دوسری شادی اور پہلی بیوی کی اجازت
لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلہ میں یہ حکم دیا ہے کہ دوسری شادی کے حوالہ سے خاوند کے خلاف کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی کرنے کا اختیار صرف اور صرف پہلی بیوی کو حاصل ہے۔ مذکورہ مقدمہ میں پہلی بیوی کے بھائی نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ بھائی کا مقدمہ تھا کہ خاوند نے دوسری شادی کے لیے اس کی بہن جو اس شخص کی پہلی بیوی ہے کا جعلی اجازت نامہ تیار کیا ہے۔ تا ہم عدالت نے اجازت نامہ کی تحقیقات کروانے کے بجائے یہ قرار دیا ہے کہ صرف بیوی ہی ایسی کسی صورت میں عدالت اور قانون کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے، بھائی کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
اگر قانون کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ درست فیصلہ ہے کیونکہ جس کو شکایت ہے اسے ہی قانون کا دروازہ کھٹکھٹانے کا اختیار ہونا چاہیے۔ قانون پراکسی کے ذریعے نہیں چل سکتا۔ یہ قانون کی بنیاد ہے۔ صرف متاثرہ شخص ہی اپنے حق کے لیے قانون کی مدد لے سکتا ہے۔ یہ حق کسی دوسرے کو نہیں دیا جا سکتا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں پاکستان میں شادی کی روایات مختلف ہیں۔ اس لیے ان کو قانون کی عام زبان کے تحت نہیں دیکھا جا سکتا۔ میں مانتا ہوں کہ قانون کے دائرے میں یہ ایک درست فیصلہ ہے لیکن ہماری سماجی اور معاشرتی روایات کی روشنی میں دیکھا جائے تو شاید یہ درست فیصلہ نہ ہو۔
پہلی بیوی کی اجازت سے دوسری شادی ایک اچھا قانون ہے۔ ویسے تو میں پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کے خلاف ہوں۔ لیکن مذہبی آزادیوں کی وجہ سے یہ اجازت دی گئی ہے اور اس پر مزید بحث نہیں ہو سکتی۔ تا ہم پاکستان میں یہ قانون موجود ہے کہ کم از کم دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی تحریری اجازت ضروری ہے۔
جس کیس میں لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے اس میں لڑکی کے بھائی کا یہی مقدمہ تھا کہ اجازت نامہ جعلی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس بات سے قطع نظرکہ درخواست گزار کون تھا اس بات کی تحقیقات کرائی جانی چاہیے تھی کہ اجازت نامہ اصلی تھا یا جعلی۔ خاوند جعلی اجازت نامہ بناتے ہیں اور بیوی ڈر کے مارے اور شادی بچانے کی خاطر خاموش رہتی ہے۔ لہٰذا اس بات کا خیال بھی رکھا جانا چاہیے تھا کہ اس معاملہ میں بیوی کس قسم کے دباؤ کا شکار رہتی ہے اور اس کے لیے خاوند کے خلاف عدالت سے رجوع کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ بھائی اور والد کو ہی اس کے حق کے لیے آگے آنا ہوتا ہے۔ جب شادی انھوں نے کی ہوتی ہے تو ان کی حیثیت ایک ضامن کی ہوتی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اس فیصلہ کے بعد میں نے اپنے ایک دوست سے جس نے دو شادیاں کی ہوئی ہیں اور تیسری کرنے کے چکر میں ہے، سے پوچھا کہ اس نے دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت کس طرح لی تھی۔ یہ سوال میرے لیے اس لیے بھی اہم تھا کہ اس کی پہلی بیوی ایک کالج میں پڑھاتی ہیں اور ورکنگ وومن ہیں۔
اس کے پہلی بیوی سے بچے بھی ہیں بیٹا بھی ہے اس لیے دوسری شادی کی ایسی بھی کوئی وجہ نہیں تھی اولاد نہیں تھی یا بیٹا نہیں تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے مجھے کہا میری پہلی بیوی مجھے کسی بھی قیمت پر دوسری شادی کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ میں نے کئی بار درخواست کی غصہ سے کہا لیکن وہ انکار کر دیتی۔ میں نے کہا پھر تم نے کیا کیا۔ اس نے کہا میں نے دو خط بنائے۔ ایک میں دوسری شادی کا اجازت نامہ رکھا ار دوسری میں طلاق کا نوٹس رکھا اور بیوی سے کہا تمھاری مرضی جو مرضی خط چن لو۔ اگر اجازت دے دو تو میری بیوی رہ سکتی ہو۔ اگر نہیں تو طلاق چن لو۔ مرتی کیا نہ کرتی اب اس نے مجھ سے بچوں کے ساتھ طلاق تو نہیں لینی تھی۔ اس لیے اس نے دوسری شادی کے اجازت نامہ پر دستخط کر دیے۔ اور پھر اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں نے دوسری شادی کر لی۔
