دہشت گردی کے نئے واقعات
پا کستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر شروع ہو گئی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم دوبارہ واپس اس دور میں آگئے ہیں جہاں پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا۔ لیکن پھر ہم نے ملکر دہشت گردی کے اس ناسور کو شکست دے دی تھی۔
امن دوبارہ واپس آگیا تھا۔ لیکن آج دوبارہ دہشت گردی کے سائے ہمارے سر پر منڈلانے لگے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے جیتی ہوئی جنگ کے فوائد کیسے ضایع کیے ہیں۔ آج بلوچستان میں دہشت گردی نے جس طرح سر اٹھا لیا ہے وہ ہمارے لیے بہت خطرناک ہے۔ اس کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
حال ہی میں پنجگور اور نوشکی میں ہونے والے واقعات کم خطرناک نہیں ہیں۔ اس سے پہلے کیچ میں ہونے والا واقعہ بھی قومی سطح پر خطرہ کی گھنٹیاں بجانے کے لیے کافی تھا۔ لیکن اس کے بعد پنجگور اور نوشکی کے واقعات ہو گئے ہیں۔ نوشکی اور پنجگور میں دہشت گردوں نے ایف سی ہیڈ کوارٹرز کو نشانہ بنایا ہے۔ ایک وقت تھا جب اسی طرح دہشت گردوں نے پنڈی میں جی ایچ کیو کو بھی نشانہ بنا لیا تھا، لیکن اس کے بعد ہم نے دہشت گردوں کو شکست دی۔
تاہم آج دوبارہ وہ وقت واپس آتا نظر آرہا ہے۔ پنجگور اور نوشکی سے پہلے لاہور اور پنڈی میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں۔ جس سے خوف پیدا ہوا ہے کہ کہیں ہم دوبارہ اس دورمیں نہ چلے جائیں جب ملک میں روزانہ دہشت گردی کے واقعات ہوتے تھے۔ میری رب سے دعا ہے کہ اللہ کرے میرے خدشات درست نہ ہوں لیکن جس طرح واقعات کا تسلسل ہے اس سے خوف پیدا ہوا ہے۔
اے پی ایس کے واقعے کے بعد پاکستان کی ساری سیاسی قیادت نے ملکر دہشت گردی سے لڑنے کے لیے ایک نیشنل ایکشن پلان بنایا۔ اس نیشنل ایکشن پلان کی وجہ سے ہماری فورسز نے دہشت گردی کی جنگ جیتی، لیکن ملک میں سیاسی عدم استحکام اور سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے موجودہ دور حکومت میں نیشنل ایکشن پلان سرد خانہ میں چلا گیا۔ عمران خان کے دور میں ہم نے نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں کبھی نہیں سنا اور آج ملک میں دہشت گردی دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ کیا کوئی سوال کر سکتا ہے کہ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کے باقی نکات پر کیوں عمل نہیں کیا۔ ہم نے اس کو سرد خانہ میں کیوں نہیں ڈالا۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد ایک عمومی رائے یہی تھی کہ اب پاکستان زیادہ بہتر انداز میں دہشت گردی کی جنگ کو شکست دے گا۔ افغانستان کی طالبان حکومت پاکستان کے دہشت گردوں کو پناہ نہیں دے گی۔ اب افغان سر زمین بھارت کے مذموم مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہو گی۔ طالبان کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہی تھی کہ ان کے آنے سے پاکستان میں امن آئے گا۔ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔
پہلے ہمیں تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات پر افغان طالبان کی جانب سے مجبور کیا گیا۔ یہ مذاکرات بھی افغان سرزمین پر ہی ہوئے۔ یہ مذاکرات ناکام ہو گئے۔ تاہم ان کی ناکامی کے بعد بھی افغان طالبان نے ان کو اپنے ملک سے نہیں نکالا۔ وہ آج بھی افغان سرزمین پر موجود ہیں اور وہیں سے پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
تاہم بلوچستان میں ہونے والے نئے واقعات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان میں دہشت گردی کرنے والی تنظیموں بلوچ لبریشن آرمی اور دیگر نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے۔ بالخصوص لاہور انارکلی میں ہونیوالے واقعے کی بے شک بلوچ تنظیم نے ذمے داری قبول کی ہے لیکن اس واقعے کا انداز تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں سے ملتا ہے۔ یہ واقعہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ افغان سرزمین پر پاکستان مخالف تنظیموں کا ایک اتحاد بن گیا ہے۔
