بازگشت
سپریم کورٹ آج کل ایک مشکل مقدمہ سن رہی ہے۔ میں بھی اس حق میں ہوں کہ سیاسی اور پارلیمانی تنازعات عدلیہ میں نہیں جانے چاہیے۔ لیکن جب سیاسی جماعتیں با ہم دست گریباں ہو جائیں، ایک فریق پارلیمان کو اپنے پاس گروی رکھ لے تو پھر سپریم کورٹ ہی آخری آپشن بچتی ہے، اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی سپریم کورٹ کو آئینی، سیاسی اور پارلیمانی تنازعات کو دیکھنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ کوئی اچھی صورتحال نہ پہلے تھی نہ آج ہے۔
پاکستان کے سیاسی حلقوں میں کل سے مفاہمتی فیصلوں کی بہت بات کی جا رہی ہے۔ بالخصوص تحریک انصاف کے وہ حلقے مفاہمتی انصاف کی بہت بات کر رہے ہیں۔ ان کی رائے میں بے شک ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو آئین و قانون کے منافی قرار دے دیا جائے اور یہ بھی قرار دے دیا جائے کہ آیندہ کسی بھی اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ روکنے کے لیے ایسی کسی بھی رولنگ دینے کا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔
لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی قرار دے دیا جائے کہ اب چونکہ ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہو گیا ہے، فیصلہ عوام کی عدالت میں چلا گیا ہے اور سب سے بڑی عدالت عوام کی عدالت ہے تو ہم انتخابات کو نہیں روک رہے، اس لیے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غلط ہے لیکن انتخابا ت ہونے چاہیے۔ اس طرح دونوں فریقوں کو خوش ہو سکتے ہیں۔ دونوں کوکچھ نہ کچھ مل جائے گا۔
اپوزیشن کہے گی کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غلط ثابت ہو گئی ہے، اس لے غداری اور بیرونی مداخلت کے تمام الزامات بھی غلط ثابت ہو گئے ہیں۔ عمران خان کہے گا کہ میرا انتخابات کرانے کا اعلان قائم رہا ہے، اس لیے سپریم کورٹ نے میرے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ دونوں ہی مٹھائیاں بانٹیں گے۔
میری رائے میں پاکستان اس وقت جہاں کھڑا ہے، اگر پاکستان کو آئین و قانون کے مطابق چلانا ہے تو پھر حقیقی معنوں میں آئین و قانون کی سربلندی قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے سیاسی کھلاڑیوں کو سبق دینا ضروری ہے کہ انھوں نے سیاست کا کھیل آئین کے دائرہ کے اندر رہ کر کھیلنا ہے۔ کسی بھی حالت میں آئین سے چھیڑ چھاڑکرنا، توڑنا مروڑنا اور آئین کے آرٹیکلز کی من مانی تشریح کرکے کوئی اقدام کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے آئین سے چھیڑ چھاڑ کرنا ایک ریڈ لائن ہے اورجس کو عبورکر نے سے انھیں کوئی معافی نہیں ملے گی۔ آئین کو ئی موم کی ناک نہیں بلکہ ایک سیسہ پلائی دیوار ہے۔
کسی بھی قسم کا مفاہمتی رویہ ہر حکمران کو یہ حوصلہ دے گا کہ وہ آئین سے کھیل کر بھی بچ سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ریٹائرڈ ججز اور ریٹائرڈ جنرلز کو ریٹائرمنٹ کے کوئی حکومتی عہدہ نہیں ملنا چاہیے بلکہ انھیں سرے سے کوئی بھی ملازمت نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ پرتعیش نوکری اور مراعات کسی ایک طرف جھکاؤ کی ترغیب دیتی ہے۔ اس کی وجہ سے بھی پاکستان کا سیاسی کلچر خراب ہو رہا ہے۔ سیاسی کام سیاستدانوں کو ہی کرنا چاہیے۔
پاکستان کے نظام انصاف میں پہلے ہی نظریہ ضرورت کے تحت دیے گئے، فیصلوں کی بہت داستانیں ہیں۔ یہ ہمارے نظام انصاف کے کوئی سنہرے باب نہیں ہیں۔ ہمارے نظام اصاف نے ڈکٹیٹرز کو حکمرانی کے قانونی جواز بھی فراہم کیے ہیں۔ ایک ڈکٹیٹر کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا گیا تھا۔ آج اگر ہم مفاہمت کے تحت ایک سول حکمران کو آئین سے کھیلنے کی قانونی اجازت دے دیں گے۔ تو یہ بھی کوئی اچھی مثال نہیں ہوگی۔ جیسے ماضی میں جو متنازعہ فیصلے دیے گئے وہ تاریخ میں متنازعہ ہی قرار پائے ہیں۔ متنازعہ فیصلے آیندہ بھی متنازعہ ہی قرار پائیں گے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ ماضی میں جو جوڈیشل ایکٹوزم سے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی، اس کو بھی پاکستان کی عوام اور قانون دانوں نے سراہا نہیں ہے۔ ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس نے تو اپنی سیاسی جماعت بھی بنانے کی کوشش کی لیکن انھیں ناکامی ہوئی ہے۔ اگر سیاستدانوں کے بچے ان کی سیاست سے پہچانے جاتے ہیں تو نظام انصاف کی بھی یہی صورتحال ہے۔ وردی میں آنے والے ڈکٹیٹرز نے ہمیشہ آئین کی بے توقیری کی ہے۔
کیا اب جمہوری حکمرانوں کو بھی آئین کی بے توقیری کی اجازت ملنی چاہیے؟ کیا اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو بھی آئین سے کھیلنے کی اجازت دے دی جانی چاہیے؟ جنھوں نے پارلیمان کو آئین کے مطابق چلانے کی قسم کھائی ہوگی، انھیں بھی آئین سے انحراف کی اجازت ہو گی؟ یہ کوئی اچھی پیش رفت نہیں ہوگی۔ یہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے بجائے اسے کمزور سے کمزور کرنے کا باعث ہوگا۔
آئین سے انحراف کسی بھی طرح جمہوری نظام کو مضبوط نہیں کر سکتا۔ اس لیے میں کسی بھی قسم کے مفاہمتی انصاف کو پاکستان کی جمہوریت اور آئین کے لیے درست نہیں سمجھتا۔
سپریم کورٹ کو آئین کے تناظر میں سخت فیصلہ دینا چاہیے تاکہ آیندہ آئین سے انحراف اور اس سے کھیلنے کے بارے میں کوئی حکمران سوچ بھی نہ سکے۔ جو حکومت کل تک جمہوری اقتدار کے لیے ارکان کو باندھنے کے لیے سپریم کورٹ کھڑی ہوئی تھی، وہی حکومت آج آئین سے انحراف پر سپریم کورٹ میں بطور ملزم کھڑی ہے، اگر دیکھا جائے تو عمران خان اور ان کی ٹیم آج سپریم کورٹ میں بطور ملزم کٹہرے میں ہی کھڑی ہے۔ اور کسی مفاہمتی انصاف کی امید کر رہی ہے۔ لیکن وقت کا تقاضا ہے کہ آئین سے کھیلنے کے تمام دروازے مستقل بند کیے جائیں۔ اور آج اس کا سنہری موقع ہے۔