Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Muzamal Suharwardy
  3. Bilawal Ka Awami March, Aik Jaiza

Bilawal Ka Awami March, Aik Jaiza

بلاول کا عوامی مارچ؛ ایک جائزہ

بلاول بھٹو کا مارچ تحریک عدم اعتماد کے شور میں ایسا کھو گیا کہ اس پر زیادہ بات نہیں ہوئی۔ ویسے بھی جب تک کسی ایشو میں سنسنی نہ ہو ہم اسے سنجیدہ لینے کے عادی نہیں ہیں۔ بلاول کے مارچ کے پروگرام میں دھرنا دینا شامل نہیں تھا۔ یوں ہمارے لیے اس میں سنسنی نہیں تھی، سب معلوم تھا کہ مارچ کے نتیجے میں حکومت نہیں جائے گی۔ اس لیے مارچ کو وہ عزت اور توجہ نہیں مل سکی جس کا وہ حقدار تھا۔ کسی نے مارچ کے نظم و ضبط پر بات نہیں کی، کسی نے مارچ میں لوگوں کے شمولیت پر بات نہیں کی۔ کسی نے مارچ کے روٹ پر بات نہیں کی۔ ایک ہی بات تھی کیا آخر میں دھرنا ہوگا؟ کیا یہ مارچ حکومت ختم ہونے سے پہلے ختم ہو جائے گا۔

بلاول بھی شاید عوام اور پاکستانی میڈیاکے اس نفسیاتی مسئلہ کو اب بخوبی سمجھ چکے ہیں۔ اسی لیے پنجاب میں داخل ہونے کے بعد انھوں نے عمران خان کو مستعفی ہونے کا الٹی میٹم دینا شروع کر دیاتھا، اس الٹی میٹم نے میڈیا اور عوام میں رونق لگائے رکھی۔

لوگ الٹی میٹم کو انجوائے کرنے لگے۔ ویسے بھی مارچ کے ساتھ عدم اعتماد کی کہانی چل رہی تھی، اس لیے لوگ مارچ اور عدم اعتماد کو ایک ساتھ ہی پڑھنے اور دیکھنے لگے۔ اس کا بلاول کو ایک فائدہ ضرور ہو گیا ہے، کم از کم تحریک عدم اعتما د کو مارچ کی کامیابی تصور کر لیا گیا اور آج مارچ کی کامیابی اور ناکامی پر بحث نہیں ہو رہی۔ سب تحریک عدم اعتماد پر مطمئن ہو گئے ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ مارچ کے ساتھ ز یادتی ہوئی ہے، اس پر بات ہونی چاہیے۔

حکومت نے بھی بلاول بھٹو کے ایک فقرے کو پکڑ کر سارے مارچ کے اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے یا چال چلنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تحریک انصاف کا انداز سیاست ہے، اس میں سیاسی مخالف کی تضحیک کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

بلاول بھی اسی کا شکار ہوئے ہیں۔ ویسے بھی ویر اعظم عمران کسی کی عزت کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ ان کا موڈ سب پر صاف ظاہر ہے۔ اس لیے حکومتی رد عمل قابل فہم ہے۔ کوئی بھی صورتحال آتی ایسا ہی رد عمل آنا تھا۔ کیا ہمیں یاد نہیں ایک دفعہ عمران خان نے بلاول کو مونث کے صیغہ میں پکارا تھا، پھر بعد میں سخت عوامی رد عمل کو کور کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ شیخ رشید اور دیگر بھی بلاول کے بارے میں قابل مذمت زبان استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس لیے پیپلزپارٹی اور پاکستان کے عوام کے لیے تحریک انصاف کا یہ کلچر اور رد عمل کوئی نیا نہیں ہے، سب کو پتہ ہے عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے دوسرے لوگ کس قسم کی گفتگو کرنے کے عادی ہیں۔