نوشکی اور پنجگور میں ہونیوالے واقعات میں دہشت گردوں نے جدید اسلحہ استعمال کیا ہے۔ نائٹ گوگلز استعمال کی گئی ہیں۔ انفرا ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہیں۔ یہ جدید اسلحہ اس سے پہلے پاکستان میں دہشت گردی کے کسی واقعہ میں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ اس سے پہلے کیچ کے واقعہ میں دہشت گردوں نے اسنائپر گن بھی استعمال کی۔ جس کی وجہ سے ہمارے دس جوان شہید ہوئے۔ نوشکی اور پنجگور میں دہشت گردوں نے جتھوں کی صورت میں حملہ کیا ہے۔
انھوں نے باقاعدہ ایف سی ہیڈ کوراٹرز پر حملہ کیا ہے۔ وہ دو دن تک لڑتے رہے ہیں۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ اس حملہ کو مکمل طور پر ناکام بنایا گیا ہے لیکن پھر بھی اس طرح حملہ ہونا کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ یہ بتا رہا ہے کہ دہشت گردوں کی نہ صرف حملہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ان کی جدید اسلحہ کے ساتھ ٹریننگ بھی ہوئی ہے۔ یہ ٹریننگ بھی افغانستان میں ہی ہوئی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس قدر جدید اسلحہ ا ور جدید ٹیکنالوجی انھیں کیسے حاصل ہوئی۔ ایک عمومی رائے یہ بھی ہے کہ امریکی فوجیں جب افغانستان سے گئی ہیں تو یہ اسلحہ وہاں چھوڑ گئی ہیں۔
لیکن یہ بات ماننے والی نہیں کہ طالبان نے یہ جدید اسلحہ اپنے قبضہ میں لینے کے بجائے پاکستان مخالف تنظیموں کو دے دیا ہے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال کریں۔ جب طالبان کی پورے افغانستان پر رٹ قائم ہو چکی ہے تو ایسا اسلحہ پاکستان مخالف تنظیموں کے ہاتھ کیسے آیا اور پھر اس اسلحہ کو استعمال کرنے کی ٹریننگ بھی ہوئی۔ کوئی عام آدمی تو یہ ٹریننگ نہیں دے سکتا۔ جس کو یہ استعمال کرنے کا ہنر آتا ہو وہی ٹریننگ دے سکتا ہے۔
کیا یہ منطق درست نہیں کہ اشرف غنی اور حامد کرزئی کے دور میں بھی دہشت گردوں کو افغانستان میں ایسی کھلی چھٹی نہیں تھی جیسی طالبان دور میں نظر آرہی ہے۔ یہ کیوں ہے۔ دوسری طرف پاک افغان سرحد پر باڑ پر تنازعات بھی طالبان دور میں ہی سامنے آرہے ہیں۔
ایسے سرحدی تنازعات ماضی میں نظر نہیں آئے۔ بلکہ باڑ نہایت پر امن ماحول میں لگائی گئی ہے۔ اب کیوں تنازعات نظر آرہے ہیں۔ پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کی نقل و حرکت میں کیوں اضافہ نظر آرہا ہے۔
سرحد سے حملے کیوں ہو رہے ہیں۔ طالبان دور میں جو ماحول بن گیا ہے وہ پہلے نہیں تھا۔ ایک طرف ہم دوست ہیں دوسری طرف یہ ماحول ہے۔ دہشت گردی کی کارروائی کے د وران دہشت گرد اپنے لوگوں سے افغانستان میں باقاعدہ رابطہ میں رہے ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ ابھی بھی افغانستان ان کا بیس کیمپ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب طالبان ہمارے دوست ہیں تووہاں یہ کیمپ اور اتحاد کیسے بن رہے ہیں۔ اگر بھارت آج بھی افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہے تو طالبان کی کیا حکومت ہے۔
پاکستان کے نیشنل سیکیورٹی کے مشیر حال ہی میں افغانستان گئے ہیں۔ انھوں نے وہاں اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ لیکن اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ ایک طرف ہم پوری دنیا میں افغانستان کے وکیل بنے ہوئے ہیں دوسری طرف افغان سرزمین پہلے سے زیادہ قوت سے ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ یہ کیا پالیسی ہے۔ باقی کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں کچھ ہمیں بھی مرنے کا شوق کے مصداق ہم نے بھی نیشنل ایکشن پلان کو بھلا دیا۔
ہم بھول گئے کہ جو کامیابی ہم نے حاصل کی ہے اس کو قائم رکھنے کے لیے بھی اقدامات کرنے ہیں۔ یہ واقعات ہماری اپنی بھی کوتاہی ہیں۔ ہمیں دہشت گردی کے خلاف اپنی انٹیلی جنس میں بہتری لانا ہوگی تا کہ ایسے واقعات کو روکا جا سکے۔