں ہے۔ حکمران قیادت سیاسی طور پر ایسی پوزیشن میں نہیں کہ وہ مقتدر حلقوں سے الگ ہو کر اپنی سیاست اور اقتدار کو چلا سکے۔
حکمران پارٹی کو سمجھنا چاہیے کہ اس کے ووٹر کو بھی اس کا مقتدر حلقوں سے اتحاد پسند ہے۔ مقتدر حلقوں سے علیحدگی کے بعد اس کے ووٹ بینک میں اضافہ نہیں بلکہ شدید کمی ہوگی۔ قیادت نے اپنی جماعت تحریک انصاف میں بھی لوگوں کو کسی نظریہ پر شامل نہیں کیا بلکہ سب ان کے ساتھ ان کے مقتدر حلقوں کے اتحاد کی وجہ سے ہی شامل ہوئے ہیں۔ سب ان کے ساتھ تب ہی شامل ہوئے جب سب کو یقین ہو گیا کہ اب پاکستان کے مقتدر حلقے ان کو اقتدار دینے کے لیے تیار ہیں۔ ورنہ اس سے پہلے تو کوئی کونسلر بھی ان کے ساتھ شامل ہونے کے لیے تیار نہیں تھا۔
یہ بات خود عمران خان نے اپنی مختلف تقاریر میں بتائی ہے کہ جب وہ کسی کونسلر کو اپنی جماعت میں شامل ہونے کی دعوت دیتے تھے تو وہ بھی نہ صرف ان سے کئی سوالات کرتا تھا بلکہ بعد میں سو نخروں کے ساتھ معذرت ہی کر لیتا تھا۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ اس لیے اسٹبلشمنٹ سے اختلاف کے بعد وہ سب چوری کھانے والے مجنوں جو اقتدار کے لالچ میں ان کے ساتھ شامل ہوئے سب چلے جائیں گے۔ اس لیے کہ انھوں نے اپنی سیاسی جماعت کو کسی محاذ آرائی کے لیے تیار ہی نہیں کیا ہوا۔ ان کے پاس محاذ آرائی میں ساتھ رہنے والے ساتھی ہیں ہی نہیں تو وہ کیسے یہ سب کر سکتے ہیں۔
تحریک انصاف نے جتنی بھی مزاحمتی سیاست کی ہے وہ مقتدر حلقوں کی مدد ہی سے کی ہے۔ اس کو دھرنے اور کنٹینر میں بھی بھر پور مدد حاصل تھی۔ اب تو تمام راز افشا ہو گئے ہیں۔ کیسے کیسے اس کی مدد کی گئی۔ ڈاکٹر طاہر القادری کو پارٹی قیادت کی مدد کے لیے کیسے بلایا گیا۔
جلسوں میں کیسے کیسے آسانیاں پید اکی گئیں۔ سول حکومت کو ان کے سامنے کیسے سرنگوں کیا گیا۔ کیسے کیسے ان کو میڈیا میں ہیرو بنایا گیا۔ یہ سب اب کوئی راز نہیں ہے۔ اس لیے انھیں سمجھنا چاہیے کہ اگر اب وہ کسی مزاحمتی سیاست کا سوچ بھی رہے ہیں تو انھیں اس میں وہ سب کچھ حاصل نہیں ہو گا جو پہلے حاصل رہا ہے۔ اگر پہلے خالی کرسیوں سے خطاب میں خالی کرسیاں نہیں دکھائی جاتی تھیں تو اب ایسا نہیں ہوگا۔ اب خطاب کم اور خالی کرسیاں زیادہ دکھائی جائیں گی۔
عمران خان کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ وہ سیاسی تنہائی کا شکار ہیں۔ ایسی سیاسی تنہائی میں مزاحمت ممکن نہیں۔ سیاسی مزاحمت کے لیے سیاسی ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ عمران خان کے ساتھ اقتدار میں اس وقت جو سیاسی جماعتیں شامل ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ان کے ساتھ کسی بھی مزاحمتی تحریک میں شامل نہیں ہوگی۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) نے کبھی مقتدر حلقوں کے خلاف مزاحمت نہیں کی ہے۔
موجودہ ایم کیو ایم کا بھی ایسی کسی مزاحمت کا کوئی موڈ نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی بقا کے معاملات پر ایسی مزاحمت نہیں کی تو عمران خان کے لیے وہ ایسی کسی مزاحمت کا ساتھ کیسے دے سکتے ہیں۔ جی ڈی اے کی بھی یہی صورتحال ہے۔ باپ پارٹی کی صورتحال تو آپ کے سامنے ہے۔
