نیوزی لینڈ میں دہشت گردی۔ ایک زاویہ اور بھی ہے
"کئی برسوں سے سن رہا تھا اور پڑھ رہا تھا کہ فرانس پر وہ لوگ "حملہ آور" ہورہے ہیں جو سفید فام نہیں ہیں۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ مبالغہ آرائی ہے اور اس کا مقصد سیاسی سکور حاصل کرنا ہے مگر فرانس جا کر دیکھا تو یہ سب کچھ نہ صرف سچ نکلا بلکہ یوں محسوس ہوا کہ اصل سے بھی کم ہے۔"نیوزی لینڈ کی دو مسجدوں پر وحشیانہ حملہ کرنے والے دہشت گرد نے ٹوئٹر پر اپنا "منشور" نشر کیا ہے۔ مندرجہ بالا سطور اسی منشور کا حصہ ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس منشور کا عنوان اس نے کیا رکھا ہے اور یہ عنوان کہاں سے لیا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں ایک بار پھر فرانس جانا پڑے گا۔ ریناڈکیمو 1946ء میں پیدا ہوا۔ حصول تعلیم کے لیے برطانیہ اور امریکہ گیا۔ ادب کی طرف رجحان تھا مگر شروع ہی سے متنازعہ ہوگیا۔ اس کا موقف تھا کہ فرانس میں ادب کا تذکرہ ہو تو ترجیح یہودی النسل ادیبوں کو دی جاتی ہے۔ کھلم کھلا ہم جنس پرست بھی تھا۔ اس موضوع پر کتاب بھی لکھی۔ 2014ء میں ایک فرانسیسی عدالت نے اسے چار ہزار یورو جرمانے کی سزا سنائی۔ جرم یہ تھا کہ اس نے مسلمانوں کو غنڈہ کہا تھا اور الزام لگایا تھا کہ یہ فرانس کو "فتح" کر نا چاہتے ہیں۔ مکروہ ترین کار نامہ ریناڈ کیمو کا "غیرمعمولی تبدیلی" کے نظریے کا فروغ ہے۔ اگرچہ یہ نظریہ پورے یورپ میں پنپ رہا ہے مگر ریناڈ کیمو نے اسے سب سے زیادہ مشتہر کیا۔"غیرمعمولی تبدیلی۔"انگریزی میں The Great Replacement سے مراد یہ ہے کہ عرب، بربر اور دیگر مسلمان فرانس آ کر فرانسیسی سرزمین پر قبضہ کر رہے ہیں اور سفید فاموں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش ہورہی ہے۔ 2012ء میں ریناڈ کیمو نے "غیر معمولی تبدیلی" ہی کے عنوان سے باقاعدہ ایک کتاب تصنیف کی۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ ایک نسل کے بعد سفید فام اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی۔ اس نے اس خوف کو پھیلانے کی کوشش کی کہ یورپی کلچر اور یورپی شناخت کو دوسرے ملکوں سے آ کربس جانے والے لوگ ختم کردیں گے۔ ان میں اکثریت عرب اور افریقی مسلمانوں کی ہے۔ نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کرنے والا اٹھائیس سالہ آسٹریلوی سفید فام ہیرلیسن ٹارانٹ، اسی فرانسیسی نسل پرست ریناڈ کیمو سے متاثر ہے۔ اس نے سوشل میڈیا پر جو 84 صفحات کا منشور پیش کیا ہے اس کا عنوان "غیرمعمولی تبدیلی" یعنی Great Replacement ہی رکھا ہے۔ وہ تارکین وطن کو حملہ آور قرار دیتا ہے۔ جب وہ فرانس کے ایک قصبے میں ٹھہرتا ہے تو ان "حملہ آوروں " کو دیکھ کر اس کا خون کھولنے لگتا ہے۔ یہ کیفیت اسی کی زبانی سنیے۔"میں پارکنگ میں بیٹھا، کرائے پر لی ہوئی کار سے دیکھ رہا تھا۔ شاپنگ سنٹروں کے دروازوں سے "حملہ آوروں " کی بڑی تعداد نکل رہی تھی۔ ہر فرانسیسی عورت اور مرد کے مقابلے میں حملہ آوروں کی تعداد دو گنا تھی۔ بہت ہو چکی۔ میں غصے سے بھناتا ہوا نکلا۔ اس لعنت زدہ قصبے میں میں مزید نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ میں اگلے قصبے کی طرف روانہ ہوگیا۔"اپنے منشور میں آگے چل کر ہیرلیسن ٹارانٹ لکھتا ہے:"کیوں کوئی کچھ نہیں کرتا؟ خود میں ایکشن کیوں نہ لوں؟ "ریناڈ کیمو جیسے آگ اگلنے والے اور نفرت کا زہر پھیلانے والے لوگ اس تحریک کو خوب زور و شور سے پھیلا رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی دہشت گردی کے بعد جب میڈیا نے ریناڈ کیمو سے پوچھا کہ کیا اسے اس بات پر اعتراض ہے کہ اس کے "غیرمعمولی تبدیلی" کے نظریے کو کیا رنگ دیا جا رہا ہے اور انتہائی دائیں بازو اس کی تشریح کس طرح کر رہا ہے؟ تو کیمو کا واضح جواب تھا کہ ہرگز نہیں۔ یعنی اسے اس دہشت گردی، اس بربریت اور اس قتل عام پر کوئی اعتراض نہیں۔ ریناڈ کیمو کے بقول اسے امید ہے کہ جوابی انقلاب ضرور آئے گا۔ اس کا خیال ہے کہ افریقی، ایشیائی، عرب اور بربر، فرانس کو اپنی کالونی بنا رہے ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ اس رجحان کی بازی الٹ جائے۔ جذبات سے ہٹ کر مسلم دانشوروں کو سفید فاموں کی اس تحریک کے اسباب پر غور کرنا ہوگا۔ امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا بڑے ممالک ہیں۔ وہاں تارکین وطن نمایاں نہیں نظر آتے۔ اس کے برعکس یورپ چھوٹے چھوٹے ملکوں کا مجموعہ ہے۔ نیدرلینڈ، بلجیم، لگزمبرگ جیسے ملک ہمارے ایک ایک صوبے سے بھی چھوٹے ہیں۔ جگہ کم ہے، تارکین وطن کی تعداد، سفید فاموں کو زیادہ لگتی ہے۔ اسلام دشمنی کو بھی نسل پرستی کے پردے میں چھپایا جارہا ہے۔ تاریخ کا پہیہ الٹا چل پڑا ہے۔ یورپی طاقتوں نے افریقہ اور ایشیا کے ملکوں کو اپنا غلام بنایا۔ انہیں چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم در تقسیم کرتے رہے۔ خون چوستے رہے۔ نچوڑتے رہے۔ صرف ایک مثال سے واضح ہو جائے گا کہ استعما رنے کس طرح کھاتے پیتے ایشیائی اور افریقی ملکوں کی معیشت کو تباہ کیا۔ اورنگزیب کا آخری عہد مغلوں کے زوال کا آغاز تھا۔ اُسی عہد زوال میں بھی برصغیر کی پیداوار، کل دنیا کی پیداوار کا 23 فیصد حصہ تھی۔ انگریز 1947ء میں گئے تو یہ 23 فیصد حصہ تین فیصد تک نیچے آ گیا تھا۔ تاریخ کی ستم ظریفی کہیے یا انتقام اب انہی ایشیائی اور افریقی ملکوں سے تارکین وطن اپنے سابق آقائوں کے Home Countries میں آن بسے ہیں۔ احساس جرم کسی کسی وقت ان سفید فاموں کے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے جسے وہ الٹے سیدھے خود ساختہ دلائل سے قتل کرتے ہیں۔ مثلاً ریناڈ کیمو کا یہ قول دیکھئے:"اب افریقی جس طرح یورپ میں آ رہے ہیں، یہ "استعمار" اُس استعمار سے بیس گنا زیادہ اہم اور نمایاں ہے جو یورپ نے افریقہ میں قائم کیا تھا۔"یہاں ایک سوال اور بھی ہے جو مسلمانوں کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے۔ پچپن مسلمان ملکوں میں ایک مسلمان ملک بھی ایسا نہیں جہاں مسلمان ہجرت کر کے اس طرح آباد ہو سکیں جس طرح وہ کینیڈا، امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں آباد ہورہے ہیں۔ صومالیہ سے لے کر افغانستان تک شام سے لے کر لبنان تک جہاں بھی جنگ کی تباہی پھیلی، مہاجرین نکلے اور مغربی ملکوں میں جا بسے۔ ان ملکوں نے انہیں پناہ دی، شہریت دی، ملازمتیں دیں، رہائش گاہیں دیں۔ 2015ء میں جب شام سے لاکھوں مہاجرین جرمنی پہنچے تو جرمن چانسلر انجیلا مارکل نے دائیں بازو کی مخالفت کے باوجود انہیں قبول کیا۔ یہی وقت تھا جب سوشل میڈیا پر شام کے مہاجرین نے واضح طور پر لکھا:"ہم اپنے بچوں کو بتائیں گے کہ مکہ اور مدینہ کے مقدس شہر نزدیک تر تھے مگر پناہ ہمیں جرمنی نے دی۔"مسلمان اہل دانش کو سوچنا ہو گا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہم مغرب کے محتاج تو تھے ہی، اب ہم رہائش کے لیے، ملازمتوں کے لیے اور شہریت کے لیے بھی ان ملکوں کے محتاج ہیں۔ اس قدر محتاج کہ میزبان ملک اس خوف میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ تارکین وطن کی تعداد اصل باشندوں کی نسبت زیادہ نہ ہو جائے۔ اس خوف ہی کو بنیاد بنا کر ٹرمپ نے سفید فاموں کو اپنا ووٹر بنایا۔ نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کرنے والے ہیرلیسن ٹارانٹ نے اپنی پسندیدہ شخصیات میں ٹرمپ کا نام بھی لکھا ہے۔ جو سوال زیادہ غور و فکر کا متقاضی ہے، یہ ہے کہ "کیا تارکین وطن کا مستقبل ان ملکوں میں محفوظ ہے؟