عوام سب کچھ سمجھتے ہیں
آج کل عمران خان اخلاقیات پر بہت لیکچر دیر رہے ہیں۔ ان کی ہر تقریر میں دینی حوالے ہوتے ہیں۔ ان کے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ ملک کے سیاسی نظام کو اخلاقی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔
حالانکہ یہ سوال اہم ہے کہ یہ وقت اب کیوں آیا ہے، جب شامل ڈھل چکی ہے، یہ وقت تو بہت پہلے آ جانا تھا، بہرحال وہ یہ بات توتواتر سے کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو نیوٹرل ہونے کی اجازت ہی نہیں دی ہے بلکہ اچھائی کے ساتھ جانے کا حکم دیا ہے اور ان کا موقف ہے کہ موجودہ سیاسی لڑائی میں وہ ہی اچھائی ہیں۔
انھوں نے خود کو خود ہی اچھائی قرار دے دیا ہے، وہ یہ حق کسی کو دینے کے لیے تیار نہیں کہ وہ خود فیصلہ کر لے کہ اچھائی کیا ہے اور برائی کیا ہے۔ ان کے مطابق جب انھوں نے خود کو اچھائی قرار دے دیا اور اپنے مخالفین کو برائی قرار دے دیا ہے تو ساری قوم کو ان کے ساتھ کھڑا ہو جانا چاہیے۔ قوم کو از خود یہ جاننے اور سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اچھائی کیا ہوتی ہے اور برائی کیا ہے حالانکہ لوگ ووٹ سے فیصلہ کریں گے کہ اچھائی کیا ہے، برائی کیا ہے۔ یہی جمہوری نظام ہے۔ ہاں اگر آر ٹی ایس بیٹھ جائے تو اور بات ہے۔
وزیراعظم صاحب یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کے ارکان کو پیسے دیکر خریدا گیا ہے۔ ان کے مطابق ان کے ارکان کو چوری کے پیسے سے خریدا گیا ہے۔ لیکن دوسری طرف وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کے بکے ہوئے ارکان جنھوں نے ان کے مطابق چوری کے پیسے لیے ہیں وہ اگر واپس آجائیں تو انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ان کے مطابق وہ اپنی جماعت کے لوگوں کے لیے باپ کی طرح ہیں اس لیے اگر پیسے لینے والے ارکان اب بھی واپس آجائیں تو انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ عمران خان کے نظریہ انصاف اور دینی تشریح کے مطابق پیسے لینے والوں کے لیے تو معافی کے دروازے کھلے ہیں۔
لیکن پیسے دینے والوں کے لیے معافی کے کوئی راستے نہیں ہیں۔ وہ اپنی تقاریر میں جن ارکان نے پیسے لیے ہیں ان کو عام معافی بھی دے رہے ہیں اور پکار پکار کر واپس بھی بلا رہے ہیں۔ ساتھ ہی انھیں پیسے دینے والوں کو خطرناک انجام اور دینی سزاؤں کے بارے میں بھی بتا کر ڈرا رہے ہیں۔
مجھے نہیں معلوم عمران خان نے دین کی یہ اس قسم کی من مانی تشریح کہاں سے نکالی ہے جس میں رشوت لینے والے کے لیے تو معافی ہے لیکن دینے والے کے لیے نہیں۔ ہم نے تو یہی سنا ہے کہ حکمران پوری قوم کے لیے باپ ہوتا ہے۔ لیکن اب نئی تشریح آئی ہے کہ حکمران صرف اس کا باپ ہوتا ہے جو اس کے ساتھ ہو۔ جو اختلاف کرے جو ان کو کرسی سے ہٹانے کی کوشش کرے، وہ اس کے باپ نہیں ہیں۔ یعنی صرف اسی کے باپ ہیں جو ان کی کرسی کو قائم رکھنے میں ان کی مدد کرے۔ مجھے پہلے معلوم نہیں تھا۔ یہ میرے علم میں اضافہ ہے۔
جب عمران خان نے اپنی جماعت میں دوسری جماعتوں سے لوگوں کو توڑ توڑ کر جمع کیا ہوا ہے۔ اقتدار اور مفادات کے لالچ میں لوگ ان کے ساتھ شریک ہوئے ہیں۔ اقتدار کے حصول کے لیے انھوں نے خود ہر حربہ استعمال کیا ہے۔ ایسے اب جب ان کی اپنی کرسی خطرہ میں ہے وہ کیسے دین اور اخلاقیات کا سہارا لے سکتے ہیں۔
کل جب دوسری سیاسی جماعتوں کے لوگوں کو اقتدار کے لالچ میں ان کے لیے توڑنا جائز تھا تو آج برا کیسے ہو گیا۔ کل جہانگیر ترین کے جہاز میں اپنی حکومت بنانے کے لیے لوگوں کو لانا جائز تھا۔ آج سندھ ہاؤس میں رکھنا ناجائز ہے۔ کل اقتدار کے لیے وزارتوں کی بندر بانٹ جائز تھی۔ آج ناجائز کیسے ہو گئی۔ اس لیے پی ٹی آئی کی حکومت دینی بنیادوں پر قائم ہی نہیں ہوئی تھی تو آج اسے بچانے کے لیے دین کا سہارا لینا اچھی سیاست نہیں ہے۔
عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ وہ جیسے اقتدار میں آئے تھے انھیں ویسے ہی نکالا جا رہا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں سے لوٹے جمع کر کے ان کو اقتدار میں لایا گیا تھا۔ آج وہی لوٹے اپنی پرانی جماعتوں میں واپس جا رہے ہیں اس لیے ان کا اقتدار خطرے میں نظر آرہا ہے۔ جب اقتدار کی بنیاد ہی غلط تھی تو اس کا اختتام بھی غلط ہی ہونا تھا۔
غلط بنیاد کے ساتھ انجام بخیر کی توقع رکھنا غلط ہے۔ جہاں تک دین اور اخلاقیات کی بات ہے تو پاکستان کے لوگ دین کے حوالے سے کافی باشعور ہیں۔ انھیں اچھے برے کی بخوبی سمجھ ہے۔ عمران خان ان کو جس تفریق کی طرف لیجانا چاہ رہے ہیں۔ وہ ممکن نہیں ہوگا۔ پاکستان کے عوام کو معلوم ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ عمران خان بھی دوسروں کی طرح سیاستدان ہیں لہٰذا وہ بھی کوئی دودھ کے دھلے نہیں ہوسکتے۔
عمران خان عوام سے اپیل کر رہے ہیں کہ جو ایم این ایز اور ایم پی ایز انھیں چھوڑ کر جا رہے ہیں ان کا معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے۔ ان کے بچوں کو اسکولوں میں برا بھلا کہا جائے۔ ان کے بچوں سے شادیاں نہ کی جائیں۔ ان کے گھروں کے سامنے احتجاج کیا جائے۔ اگر ایسا ہونا ہوتا تو جب یہ ارکان وفاداریاں تبدیل کر کے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے تو تب ہی ایسا ہو جاتا، جب یہ لوگ اپنی جماعتیں چھوڑ کر آپ کی جماعت کے ٹکٹ سے الیکشن لڑنے اپنے حلقوں میں پہنچے تھے تب ہی ان کا معاشرتی بائیکاٹ ہو جانا چاہیے تھا۔ تب کسی کا سماجی بائیکاٹ نہیں ہوا تو آج کیسے ہو سکتا ہے۔
لوگ اس کھیل کو سمجھتے ہیں۔ لوگ الیکشن لڑنے والوں کی مجبوریوں کو بھی سمجھتے ہیں۔ لوگ اقتداری مجبوریوں کو بھی سمجھتے ہیں۔ لوگوں کو پتہ ہے کہ اگر حکمران اقتدار میں آنے کے لیے اتنے سمجھوتے کرتے ہیں تو بیچارے ارکان اسمبلی کو سمجھوتہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فصیحت والی بات کیسے چل سکتی ہے۔
عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ ان کی اتنی تقاریر کے بعد بھی لوگ احتجاج کے لیے باہر نہیں آئے ہیں۔ ان کا ساتھ چھوڑنے والے ارکان کے حلقوں میں کوئی ہزاروں لاکھوں کے جلوس نہیں نکلے۔ سندھ ہاؤس میں احتجاج کے لیے بھی تھوڑے کارکن ہی پہنچے۔ حالانکہ تحریک انصاف کے دو ارکان قومی اسمبلی بھی وہاں موجود تھے۔
اگر دو ارکان قومی اسمبلی بھی صرف بیس لوگ ہی اکٹھے کر سکے ہیں تو باقی بات سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ اگر عمران خان کی اتنی اپیل کے بعد بھی فیصل آباد اور دیگر شہروں میں مٹھی بھر کارکنان ہی نکلے ہیں تو کھیل کا ڈراپ سین ہو گیا ہے۔ آ پ کی اتنی تقاریر کے بعد تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر باہر نکل آنا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ابھی تو آپ اقتدار میں ہیں، سرکاری مشینری ساتھ ہے۔ جلسے کرنا آسان ہے۔ پی ٹی آئی کے ہمدرد کہیں گے کہ تحریک انصاف نے ماضی میں اپوزیشن میں رہتے ہوئے بڑے بڑے جلسے کیے ہیں لیکن تب آشیر باد اور اے ٹی ایم دونوں ان کے ساتھ تھے۔
جب دونوں ساتھ نہیں ہونگے، فارن فنڈنگ کا فیصلہ آگیا ہوگاتو دیکھیں گے کتنے لوگ آئیں گے۔ پاکستان کے عوام حکومتوں کے آنے جانے اور جانے کے کھیل کی سائنس کو بخوبی سمجھتے ہیں، انھیں معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار سے جانے والے کی فوراً واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ عمران خان شاید غلط وکٹ پر کھیل رہے ہیں۔ اس وکٹ پر وہ میچ نہیں جیت سکتے۔