اگلی باری بھی پکی کا بیانیہ
عمران خان کا اقتدار گزشتہ ماہ بہت مضبوط نظر آرہا تھا۔ حکومتی ٹیم کی جانب سے یہ بیانیہ بنایا جا رہا تھا کہ اگلی باری بھی ہماری ہے۔
ملک میں اپوزیشن کی صورتحال بھی حکومتی ٹیم کے بیانیہ کے حق میں تھی اور ایک ماحول بن رہا تھا کہ عمران خان کے اقتدار کو ملک میں کوئی چیلنج نہیں ہے۔ اس لیے اگلی باری بھی ان کی ہے۔ ن لیگ کے اندر کی تقسیم بھی اگلی باری کے حق میں رائے عامہ ہموار کر رہی تھی۔ عام آدمی بھی یہ سوچنے اور یقین کرنے پر مجبور ہو رہا تھا کہ اگلی باری بھی عمران خان کی ہے۔
لیکن کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابی نتائج نے عمران خان اور ان کی ٹیم کے اگلی باری کے بیانیہ کو زبردست نقصان پہنچایا۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابی نتائج نے تحریک انصاف کے اقتدار پر ایک مرتبہ پھر سوالیہ نشان پیدا کر دیے۔ اقتدار کے کھیل میں اسٹبلمشنٹ کا کھیل سمجھنے والے لوگوں کے لیے پنجاب کنٹونمنٹ میں ن لیگ کی جیت عمران خان کے اقتدار کے لیے کوئی مثبت اشارہ نہیں۔ کنٹونمنٹ میں عمران خان کی ہار نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی راہ میں بھی رکاوٹ پیدا کر دی ہے۔
لیکن کنٹونمنٹ بورڈ میں ہار کوئی ایسا بڑا اشارہ نہیں تھا جس سے عمران خان کے اقتدار کے کھیل کو ختم ہی سمجھا جائے۔ تا ہم نیوزی لینڈ اور برطانیہ کی کرکٹ ٹیموں کی جانب سے پاکستان آنے سے انکار نے عمران خان کے اقتدار کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ اقتدار کے کھیل اور اس کے رموز جاننے والے افراد کے مطابق یہ بہت خطرناک اشارے ہیں۔ کیونکہ بات یہاں ختم نہیں ہوگی۔ اگر مغرب نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو وہ قدم بقدم آگے بڑھیں گے۔
یورپی یونین کی جانب سے ایسے اشارے آرہے ہیں کہ وہ ہم سے خوش نہیں ہے۔ یورپی یونین کی قراردادوں میں پاکستان کے لیے اچھی زبان استعمال نہیں کی گئی۔ بلکہ یورپی یونین کی آخری قرارداد میں جی ایس پی پلس اسٹیٹس ختم کرنے کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔ بھارت کی کوشش ہو گی کہ وہ یورپی یونین سے جی ایس پی پلس اسٹیٹس ختم کروائے۔ اب افغانستان کے حوالے سے یورپی یونین نے جو قرارداد منظور کی ہے اس میں بھی پاکستان کے لیے جی ایس پی پلس ختم کرنے کی دھمکی موجود ہے۔
دوست بتاتے ہیں کہ امریکا اور مغرب کے کیمپ کی بجائے عمران خان نے روس چین کے کیمپ میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کیا دوستوں سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر آپ نے روس اور چین کے کیمپ میں جانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو کیا روس اور چین کے سربراہان ہمارے وزیراعظم سے مل رہے ہیں۔
چین کے صدر سے آخری بات بھی بیس ماہ قبل ہوئی تھی۔ اور روس کے صدر سے ابھی تک ملاقات نہیں ہو سکی ہے۔ صرف فون پر بات ہوئی ہے۔ یہ اشارے کافی نہیں ہیں کہ یقین کر لیا جائے کہ روس اور چین ہمیں اپنے کیمپ میں رکھنے کے لیے تیار ہیں اور وہ مغرب کی چڑھائی کے خلاف ہمارے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہونگے۔
ملک کے اندر سے بھی ان کے لیے مثبت اشارے نہیں آئے ہیں۔ اسی طرح عالمی سطح پر بھی ان کے لیے مثبت اشارے سامنے نہیں آرہے ہیں۔ دونوں منظر نامے ان کی صرف اگلی باری ہی نہیں بلکہ موجودہ باری کی مدت کو پوری کرنے میں بھی مشکلات پیدا کرتے نظر آرہے ہیں۔ ایک ماہ قبل اگلی باری پکی نظر آنے والا منظر نامہ اب دھندلا ہوتا جا رہا ہے۔
الیکشن کمیشن سے محاذ آرائی میں اضافہ بھی حکومت اور عمران خان کے اقتدار کے لیے اچھا نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن سے محاذ آرائی اگلی باری کے بیانیہ کو مضبوط نہیں کمزور کر رہا ہے۔ اگر عمران خان کے لیے اگلی باری کے تمام راستے کلیئر ہوتے تو الیکشن کمیشن کی کیا مجال تھی کہ اس طرح عمران خان کے راستے میں کھڑا ہو جاتا۔
حال ہی میں کرم کے الیکشن کی رپورٹ بھی عمران خان اور ان کی ٹیم کے لیے خطرہ کی گھنٹیاں بجا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کے ساتھ ایسی جنگ میں کون یقین کرے گا کہ اگلی باری بھی عمران خان کی ہے۔ اس صورتحال میں عمران خان کو الیکشن کمیشن سے جیتنا ہوگا تب ہی کوئی یقین کرے گا کہ اگلی باری ان کی ہے۔
مہنگائی بھی عمران خان کی اگلی باری کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اقتدار میں پہنچانے والے دوستوں کے لیے اس قدر مہنگائی میں دوسری باری دینا مشکل ہو جائے گا۔ عالمی منظر نامہ اس بات کے واضح اشارے دے رہا ہے کہ عمران خان کے لیے عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف دینا مشکل ہو رہا ہے۔ مہنگائی کا ایک نیا طوفان آگیا ہے۔ ایک اور آنے کی نوید ہے۔ ایسے میں دوسری باری کے بارے میں کیسے سوچا جا سکتا ہے۔
عمران خان نے اگر اگلی باری کو یقینی بنانا ہے تو انھیں ایک طرف عوام کو بڑا ریلیف دینا ہوگا۔ دوسری طرف عالمی منظر نامہ بھی اپنے حق میں کرنا ہوگا۔ پاکستان میں آپ دنیا سے لڑ کر حکمران نہیں رہ سکتے۔ اسی لیے ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی میں عالمی طاقتوں کا کردار رہتا ہے۔
عمران خان کو لانے میں بھی یہ کردار واضح تھا۔ اور اگر اب عمران خان جائیں گے تب بھی یہ کردار واضح ہوگا۔ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ ان کا یہ بوجھ نہیں اٹھا سکے گی۔ ماضی میں بھی اسٹبلشمنٹ نے ایسے کسی حکمران کا بوجھ نہیں اٹھا یا جو عالمی تنہائی کا شکار ہو جائے۔