یہ واقعہ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جہاں دوسری شادی کا اجازت نامہ اصلی بھی ہوتا ہے وہاں بھی پہلی بیوی نے یہ اجازت نامہ بہت مجبوری میں ہی دیا ہوتا ہے۔ کوئی بھی بیوی خوشدلی سے دوسری شادی کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ ہمارے سماج کے اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ خواتین اپنی شادیاں بچانے اور عزت کی زندگی کی خاطر خاوند کو دوسری شادی کی اجازت دیتی ہیں۔ اس لیے ملک کی عدالتوں کو ایسے قانونی راستے بنانے چاہیے جہاں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مرد دباؤ اور بلیک میلنگ سے اپنی بیوی سے دوسری شادی کا اجازت نامہ نہ حاصل کریں۔
پاکستان میں اب نوجوان پسند کی شادی بھی کر رہے ہیں۔ جسے میں ایک اچھا رجحان سمجھتا ہوں۔ لیکن ساتھ ساتھ والدین بھی اپنی مرضی سے بچوں اور بالخصوص لڑکیوں کی شادیاں کرتے ہیں۔ والدین کی مرضی سے شادی کی تعداد اور شرح پسند کی شادیوں سے زیادہ ہے۔ ویسے تو معاشرے میں اتنا شعور آتا جا رہا ہے کہ والدین بھی بچوں کی پسند کو ماننے کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ اس طرح پسند کی شادی میں بھی والدین کی رضامندی شامل ہو رہی ہے۔ لیکن نوجوان گھروں سے بھاگ کر عدالت میں کورٹ میرج بھی کر رہے ہیں۔ یہ رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ لیکن اس سب کے ساتھ معاشرے میں طلاق کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ اس لیے جہاں معاشرہ آزاد ہو رہا ہے وہاں شادی شدہ زندگی کے معاملات بھی پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔
اس لیے جہاں والدین اپنی مرضی سے اپنی بیٹی اور بہن کی شادی کرتے ہیں۔ وہاں اس شادی کے معاملات سے انھیں علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ گھریلو خواتین نے شادی میں ناکامی کے بعد والدین اور بھائی کے گھر ہی واپس جانا ہوتا ہے۔ اس لیے بھائی اور والد کے کردار کو کیسے مائنس کیا جاتا ہے۔ گھریلو خواتین کا ذریعہ آمدن نہیں ہوتا۔ انھیں باہر کی زندگی کا کوئی خاص علم نہیں ہوتا۔ اکثر نے تو زندگی میں کبھی بینک اکاؤنٹ بھی نہیں کھولا ہوتا۔ انھیں اتنی قانونی سمجھ بھی نہیں ہوتی۔ اس لیے اپنے حق کے حصول کے لیے یا تو اپنے خاوند یا اپنے بھائی اور والد کی محتاج ہوتی ہیں۔
ایسے میں ان کو مجبور کرنا کہ وہ اپنے حق کے لیے خود عدالت آئیں اور اپنے بھائی کے ذریعے نہیں رجوع کر سکتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ عدالت کو حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تھی کہ خاتون کسی بھی ذریعے سے عدالت سے رجوع کرے تو عدالت اسے انصاف دے گی۔ عدالت کو ایسے فیصلے جاری کرنے چاہیے جہاں پہلی بیوی کے حقوق کو مزید محفوظ کیا جائے۔ اس کے مالی حقوق محفوظ کیے جائیں۔ اس پر طلاق کا ڈر ختم کیا جائے۔ عدالتوں کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ طلاق کے خوف سے دی گئی اجازت کتنی قانونی ہے۔
عدالت کیسے اس بات کو یقینی بنائے کہ خاتون نے بغیر کسی دباؤ کے دوسری شادی کی اجازت دی ہے۔ دباؤ میں دی گئی اجازت کو کسی بھی طرح قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے اس تناظر میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دوسری شادی کو اتنا آسان نہیں بنانا چاہیے۔ پہلی بیوی نے اگر اجازت بھی دینی ہے تواس کے بعد اس کو ایسے حقوق حاصل ہونے چاہیے جو بعد کی زندگی میں اس کے ساتھ استحصال کو روک سکیں۔ اگر اجازت دینے کے بعد بھی طلاق کا خوف برقرار رہتا ہے۔ دوسری بیوی پہلی کو طلاق دلوانے اور اس کے استحصال کی کوششیں شروع کر دیتی ہے۔ ہماری عدالتوں کو اس سب کو روکنے کی طرف جانا ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