میں سمجھتا ہوں سیاسی اعتبار سے بلاول کا پنجاب میں مارچ کافی کامیاب رہا ہے۔ بالخصوص وسطیٰ پنجاب میں ان کے استقبال اور عوامی اجتماعات جس قدر بہتر رہے ہیں، ا س کی توقع نہیں تھی۔ بلاول کے مخالفین اور پنجاب کی بڑی سیاسی جماعتوں کا یہ خیال تھا کہ بلاول کو پنجاب میں کوئی خاص پذیر ائی نہیں ملے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پنجاب میں جتنی تعداد میں لوگ آئے، اس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔ جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی کی موجودگی نظر آتی ہے۔

رحیم یار خان میں مخدوم احمد محمود اور ملتان میں یوسف رضا گیلانی کا خاندان پیپلزپارٹی کی جنوبی پنجاب میں موجودگی کا ایک ثبوت ہیں۔ اس لیے سب کو توقع تھی کہ جب سندھ سے بلاول پنجاب میں داخل ہوں گے تو انھیں اچھا استقبال ملے گا۔ آجکل ویسے بھی شاہ محمود قریشی کے یوسف رضا گیلانی کے خلاف بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی ایک سیاسی خطرے کے طورپر موجود ہے۔ اس لیے مارچ کے رحیم یار خان، احمد پور شرقیہ، بہاولپور اور ملتان میں اچھے اجتماعات کسی کے لیے حیرانی کا باعث نہیں تھے۔ اس سے پہلے بھی بلاول جنوبی پنجاب کا دور ہ کر چکے ہیں۔ تب بھی انھوں نے اچھی تعداد کے حامل عوامی اجتماعات سے خطاب کیا تھا۔

عوامی مارچ کی ساہیوال سے آگے کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان موجود تھا۔ ایک رائے یہ تھی کہ مقامی لوگ مارچ میں شرکت کرنے بہت کم تعداد میں آئیں گے۔ بلاول کے ساتھ وہی لوگ ہوں جو سندھ اور جنوبی پنجاب سے آئیں گے لیکن یہ سب اندازے اور تجزیے غلط ثابت ہو گئے ہیں۔

چیچہ وطنی سے آگے اجتماعات بہت اچھے نظر آئے ہیں اور ان میں مقامی لوگوں اور کارکنوں کی بڑی تعداد بھی نظر آئی ہے۔ ساہیوال، اوکاڑہ، لاہور، گوجرانوالہ، گجرات سب جگہ پیپلزپارٹی نے اپنی موجودگی کا احساس مضبوط کیا ہے، اس لیے اس حد تک تو بلاول کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے اس عوامی مارچ کے ذریعے پنجاب میں پیپلزپارٹی کو دوبارہ فعال کیا ہے۔ اس کی موجودگی کے احساس کو مضبوط کیا ہے۔ اس تناظر میں یہ ایک مثبت سیاسی سرگرمی رہی ہے۔

پنجاب میں پیپلزپارٹی کی بحالی بلاول کے لیے ہمیشہ سے ہی ایک چیلنج رہا ہے۔ حال ہی میں لاہور کے ایک ضمنی انتخاب میں پیپلزپارٹی نے خاصے ووٹ لیے تھے لیکن ایک تو اس ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف نے حصہ نہیں لیا، دوسرا ووٹوں کی خرید و فروخت کا پروپیگنڈہ بھی ہوا۔ یہ درست ہے کہ ندیم افضل چن کی واپسی نے بھی مارچ میں رنگ بھرا ہے لیکن آج کے تناظر میں پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کے سامنے سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا اس عوامی مارچ کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کا پنجاب میں ووٹ بینک بحال ہوا ہے۔

