ہتک عزت کا قانون
قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن)میاںشہباز شریف نے جس برطانوی جریدے نے گزشتہ دنوں ان کے بارے میں متنازعہ خبر شایع کی تھی، اس پر ہتک عزت کے مقدمہ کی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ میاں شہباز شریف پر زلزلہ زدگان کی امداد کی رقم میں خرد برد کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس کے بعد پاکستان میں ایک شور مچ گیا۔ گو برطانوی حکومت نے از خود تردید کر دی تھی لیکن پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں یہ تردید کافی نہیں تھی۔ ادھر پی ٹی آئی حکومت کے ذمے داران اس اسکینڈل سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے اور اب بھی کررہے ہیں۔ حکومتی افراد نے پریس کانفرنسیں کیں۔ سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے، خصوصاً پاکستان میں تو الزامات کے بل بوتے پر ہی سیاست کی جاتی ہے۔
بہرحال اب میاں شہباز شریف نے برطانوی جریدے پر ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کر دیا تھا، ابھی تو صرف اعلان ہوا ہے، دیکھیں باقاعدہ کارروائی کب شروع ہوتی ہے؟ ادھر تحریک انصاف اور حکومت کے ذمے داران کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ شہباز شریف کبھی مقدمہ دائر نہیں کریں گے۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر دعویٰ کرتے رہے ہیں اور اب بھی کررہے ہیں کہ خبر کے ثبوت موجود ہیں۔ بہرحال شہباز شریف کی جانب سے قانونی کارروائی میں چند دن لگ گئے تو روز تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ونگ کی جانب سے مہم چلائی جاتی رہی کہ آج اتنے دن ہو گئے شہباز شریف کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ تا ہم بالا آخر شہباز شریف کو کارروائی کرنے کا اعلان کرنا ہی پڑا۔ اب دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔ ویسے تو برطانوی قوانین کے مطابق پہلے نوٹس دینا ضروری ہوتا ہے۔ شاید اس لیے پہلے نوٹس دیا گیا ہے۔ ویسے پاکستان میں بھی ہتک عزت کی کارروائی کے لیے یہی طریقہ کار اور قانون ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ہاں اس قسم کے مقدمات کو اتنا سنجیدہ نہیں کیا جاتا حالانکہ یہ بڑا سنجیدہ ہونا چاہیے۔
شہزاد اکبر نے شہباز شریف کو قانونی کارروائی کا چیلنج کیا ہے۔ ان کی دلیل دلچسپ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ شہباز شریف ان پر برطانیہ میں مقدمہ دائر کریں۔ یہ صورتحال دلچسپ ہے۔ بطور صحافی جہاں تک میرا علم ہے اس قسم کا مقدمہ جریدے کے خلاف ہی بنتا ہے۔ اس میں شہزاد اکبر کو کس طرح فریق بنایا جاسکتا ہے۔ ایک قانونی بات ہے لہذااس کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی جاسکتی۔
میرے لیے یہ ایک دلچسپ صورت حال ہے۔ ویسے تو اس سے پہلے شہباز شریف نے پاکستان میں بھی عمران خان کے خلاف ہتک عزت کے دعویٰ دائر کیے ہیں۔ تا ہم ان میں آج تک بنیادی نوعیت کی کارروائی بھی شروع نہیں ہو سکی ہے۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ آج تک ان دعوؤں کو سنجیدہ ہی نہیں لیا گیا ہے۔ ان دعوؤں میں جواب دعویٰ بھی جمع نہیں کرایا گیا ہے کہ مقدمہ کی کارروائی آگے بڑھ سکے۔
