چوہدری شجاعت حسین کی صحتیابی اور سیاسی منظر نامہ
پاکستان مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین صحتیاب ہو کر وطن واپس پہنچ گئے۔ چوہدری شجاعت حسین بھی پاکستان کی سیاست کا ایک منفرد نام ہیں۔ ان کی سیاست کی خاص بات یہ ہے کہ ان کے دشمن بھی ان کی عزت کرتے ہیں۔
آپ دیکھیں ان کی بیماری کا سن کر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے جرمنی فون کیا اور چوہدری شجاعت حسین کے بیٹے چوہدری سالک حسین سے ان کی خیریت دریافت کی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ بہت عرصہ بعد یہ چوہدری خاندان اور شریف خاندان کے درمیان پہلا براہ راست رابطہ تھا۔
اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے چوہدری شجاعت حسین کی خیریت کے لیے خود فون کر کے پہلا قدم اٹھا دیا ہے۔ کیا دونوں خاندانوں کے درمیان آگے چل کراکٹھے چلنے کا کوئی سیاسی راستہ نکلے گا۔ یہ بات قبل از وقت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں طرف سے مثبت سیاسی اشاروں میں بات ہو رہی ہے۔ مناسب وقت پر مناسب نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
عمران خان نے بھی چوہدری شجاعت حسین کی خیریت دریافت کرنے کے لیے چوہدری پرویز الٰہی کو فون کیا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کا فون کرنا کافی نہیں ہے۔ انھیں چوہدری شجاعت حسین کی خیریت دریافت کرنے اور ان کو صحتیابی پر مبارک دینے خود آنا چاہیے تھا۔ وہ سیاسی حریف نہیں حلیف ہیں۔ عمران خان کی کمزور حکومت اس وقت جن سیاسی کندھوں پر قائم ہے۔
ان میں ایک کندھا چوہدری برادران کا بھی ہے۔ مرکز میں تو دوسرے اتحادی بھی ہیں لیکن پنجاب میں چوہدری برادران کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پنجاب میں بیلنس آف پاور چوہدری خاندان کے پاس ہے۔ آج پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت صرف اور صرف چوہدری خاندان کی وجہ سے قائم ہے۔ اگر چوہدری خاندان ایک لمحہ کے لیے یہ بھی چاہتا کہ وہ وزارت اعلیٰ حاصل کریں۔ تو وزارت اعلیٰ ان کے گھر پہنچ چکی تھی۔ وہ آج بھی جب چاہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن چوہدری خاندان کی رواداری کی سیاست اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
لیکن پھر بھی چوہدری خاندان کی سیاست کے حا می ان سے کوئی خاص خوش نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں سیاست میں اپنے وزن کو بے وزن کرنا کوئی اچھی حکمت عملی نہیں۔ عمران خان کو چوہدری شجاعت حسین کی خیریت دریافت کرنے ان کے گھر آنا چاہیے تھا۔ یہ سیاسی روایت کا ایک بنیادی جزو ہے اور اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
یہ درست ہے کہ عمران خان سے گزشتہ ملاقات میں چوہدری شجاعت حسین نے عمران خان کو واضح طو ر پر کہہ دیا تھا کہ ان کی کوئی ڈیماند نہیں ہے۔ وہ حمایت کے لیے کوئی شرط نہیں رکھنا چاہتے۔ حالانکہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے اندر یہ احساس موجود ہے کہ ان کی ایک اور وفاقی وزارت بنتی ہے۔ جو انھیں نہیں دی جا رہی۔ تا ہم چوہدری شجاعت حسین نے ایک وزارت کے لیے عمران خان پر دباؤ ڈالنے سے انکار کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ چوہدری شجاعت حسین نے کہہ بھی دیا تو عمران خان کو ان کی سیاسی اہمیت کا خود احساس کرنا چاہیے۔
عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ کے پیچھے بھی چوہدری برادران کی طاقت ہے۔ ورنہ تحریک انصاف تو انھیں اتارنے کی متعدد سازشیں کر چکی ہے۔ لیکن چوہدری برادران نے نعیم الحق سے گزشتہ ملاقات کے بعد واضح کر دیا تھا کہ وہ عثمان بزدار کو ہٹانے کے حق میں نہیں ہیں۔ عمران خان کو شائد اندازہ ہے کہ عثمان بزدار کے بعد چوہدری برادران سے نئے وزیر اعلیٰ کے لیے ووٹ لینا نا ممکن ہوگا۔ بلکہ پھر ووٹ دینے پڑ جائیں گے۔
