دیوانی اپیلوں کی تعداد میں کمی، خوش آیند
حکومت دیوانی مقدمات میں اپیل کا ایک حق ختم کرنے کے لیے آرڈیننس لا رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ درست قدم ہے۔ ہمارا نظام انصاف بہت طویل ہے۔ اپیل پر اپیل کا حق انصاف کو بہت لمبا کر دیتا ہے۔ اور اس طرح دیوانی مقدمات کبھی منطقی انجام تک نہیں پہنچتے۔ ایک عدالت سے دوسری عدالت دوسری عدالت سے تیسری عدالت کا سفر دراصل ایک نسل سے دوسری نسل تک کا سفر۔ دیوانی مقدمات ہی فوجداری مقدمات کو جنم دیتے ہیں۔
دیوانی مقدمات سول جج کی عدالت سے شروع ہوکر سپریم کورٹ تک پہنچتے ہیں۔ بات صرف اپیل پر اپیل کی ہی نہیں ہے بلکہ اس کے بعد رٹ اور نظرثانی کی درخواستیں معاملات کو طویل کر دیتے ہیں۔ اپیل کا حق نظام انصاف کا بنیادی جزو ہے۔ ماتحت عدالتوں میں نظام انصاف کا وہ معیار نہیں کہ انصاف کو صرف ان پر چھوڑا جا سکے۔ اگر ہم نے نظام انصاف کو ٹھیک کرنا ہے تو ماتحت عدلیہ کو فعال اور ٹھیک کرنا ہوگا۔ تاریخ پر تاریخ کا کلچر ماتحت عدلیہ میں بہت زیادہ ہے۔
اعلیٰ عدلیہ میں تاریخ پر تاریخ کا کلچر اتنا زیادہ نہیں ہے۔ وہاں بھی تاریخیں ڈالی جاتی ہیں لیکن پھر بھی ایک حد موجود ہے۔ یہ درست ہے کہ موجودہ چیف جسٹس نے فوجداری مقدمات میں قتل اور منشیات کے مقدمات کے لیے ماڈل کورٹس قائم کی ہیں۔ ان ماڈل کورٹس نے ریکارڈ مدت میں مقدمات کا فیصلہ کیا ہے۔ اب تو کئی اضلاع میں یہ صورتحال بھی سامنے آ رہی ہے کہ وہاں قتل اور منشیات کا کوئی مقدمہ زیر سماعت نہیں ہے۔ یہ اپنی جگہ ایک خوش آیند ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ابھی دیگر بہت سے فوجداری مقدمات زیر سماعت ہیں۔
جو مقدمات ماڈل کورٹس میں نہیں گئے وہ اب بھی تاریخ پر تاریخ کے کلچر کا شکار ہیں۔ دوسری طرف دیوانی مقدمات میں بھی ماڈل کورٹس بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن ماڈل کورٹس کو جو کامیابی فوجداری مقدمات میں ملی ہے کیا وہ دیوانی مقدمات میں ممکن ہے۔ جن مقدمات کا ماڈل کورٹس فیصلہ کر رہی ہیں ان کی اپیلوں کے جلد از جلد فیصلوں کے لیے بھی اعلیٰ عدلیہ میں ماڈل کورٹس قائم کی جائیں۔ جب کئی سال بعد کسی ملزم کو بے گناہ قرار دیکر بری کیا جاتا ہے۔ تب تک وہ ملزم اپنی آدھی سے زائد زندگی جیل میں گزار چکا ہوتا ہے۔
دیوانی مقدمات کی تکلیف کسی بھی طرح فوجداری مقدمات سے کم نہیں ہے۔ بلکہ دیوانی مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر فوجدای مقدمات کو جنم دیتی ہے۔ لوگ تب ہی قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں جب انھیں قانون سے انصاف کی امید نہیں ہوتی۔ ملک میں قانون کی حکمرانی اور جرائم میں کمی کے لیے ہمیں دیوانی نظام انصاف کو فعال کرنا ہوگا۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ سول عدالت سے شروع ہونے والا کیس سپریم کورٹ تک کیوں پہنچتا ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ اگر ایک ملازم اپنی تنخواہوں کا کیس بھی کسی لیبر کورٹ میں دائر کرتا ہے تو وہ بھی سپریم کورٹ تک جاتا ہے۔
