مسلمان تارکین وطن کا مستقبل
ساڑھے چھ فٹ طویل مصری عالم دین جناب اعلیٰ الزقم میلبورن کے محلے ہائیڈل برگ کی جامع مسجد میں خطبہ دے رہے تھے۔ فصیح و بلیغ آسان عربی میں اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد مافی الضمیر انگریزی میں ڈھال رہے تھے۔ سننے والے دم بخود تھے اور ہمہ تن گوش۔ اس مسجد کی انتظامیہ مصریوں پر اور نمازیوں کی غالب تعداد صومالیہ کے مہاجرین پر مشتمل ہے۔ استاد اعلیٰ الزقم کا سارا زور اس بات پر تھا کہ آسٹریلیا جیسے ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ ان کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو اس معاشرے میں مکس ہونا پڑے گا۔ سنت نبوی سے انہوں نے دلیل دی کہ غیر مسلموں کو بھی السلام علیکم کہا جا سکتا ہے۔ نماز کے بعد ایک نوجوان ان سے بحث کررہا تھا کہ "ہم" مقامی آبادی کے ساتھ کیسے مکس ہوسکتے ہیں؟ اس میں تو ایمان کا خطرہ ہے اور خطیب صاحب ہنستے ہوئے اسے سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اول تو اگر ایمان کا خطرہ ہے تو یہاں آنے کی تمہیں کیا ضرورت تھی اور دوسرے یہ کہ ایمان اتنا کچا نہیں کہ غیر مسلموں سے بات چیت کرنے اور معاملات طے کرنے سے پگھل جائے۔ ایک عالم دین خود، اپنی زبان سے، خطبہ جمعہ کے دوران، اگر مسلمانوں کو نصیحت کرے یا متنبہ کرے کہ جہاں رہ رہے ہو، وہاں کے لوگوں میں مل جل کر رہو تو اس کا واضح مطلب ایک ہی ہے کہ سب اچھا نہیں۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، امریکہ، جاپان اور یورپی ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کے کیا مسائل ہیں۔ ان میں کون کون سی کمزوریاں ہیں؟ ان کا مستقبل کتنا محفوظ ہے؟ ان سب پہلوئوں کا اندازہ پاکستان یا کسی دوسرے مسلمان ملک میں رہنے والوں کو نہیں ہوسکتا۔ پاکستان یا دوسرے مسلمان ملکوں میں رہنے والے ساحل پر بیٹھے ہیں اور غیر مسلم ملکوں میں رہنے والے مسلمان، منجدھار کے بیچ ہیں۔ بقول حافظ شیرازی ؎شب تاریک وبیم موج و گردابی چینن حائلکجا دانند حال ماسبک ساران ساحل ہاساحل کی نرم ریت پر بیٹھے ہوئوں کو کیا خبر کہ موجوں کے تھپیڑے کھانے والے کس حال میں ہیں۔ یہ دلیل اپنی جگہ مضبوط ہے کہ غیر مسلم معاشرے میں مسلمانوں کو مستقل آباد نہیں ہونا چاہیے۔ لاتعداد ایسے مسلمان ان ملکوں میں آباد ہیں جو خواہش کے باوجود نماز جمعہ نہیں ادا کرسکتے، اس لیے کہ ان کے اوقات کار اجازت نہیں دیتے۔ عید کے دن بھی ڈیوٹی پر جانا پڑتا ہے مگر اس کا کیا کیا جائے کہ اب یہ ایک امر واقع (Fait Accompli) ہے۔ چار کروڑ سے زیادہ مسلمان ان ملکوں میں آباد ہو چکے ہیں۔ سیاسی معاشی اور سماجی حالات مسلمان ملکوں کے اس قدر ناہموار ہیں کہ مزید لاکھوں مسلمان ہجرت کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ رنگ کی بنیاد پر کسی نسل کو برتر اور کسی کو کم تر قرار دینا جہالت ہے اور بدترین تعصب! اہل مغرب کا ریکارڈ اس ضمن میں ہولناک ہے۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں کو معلوم ہے کہ افریقہ سے آدم کے لاکھوں بیٹوں کو پکڑ کر پابہ زنجیر کیا گیا اور یورپ اور امریکہ نے اسے صدیوں تک کاروبار بنائے رکھا۔ انسان بھیڑ بکریوں کی طرح خریدے اور فروخت کئے جاتے رہے۔ بھاگنے والوں کے پائوں کاٹ دیئے جاتے۔ کبھی بیوی فروخت کردی جاتی، کبھی شوہر اور کبھی بچے۔ نسلی برتری کا مسئلہ اور ہے اور مقامی اور غیر مقامی باشندوں کی باہمی مخاصمت ایک بالکل الگ مسئلہ ہے۔ پوری تاریخ میں (سوائے مہاجرین مکہ اور انصار مدینہ کے) مقامی لوگوں نے غیر مقامی لوگوں کی کثیر تعداد کبھی بطیب خاطر قبول نہیں کی۔ یہاں تک کہ انصار مدینہ بھی سیاسی حوالوں سے تحفظات رکھتے تھے۔ مسلمان ملکوں کی ہم عصر تاریخ بھی اس معاملے میں قابل رشک ہرگز نہیں۔ مئی 1969ء میں ملائیشیا میں مقامی آبادی (ملائے) نے جو مسلمان تھی۔ اپنے ہی ملک کے چینیوں پر حملے کیا۔ یہ نسلی فسادات تھے مگر اصل میں مقامی اور غیر مقامی رقابت تھی۔ چینی اور انڈین دونوں غیر پسندیدہ تھے۔ سرکاری اعداد و شمار کی رو سے 196 افراد قتل ہوئے جن میں 143 چینی تھے۔ غیر سرکاری تعداد ہلاک ہونے والوں کی چھ سو کے قریب بتائی گئی۔ کچھ ہزار سے زیادہ کہتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے امیر ملکوں میں جو سلوک غیر مقامی لوگوں کے ساتھ ہورہا ہے، کسی سے پوشیدہ نہیں۔ مسلمان تارکین وطن عرب ملکوں میں ساری ساری زندگیاں گزار کر بھی نہ صرف شہریت سے محروم رہتے ہیں بلکہ اپنے نام پر مکان، کار، ٹیکسی، دکان، کارخانے کچھ بھی نہیں رکھ سکتے۔ یہ ہے وہ پس منظر جس میں مغربی ملکوں میں رہنے والے دور اندیش مسلمان، مستقبل کو غیر محفوظ دیکھ رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے لے کر کینیڈا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ تک ان ملکوں نے تارکین وطن سے فیاضانہ سلوک کیا۔ شہریت دی، ملازمتیں دیں۔ جائیدادوں کے وہ مالک ہیں۔ انتخابات میں حصہ لے کر شہروں کے میئر، حکومتوں میں وزیر اور پارلیمنٹوں کے ممبر منتخب ہورہے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مقامی آبادی، یعنی سفید فام لوگ، تارکین وطن کی بہت بڑی تعداد دیکھ کر اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں، کینیڈا کے شہر وینکوور میں جہاں سکھ بڑی تعداد میں آباد ہیں، ہرسال کسی نہ کسی پارک میں قتل کی واردات ہو جاتی ہے۔ جن محلوں میں غیر مقامی اکثریت ہے، وہاں سے سفید فام اپنے گھروں کو فروخت کر کے نکل گئے ہیں۔ ٹورنٹو میں مسی ساگا اس کی ایک مثال ہے۔ سڈنی کے محلے لکھمبا اور میلبورن کے محلے فاکنر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہاں سے بھی سفید فام دوسرے محلوں کو ہجرت کر گئے ہیں۔ مسلمان تارکین وطن کی پوزیشن زیادہ حساس ہے۔ بھارتی اور چینی تارکین وطن کے مذہبی اور معاشرتی مسائل اس نوعیت کے نہیں جس نوعیت کے مسائل مسلمان تارکین وطن کو درپیش ہیں۔ بھارتی اور چینی تارکین وطن مقامی آبادیوں میں زیادہ مکس ہوتے ہیں۔ شراب نوشی ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ ڈانس پارٹیوں میں وہ کسی جھجک کے بغیر شرکت کرتے ہیں۔ اختلاط مرد و زن ان کے سماج پر ممنوع نہیں۔ سؤر کا گوشت بھی کھا لیتے ہیں۔ چینی تارکین وطن کے الگ عبادت خانے سرے سے مفقود ہیں۔ رہے بھارتی ہندو یا سکھ تو ان کے مندروں اور گوردواروں کی تعداد مسجدوں سے کہیں کم ہے جہاں وہ باقاعدگی سے جاتے بھی نہیں۔ مسلمان تارکین وطن کی غالب تعداد شراب نوشی اور رقص و سرود کی تقاریب سے اجتناب کرتی ہے۔ انہیں رمضان میں کھانے پینے سے بچنا ہوتا ہے۔ جمعہ کے دن کسی نہ کسی طرح مسجد حاضر ہونا ہوتا ہے۔ یہ سب عوامل مسلمان تارکین وطن کو مکس ہونے اور ایک حد سے زیادہ گھلنے ملنے سے روکتے ہیں۔ مگر کچھ پہلو مسلمان تارکین وطن کے نفسیاتی بھی ہیں۔ جہاں مذہب رکاوٹ نہیں بنتا، وہاں بھی وہ گھلنے ملنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ مثلاً عید اور اپنے دوسرے تہواروں پر، غیر مسلم، خاص طور پر مقامی دوستوں کو مدعو نہیں کرتے۔ ان کی کرسمس ہو تو مبارک تک دینے میں بخل کرتے ہیں۔ مسلمان تارکین وطن کو سوچنا چاہیے کہ تارکین وطن کے دوسرے گروہوں کی نسبت وہ زیادہ مختلف کیوں نظر آتے ہیں۔ وجوہات او رعوامل کو پہچاننا ہوگا اور پھر جہاں تک مذہب اجازت دیتا ہے، اپنے آپ کو قابل قبول بنانا ہوگا۔ جب تک مغربی ملکوں کو وسائل کی کمی کا مسئلہ درپیش نہیں اور جب تک مقامی لوگوں کو روزگار مل رہا ہے۔ اس وقت تک تارکین وطن کا وجود گوارا کیا جائے گا۔ مگر خدانخواستہ، کبھی ان ملکوں پر اقتصادی زبوں حالی نے حملہ کر دیا تو سب سے پہلا نشانہ مسلمان تارکین وطن بنیں گے کیونکہ ایک الگ اکائی کی حیثیت سے انہیں ممیز کرنا آسان ہوگا۔ ٹرمپ مقامی اور غیر مقامی کی بنیاد پر صدر منتخب ہوا ہے۔ اس نے اگرچہ نسلی تفاوت کو مسئلہ بنایا مگر نسلی تفاوت عملاً، آخر کار مقامی اور غیر مقامی رنگ پکڑتا ہے۔ اگر اس آگ کو اور بھڑکایا گیا تو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بھارتی اور چینی بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ بھارت کی معیشت انگڑائی لے رہی ہے۔ وہاں "ریورس برین ڈرین" شروع ہو چکا ہے یعنی تارکین وطن واپس اپنے وطن آ کر تسلی بخش ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ کیا پچپن مسلمان ملکوں میں بھی کوئی ایسا ملک ہے جہاں کے حالات تارکین وطن کو واپس آنے کی ترغیب دے سکیں؟