مادی ترقی کے لئے بھی سچ بولنا ضروری ہے
جنوبی کوریا کے شہررنچن میں مقیم اختر محمود بتاتے ہیں کہ سیکنڈ ہینڈ گاڑی خریدنے وہاں کے بازار گئے۔ ایک شو روم میں گاڑی اپنی استطاعت کے حساب سے پسند کی۔ سودا ہو رہا تھا تو شوروم والے نے کہا کہ اس گاڑی میں جو مسائل آپ کے لئے تکلیف دہ ہو سکتے ہیں وہ بتانے ضروری ہیں۔ اس کے بعد اس نے گاڑی کی خامیاں بتائیں اور اس قدر تفصیل سے بتائیں کہ خریدنے والے پیچھے ہٹ گئے اور دوسرے شوروم کی طرف نکل گئے۔ ہر عمل دوسرے عمل سے جڑا ہوا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح پروردگار عالم مدبر الامر ہے۔ واقعات ایک ترتیب سے ظہور پذیر ہوتے ہیں یوں کہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ استدلال اور منطق ان واقعات کو ایک دوسرے سے مربوط کر رہے ہیں۔ کشتی میں سوراخ ہے تاکہ ظالم بادشاہ اسے بیگار میں نہ پکڑ سکے۔ شکستہ دیوار کی تعمیر نو کی گئی کہ اس کے نیچے کسی حقدار کا مال مدفون تھا۔ لڑکا قتل کر دیا گیا کیونکہ زندہ رہتا تو سرکشی پھیلاتا۔ غور کیجیے آپ کے ساتھ جو کچھ پیش آتا ہے اس کا تعلق اس سے ہوتا ہے جو پیش نہیں آتا۔ شدید غضب کے عالم میں فون کرتے ہیں۔ فون نہیں ملتا۔ مغضوب کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ وہ گھر پر نہیں ہوتا۔ آپ ہونٹ کاٹتے رہ جاتے ہیں۔ دوسرے دن یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اس کا تو قصور ہی نہیں تھا۔ کیا یہ اتفاق تھا یا تدبیر تھی مدبر الامر کی؟ جو چاہے کوئی تعبیر کر لے فکر ہر کس بقدر ہمت اوست! منحصر اس پر ہے کہ کائنات کو باخدا سمجھا جا رہا ہے یا بے خدا ؎چہار جانب سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہوں کوئی محافظ تو ہے جو اب تک بچا ہوا ہوں اس زمانے میں حفاظت کرنے والے کی ایک اہم صفت یہ بھی ہے کہ وہ ٹریفک کے خوں ریز حادثات سے بچاتا ہے! کیا کیا معجزے برپا ہوتے ہیں ؎میاں شہ رگ و شمشیر کچھ نہ تھا لیکنمیں بچ گیا کہ فرشتے مرے موافق تھےمعلوم نہ ہو تو اور بات ہے ورنہ بتا دیا گیا ہے کہ"ممکن ہے تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے لئے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لئے مضر ہو!"واقعات آپس میں مربوط ہیں۔ بالکل اسی طرح اعمال ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جنوبی کوریا ہے یا نیوزی لینڈ، کینیڈا ہے یا جرمنی، عمومی تربیت اور نہج کی ہے کہ دروغ گوئی مزاج میں در نہیں آتی۔ جب جھوٹ نہیں بولنا تو جھوٹ کی مکروہ ترین قسم وعدہ خلافی سے بھی پالا نہیں پڑتا۔ تاجر نے اگر کہا ہے کہ وہ فلاں وقت یا فلاں دن فون کرے گا یا ای میل کرے گا یا سودا پہنچا دے گا تو وہ بالکل ایسا ہی کرے گا جیسا اس نے عہد کیا ہے اگر جھوٹ نہیں بولنا تو وہ اپنے آجر یا مالک سے بھی جھوٹ نہیں بولے گا۔ جس کا مطلب ہے کام پورا کرے گاپھر وہ معاہدے کی تکذیب بھی نہیں کرتا۔ اگر معاہدہ ہے کہ ڈیوٹی پر سات بجے پہنچنا ہے تو اس کا مطلب سات بج کر پانچ منٹ نہیں ہو سکتا۔ جتنے گھنٹے لگانے ہیں اتنے ضرور لگانے ہیں، ان ملکوں میں بہت سی کمپنیاں آنے جانے کا وقت نہیں طے کرتیں۔ ڈیوٹی کے کل گھنٹے مقرر کر دیتی ہیں آپ نے آٹھ گھنٹے ڈیوٹی دینی ہے اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ کس وقت آتے ہیں جب بھی آئیں آٹھ گھنٹے پورے کیجیے۔ اب یہ سارے اعمال مل کر ایک ملک کو ترقی کی شاہراہ پر آگے لیے چلتے ہیں یہاں تک کہ وہ ان ملکوں سے آگے نکل جاتا ہے جہاں جھوٹ، بدعہدی اور کام چوری کا دور دورہ ہے۔ صرف ڈاکٹروں کی مثال لے لیجیے۔ شاذ ہی ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں ڈاکٹر غیر حاضر ہو اور مریضوں کو مطلع کیا جائے کہ وہ نہ آئیں۔ کلینک پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ آج مریض نہیں دیکھیں گے۔ یہ کالم نگار ایک مریض کو جانتا ہے جس نے ہانگ کانگ کے ایک ڈاکٹر سے وقت لیا تو ڈاکٹر نے اپنی تعطیلات کا سارا ٹائم ٹیبل اسے فیکس کے ذریعے پاکستان بھیجا!حساب لگائیے ہمارے ملک میں اگر کوئی کہتا ہے کہ اتنے بجے پہنچ جائوں گا یا فون پر یہ اطلاع میسر کر دوں گا تو کتنے فیصد لوگ وعدہ پورا کرتے ہیں؟ شاید دس فیصد! باقی نوے فیصد میں جہلا اور نیم خواندہ ہی نہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور صوم و صلوٰۃ کے پابند، سب شامل ہیں! اب تو ایک تاویل سنائی دیتی ہے کہ جناب! وعدہ تو کیا ہی نہیں تھا! بس ایک بات کر دی تھی۔ کچھ برس پہلے اس کالم نگار کی بیٹی کی شادی تھی، نکاح پڑھانے کے بعد حضرت مولانا نے جو خطیب اور امام ہونے کے علاوہ نکاح رجسٹرار بھی تھے، جاتے ہوئے وعدہ کیا کہ نکاح کے فارم مکمل کر کے دوسرے دن گھر پہنچا دیں گے۔ دوسرا دن گزر گیا پھر تیسرا پھر چوتھا پانچویں دن انہیں وعدہ یاد دلایا تو ندامت تھی نہ افسوس! معذرت تک نہ کی! حالانکہ فون کر کے یہ بھی فرما سکتے تھے کہ فارم منگوال لیجیے! مگر یہ بھی نہیں کہا جاتا!بس ایک لمبی چپ! جیسے وعدہ کیا ہی نہیں تھا۔ کیا سبب ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کا شرابی اور قمار باز بھی اس قبیل کی بدعہدی نہیں کرتا؟ دوسری طرف ہم نماز کے پابند ہیں۔ پروردگارِ عالم کا فرمان غلط نہیں ہو سکتا کہ"نماز بے حیائی اور منکر(بری بات) سے روکتی ہے"جھوٹ اور وعدہ خلافی دونوں منکرات میں سے ہیں۔ اگر ہماری نمازیں خدا تعالی کے فرمان کے باوجود منکرات سے روک نہیں رہیں تو پھر وہ کیسی نمازیں ہیں! اور کیا قبول ہوں گی؟ ہم یہ حقیقت پسند کریں یا نہ کریں، حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ مادی ترقی کے لئے بھی صدق مقال لازم ہے۔ اس لئے کہ جھوٹ کا اگلا مرحلہ بدعہدی ہے۔ بدعہدی، کام چوری کو جنم دیتی ہے۔ کام چوری، پیداواری عمل کو روکتی ہے۔ ساتھ ہی حرام خوری دروازہ کھول کر اندر داخل ہو جاتی ہے۔ کام چوری کے ساتھ پوری تنخواہ وصول کرنا یہی تو حرام خوری ہے۔ آ پ کو معاوضہ اس لئے دیا جا رہا ہے کہ آپ آٹھ بجے سے چار بجے تک ڈیوٹی پر موجود رہیں گے۔ آپ آٹھ کے بجائے نو بجے تشریف لاتے ہیں۔ اب اس ایک گھنٹے کا معاوضہ حرام کی کمائی ہو گا کیوں کہ آپ موجود ہی نہیں تھے تو فریضہ سرانجام کیسے دیتے؟ غور فرمائیے!کوریا کے شو روم والے نے سچ بولا۔ آخرت پر اس کا یقین ہی نہیں! مگر مادی فائدہ اس سچ کا وہ خوب اٹھائے گا۔ اختر محمود صاحب اس کی حق گوئی کا تذکرہ اپنے احباب سے کریں گے۔ ہ سب اس کا گاہک ہونا پسند کریں گے۔ وہ صرف دنیا کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ مسلمان سچ بولے تو مادی فائدے کے ساتھ ساتھ آخرت کا ریوارڈ بھی حاصل کرے گا۔ یہ ڈبل فائدے والی بات ہے مگر جھوٹ بول کر اسی دنیا میں ڈبل شاہ بننا اچھا لگتا ہے! گھاٹے کا سودا سراسر گھاٹے کا سودا! جنہوں نے دوسروں سے جھوٹ بول کر مال اکٹھا کیا، ان سے ڈبل شاہ نے جھوٹ بول کر مال لے لیا۔ چور نے قمیض چوری کی۔ کسی نے اس کے گھرسے چرا لی، پوچھا تو بیٹے نے بتایا جس قیمت پر خریدی تھی اسی قیمت پر بک گئی!اگر کوئی اس خیال میں ہے کہ جھوٹ بول کر دنیا کما لے گا تو غلط فہمی کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے! افسوس! مادی ترقی کے لئے بھی سچ بولنا پڑے گا!