آپ ذرا اندازہ لگائیں پہلے لیبر کورٹ پھر لیبر اپیلٹ کورٹ وہاں سے ہائی کورٹ میں رٹ وہاں سے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست۔ دو فریقین کے درمیان معمولی نوعیت کا لین دین کا تنازعہ بھی سول عدالت سے سپریم کورٹ تک کا سفر طے کرتا ہے۔ میری رائے میں سپریم کورٹ کو ماتحت عدلیہ اور ہائی کورٹس کے ساتھ اس بات کو طے کرنا چاہیے کہ کون کون سے مقدمات سپریم کورٹ تک جائیں گے اور کون کون سے مقدمات ہائی کورٹس تک ہی ختم ہو جائیں گے۔ اسی طرح ضمانت کے مقدمات کا سپریم کورٹ تک پہنچنا بھی نظام انصاف پر بوجھ ہے۔
یہ بات نا قابل فہم ہے کہ لوگ صرف ضمانت کے حصول کے لیے سپریم کورٹ تک درخواست دائر کرتے ہیں۔ میری رائے میں ضمانت ملزم کا حق ہے جب تک کہ وہ مجرم ثابت نہ ہو جائے۔ اب صورتحال جس کے پاس اچھا وکیل ہے وہ ضمانت کا مقدمہ سپریم کورٹ تک لیجاتا ہے۔ اور جس کے پاس وکیل کرنے کی استطاعت نہیں ہے وہ کیسے اپنی ضمانت کی درخواست سپریم کورٹ تک لے کر جائے۔ ضمانت کے مقدمات کا سپریم کورٹ تک پہنچنا نظام انصاف کے خلاف ہے۔ دیوانی مقدمات میں جھوٹے مقدمات کی بھرمار ہے۔ جس کی بنیادی وجہ ہے کہ عدالتیں جھوٹی مقدمہ بازی پر بھاری جرمانہ عائد نہیں کرتی ہیں۔
ایک رواج بن گیا ہے کہ جھوٹا مقدمہ دائر کر دو۔ اس کو جھوٹا ثابت کرنے میں کئی سال لگیں گے اس طرح دوسرا فریق پھنسا رہے گا۔ لوگ جعلی کاغذات کی بنیاد پر دیوانی مقدمات دائر کرتے ہیں اور پھر ان کو کئی سال تک چلاتے ہیں۔ کیونکہ نظام انصاف میں اس کی کوئی سزا موجود نہیں ہے۔
ایسے جھوٹے مقدمات جب سول عدالت سے چلتے چلتے سپریم کورٹ پہنچتے ہیں تو سچ ڈوب چکا ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جھوٹے مقدمہ بازی میں مثالی جرمانے کیے جائیں تا کہ جھوٹے مقدمہ دائر کرنے سے پہلے کوئی سو دفعہ سوچے۔ سپریم کورٹ جھوٹی گواہیوں پر بہت سخت ایکشن لے رہی ہے۔ ہر جھوٹا دیوانی مقدمہ بھی جھوٹی گواہی پر ہی قائم کیا جاتا ہے۔ لوگ دیوانی عدالتوں میں جھوٹ کھل کر کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کی کوئی سزا نہیں ہے۔ دیوانی مقدمات میں جونہی درخواست آتی ہے دوسرے فریق کو نوٹس کرنے کا ایک نظام بھی موجود ہے۔
دوسرے فریق کو نوٹس کرنے سے پہلے عدالت کو اس بات کا جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ درخواست میں کوئی جان بھی ہے کہ نہیں۔ کیا درخواست میں کوئی قابل قدر شواہد موجود ہیں جن کی بنیاد پر مقدمہ چل سکے۔ صرف ایک درخواست پر دوسرے فریق کو نوٹس کے نظام نے بھی عدالتوں میں مقدمات کی بھر مار کر دی ہے۔ جس طرح فوجداری استغاثہ دائر کیا جائے تو عدالت تب تک دوسرے فریق کو نوٹس نہیں کرتی جب تک مدعی اپنی گواہی سے اپنے استغاثہ کو سچا ثابت نہ کر دے۔ اسی طرح دیوانی مقدمات میں حکم امتناعی اور نوٹس پر سخت قدغن لگانے کی ضرورت ہے۔ لوگ حکم امتناعی لے کر غائب ہو جاتے ہیں۔ اگلے فریق کو نوٹس دائر کروا کر مقدمہ کو لمبا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح ایک یک طرفہ فیصلہ انصاف کے قتل کا باعث بنتا ہے۔
حکومت کی جانب سے دیوانی ضابطہ میں تبدیلی بہت خوش آیند ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ سلسلہ آگے بڑھے گا۔ تب ہی نظام انصاف فعال ہو سکے گا۔ اور جلد از جلد انصاف کا حصول ممکن ہو سکے گا۔