اس لیے جیسے جیسے یہ صورتحال واضح ہوگی کہ سیم پیج کی تھیوری دم توڑ گئی ہے۔ حالات بدل گئے ہیں۔ وہ ناراض ہو گئے ہیں۔ تمام اتحادی ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ اپوزیشن بھی ان کے ساتھ نہیں کھڑی ہوگی۔ گزشتہ تین سالوں میں عمران خان نے اپوزیشن سے ایسی محاذ آرائی رکھی ہے کہ اب وہ خود بھی نہیں سوچ سکتے کہ اپوزیشن ان کا کسی مرحلہ پر ساتھ دے سکتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اگر عمران خان اور اسٹبلشمنٹ میں سے کسی ایک کی سائیڈ لینی ضروری ہو گی تو وہ کم از کم عمران خان کا انتخاب نہیں کریں گے۔
عمران خان نے اپوزیشن کے ساتھ ایک سیاسی اختلاف کے بجائے ایک سیاسی دشمنی بنا لی ہوئی ہے جس میں اب کسی بھی قسم کی بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کو بھی جب عمران خان کے بجائے اسٹبلشمنٹ کی طرف ہی جائے گی۔
عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ اپنے حالیہ اختلاف کو وہ کوئی سول بالادستی کا رنگ بھی نہیں دے سکتے۔ یہ کوئی نظریاتی اختلاف نہیں ہے۔ کسی سازش کی بھی کوئی بو نہیں آرہی ہے۔ حکمران قیادت کے موقف میں دلیل کی کمی نظر آرہی ہے۔ و ہ ادارے پر فرد واحد کو ترجیح دے رہے ہیں جس کو پسند نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس لیے عمران خان جتنی جلد اس اختلاف کا پنڈورا بکس سمیٹ لیں ان کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔
حالیہ بحران میں اپوزیشن نے بہت سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر اس وقت عمران خان اپوزیشن میں ہوتے تو وہ موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے کس حد تک جاتے۔ روزانہ کیسی کیسی پریس کانفرنس کرتے۔ معاملہ کو روز بروز متنازعہ سے متنازعہ بنانے کے لیے کیا کیا سیاسی کھیل نہیں کھیلتے۔ ویسے تو عمران خان کا اس حوالہ سے ایک کلپ موجود بھی ہے جو آجکل سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہے۔
تاہم پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ اپوزیشن نے کافی حد تک خاموشی رکھی ہے۔ اگر صورتحال کا انھیں فائدہ ہو بھی رہا ہے تو بھی انھوں نے کوئی خوشی کے شادیانے نہیں بجائے ہیں۔ یہ بھی عمران خان کے لیے بہت بڑی سیاسی فائدہ ہے۔
حکومتی وزر اء روز فائر فائٹنگ کا کام کرتے ہیں۔ روزانہ ایسے بیانات دیے جاتے ہیں کہ آگ بجھائی جا سکے۔ مثبت ماحول بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن نوٹیفکیشن سامنے نہیں آتا۔ بہترین تعلقات کی دہائی دی جاتی ہے۔ سیم پیج تھیوری کا اعادہ کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اپوزیشن کے عزائم ناکام ہو گئے ہیں۔ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی بلایا جاتا ہے لیکن کام کی کوئی بات بھی نہیں کی جاتی۔ ابھی حالات اچھے ہیں کہا جارہا ہے۔ عام آدمی کو بھی حالات کی سنگینی کا اندازہ ہے۔
ان کی رائے میں بھی حکومت سے غلطی ہو گئی ہے۔ اور اس غلطی کا کوئی مداوا نہیں ہے۔ انگریزی کا محاورہ ہے۔ Damage has been Done کے مصداق کافی نقصان ہو گیا ہے۔ سمجھنے والوں کو سمجھ آرہی ہے۔ عمران خان کے ساتھیوں کو بھی سمجھ آرہی ہے۔ اسی لیے سب چپ ہیں۔ گھن گرج ہی ختم ہو گئی ہے۔ آجکل تو اپوزیشن کو برا بھلا بھی نہیں کہا جا رہا۔ اس لیے صورتحال کو سنبھالنے میں ہی عمران خان کا فائدہ ہے۔ ایک ایک دن کی ایک قیمت ہے۔