چوہدری شجاعت حسین پاکستان میں رواداری کی سیاست کی ایک شاندار علامت ہے۔ وہ سیاسی مخالفت میں بھی رواداری کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ بلا شبہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں چوہدری شجاعت حسین کو ایک سیاسی استاد کی حیثیت حاصل ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ صحت کی وجہ سے انھوں نے پاکستان کی انتخابی سیاست کو خیر باد کہ دیا ہے۔ لیکن پھر بھی چوہدری شجاعت حسین کے سیاسی تجربہ کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔
پاکستان کی سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں بزرگوں سے سیکھنے کا کوئی رحجان نہیں۔ سیاسی اساتذہ سے سیاست کا فن سیکھنے کی کوشش کوئی نہیں کرتا۔ ہر کوئی خود کو عقل کل سمجھتا ہے۔ سیاسی تفریق اس قدر تلخ ہو گئی ہے کہ ہم سیاسی اختلاف کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا دیتے ہیں۔ سیاسی مخالفین کے سادہ سماجی تعلقات کو بھی سیاسی غداری سمجھا جاتا ہے۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کے بعد پاکستان کی سیاست میں ایک بزرگ سیاستدان کا خلا نظر آتا ہے۔ لیکن یہ خلا اب چوہدری شجاعت حسین ہی پورا کر سکتے ہیں۔ ان کی عزت اور تجربہ کسی ابہام کا محتاج نہیں ہے۔ ان کا سیاسی کیریئر بھی بے داغ ہے۔
میری رائے میں چوہدری شجاعت حسین کو پاکستان میں سیاست کے رموز و آداب سکھانے کے لیے کام شروع کرنا چاہیے۔ انھیں نوجوانوں کی سیاسی ٹریننگ کے لیے کام شروع کرنا چاہیے۔ آج پاکستان کا نوجوان سیاست سے دور بھاگ رہا ہے۔ وہ پاکستان کی سیاست سے ناامید ہو گیا ہے۔ اور جو نوجوان اس وقت سوشل میڈیا پر سیاست میں ہیں۔ ان کی اخلاقی اقدار شدید زوال کا شکار ہیں۔
پاکستان میں گالم گلوچ کی سیاست پروان چڑھ رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر منفی ٹرینڈز کی دوڑ نے پاکستان کے سیاسی کلچر کو تباہ کر دیا ہے۔ پاکستان میں سیاسی مخالفین کی تذلیل ہی سیاسی برتری کی نشانی رہ گئی ہے۔ اس کلچر کو روکنے کے لیے چوہدری شجاعت حسین کو آگے آنا چاہیے۔ ویسے تو اس وقت کئی مرکزی رہنماؤں کو سیاسی ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ کئی وفاقی وزرا بھی سیاسی آداب اور اخلاقی اقدار سے نابلد ہیں۔ لیکن اب ان کو سمجھانے کا وقت گزر گیا ہے۔ وہ سمجھنے کی عمر سے گزر گئے ہیں۔ لیکن خطرناک بات یہ ہے کہ ہمارے نوجوان بھی ان کی بد تمیزیوں کو اپنا رول ماڈل بنا رہے ہیں۔ جو پاکستان کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں۔ اس لیے چوہدری شجاعت حسین کو پاکستان کے سیاسی کلچر کو ٹھیک کرنے کے لیے کام شروع کرنا چاہیے۔ سیاسی آداب کی بات کرنی چاہیے۔ سیاسی اخلاقیات کی اہمیت پر بات کرنی چاہیے۔ سیاست میں سما جی تعلقات کی اہمیت کو بھی سمجھانا ہوگا۔
چوہدری شجاعت حسین نے اپنی سیاسی سوانح حیات بھی لکھی ہے۔ آپ اس کے مندرجات سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن ایک سیاستدان کی جانب سے اپنی سیاسی سوانح حیات لکھنا ایک اچھی روایت ہے۔ پاکستا ن میں سوانح حیات لکھنے کا رحجان ختم ہو گیا ہے۔ لوگ اپنے تجربات اور زندگی کے اہم راز اپنے ساتھ ہی لیجاتے ہیں۔
میں نے خود کئی سیاستدانوں سے پوچھا کہ آپ اپنی سیاسی سوانح حیات پر کتاب کیوں نہیں لکھتے تو وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں سچ نہ تو لکھا جا سکتا ہے۔ اور نہ ہی بولا جا سکتا۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ قوم کی امانت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کتاب پڑھنے کا رحجان ختم ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں عام آدمی کو سیاست سے بہت دلچسپی ہے۔ اس لیے اگر ملک کے نامور اور بڑے سیاستدان کتابیں لکھیں گے تو لوگ ان کو پڑھیں۔ جس طرح چوہدری شجاعت حسین کی کتاب کو پذیر ائی ملی ہے اس کے بعد ملک کے باقی سیاستدانوں کو بھی اپنے اپنے سیاسی تجربات پر کتاب لکھنا چاہیے۔ یہ کتابیں پاکستان کی حقیقی سیاسی تاریخ ہوں گی۔ جن کا کوئی نعم البدل نہیں۔