برطانوی نظام انصاف کو جاننے والوں کا عمومی خیال ہے کہ اول تو اخبار مقدمہ عدالت میں جانے کا موقع ہی نہیں آنے دے گا بلکہ نچلی سطح پر ہی معذ رت کر دی جاتی ہے۔ تا ہم اگر مقدمہ عدالت میں چلا جائے تو پھر دیر نہیں لگتی بلکہ برطانوی نظام انصاف میں پاکستان کی طرز پر مقدمہ کو لمبا کرنے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی برطانیہ میں ہتک عزت کے مقدمات کے بڑے فیصلوں کی نظیریں موجود ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو شہباز شریف نے سیاسی جوا کھیل دیا ہے۔ اگر وہ مقدمہ جیت جاتے ہیں تو یہ ان کی پاکستان میں بھی ایک بڑی سیاسی کامیابی سمجھی جائے گی۔ تاہم مقدمہ ہارنے کی صورت میں ان کی پاکستان میں سیاست کو ناقابل تلافی نصان پہنچے گا بلکہ شاید ان کی سیاست ہی ختم ہو جائے۔
حیرانگی کی بات یہ ہے کہ زلزلہ زدگان کی امداد میں خرد برد کے حوالے سے پاکستان میں کہیں بھی کوئی کیس نہیں ہے۔ اب بنا دیا جائے تو اور بات ہے۔ ویسے بھی آج کل عجیب و غریب مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔ ان میں اگر زلزلہ زدگان کی امداد میں خرد برد کا مقدمہ بھی بنا دیا جاتا تو کوئی حیرانی کی بات نہ ہوتی۔ تا ہم آج تک تا دم تحریر پاکستان میں کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی شروع نہیں کی گئی۔ پاکستان میں بد عنوانی کے بہت سے الزامات صرف میڈیا کی حد تک محدود رہتے ہیں۔ ایک رواج بن گیا ہے کہ الزامات سے بھر پور پریس کانفرنسیں کر دی جاتی ہیں۔ وہ شایع بھی ہوتی ہیں لیکن اس کے بعد ان پر کوئی مقدمہ دائر نہیں کیا جاتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ہتک عزت کے مقدمات کے فیصلوں کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ اگر پاکستان کی عدالتی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہتک عزت کے مقدمات کے فیصلے نظر نہیں آتے ہیں۔ مقدمات عدالتوں میں فیصلوں سے قبل ہی اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔ وقت انھیں موت دے دیتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جب شہباز شریف نے عمران خان کے خلاف ہتک عزت کے مقدمات دائر کیے تو شروع میں وہ اس مقدمہ کے حوالہ سے کافی سنجیدہ تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ ان کی دلچسپی کم ہوتی گئی۔
چوہدری شجاعت حسین پاکستان میں صرف چند دن کے لیے وزیر اعظم بنے تھے۔ ان کے پاس وقت بہت کم تھا۔ میں نے ان سے تب پوچھا تھا کہ وہ ان چند دن میں کیا ایک کام کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے تب مجھے کہا کہ میں پاکستان میں جھوٹے الزامات اور جھوٹی خبروں کے خلاف سخت قانون بنانا چاہتا ہوں۔ کیونکہ پاکستان کی سیاست میں سے اگر جھوٹ ختم ہو جائے تو یہ ٹھیک ہوجائے۔ انھوںنے اس ضمن میں ایک سخت قانون بنوایا بھی۔ لیکن عدالتوں میں اس قانون کے تحت بھی فیصلے سامنے نہیں آئے۔ بلکہ اس قانون کے تحت مقدمات بھی عام مقدمات کی طرح تاخیر کا شکار ہی ہوگئے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں میڈیا کورٹس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ دنیا بھر میں ایسی کسی کورٹس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ آپ جتنی مرضی تحقیق کر لیں آپ کو سمجھ آئے گی کہ صرف ہتک عزت کا قانون ہی جھوٹے اور غلط الزامات کا راستہ روکنے کے لیے کافی ہے۔ ہماری عدلیہ کو چاہیے کہ ہتک عزت کے مقدمات کو سنجیدہ لے۔ چیف جسٹس پاکستان نے قتل اور منشیات کے مقدمات کو جلد از جلد نبٹانے کے لیے ماڈل کورٹس بنائی ہیں۔ لیکن یہ بھی احساس کرنا ہوگا کہ عزت کا قتل بھی حقیقی قتل سے کم نہیں ہے۔ اس لیے ہتک عزت کے مقدمات کو بھی قتل کے مقدمات سے کم اہمیت نہیںدی جا سکتی۔ ویسے اگر شہباز شریف یہ مقدمہ جیت گئے تو انھیں بہت سیاسی فائدہ ہوگا۔ اور تحریک انصا ف کی حکومت کو بہت نقصان ہوگا۔ یہ مقدمہ دائر تو برطانیہ میں ہوا ہے لیکن اس کے نتائج پاکستان میں ہوںگے۔