کیونکہ جب تک پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک واپس نہیں آئے گا، مضبوط اور مقبول امیدوار نہیں آئیں گے۔ پنجاب سے سیٹیں اسی وقت جیتی جا سکیں گی جب ووٹ بینک بحال ہوگا اور اپنے حلقوں میں مقبول امیدوار پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے۔ جب تک پنجاب سے سیٹیں نہیں جیتی جا سکیں گی تب تک پیپلزپارٹی مرکز میں حکومت بنانے کی گیم میں نہیں آئے گی۔ اس لیے پیپلز پارٹی کے لیے پنجاب بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں بلاول کے عوامی مارچ سے پنجاب میں پیپلزپارٹی کے لیے رائے عامہ ہموار ہوئی ہے۔ اگر ووٹ بینک بحال نہیں بھی ہوا ہے تو کم از کم بحالی کی طرف سفر ضرور شروع ہوگیا ہے۔ اس تاثر کی نفی ہونا شروع ہوئی ہے کہ پنجاب سے پیپلزپارٹی کا صفایا ہو گیا ہے۔ ویسے بھی یہ تاثر عام ہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک تحریک انصاف نے چرایا تھا۔

ا س لیے اب جب کہ تحریک انصاف کے ووٹ بینک میں کمی کے عوامی سروے سامنے آرہے ہیں، ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی امیدواروں کی ہار سب کے سامنے ہے۔ اس لیے پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ اس کا وہ ووٹ بینک جو ناراض یا مایوس ہوکر تحریک انصاف کے پاس گیا تھا، اب وہ پیپلزپارٹی میں واپس آسکتا ہے۔ یہ ایک مشکل سوال ضرور ہے لیکن ایسا نہیں کہ مثبت تجزیہ نہ کیا جاسکے۔

بلاول سیاسی جدو جہد کر رہے ہیں۔ وہ عوامی رائے ہموار کرنے کے لیے شہر شہر جا رہے ہیں۔ اپنا سیاسی منشور اور اپنا سیاسی پیغام ووٹرز اور عوام تک پہنچانا بلاول بھٹو کا سیاسی اور آئینی حق ہے۔ میں سمجھتا ہوں بلاول کی سیاسی سرگرمیوں کو مثبت نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں مثبت سیاسی سرگرمیاں ختم ہوتی جارہی ہیں۔ گالم گلوچ، ذاتیات پر ذومعنی فقرے بازی، دھونس دھمکیوں کی زبان کا استعمال سیاست کو تعفن زدہ کررہا ہے۔ سیاسی ورکرز اور ووٹرزکی ذہنیت بھی تبدیل ہوئی ہے، وہ بھی چاہتے ہیں کہ سیاسی مخالفین کے کپڑے اتارے جائیں، دھماکے دار وار کیے جائیں۔ دھرنے دیے جائیں۔ مثبت اورتعمیری سیاسی سرگرمیوں کو میڈیا بھی زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتا ہے۔

کالم نگار، اینکرز اور رپورٹرز بھی بیلودی بیلٹ جملے بازی کرتے ہیں، ان کی شعوری سطح اور سیاسی ویژن گلی محلے کے سیاسی ورکر سے بھی کم ہے، بہرحال اس سب کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ بلاول بھٹو نے ایک مشکل کام اچھے اور مثبت طریقے سے کیا ہے۔ ان کا عوامی مارچ پاکستان کی سیاست کا ایک مثبت چہرہ رہے گا۔ لوگ اسے ہمیشہ مثبت سیاسی سرگرمی کے طور پر ہی یاد رکھیں گے۔ مجھے امید ہے کہ ووٹ بینک کی بحالی کے سفر میں بھی یہ عوامی مارچ ایک قدم ضرور آگے بڑھا ہے لیکن شاید منزل ابھی دور ہے، ابھی بلاول کومزید محنت کرنا ہوگا۔ انھیں پنجاب پر اپنی توجہ جاری رکھنی ہوگی۔

Check Also

Riyasat Ke Daimi Idaron Ko Shayad Ab Kuch Naya Karna Pare

By Nusrat Javed