دیسی کیا ہے اور بدیسی کیا ہے؟
بھارت میں نیا سیاپا شروع ہوا ہے کہ بھارتی نیشنلزم کے بخار میں ہر شے کو بھارتی قرار دو۔ مرچ سے لے کر آلو تک، سموسے سے لے کر راجھستانی پگڑی تک ہر شے کی اصل بھارت کو قرار دو۔ مودی صاحب نے لڑکپن میں چائے کیا بیچی، اب چائے نوشی کو بھی بھارت کی ثقافتی بنیاد قرار دیا جارہا ہے۔ بھارت ہی کے معروف ثقافتی مورخ سہیل ہاشمی نے اس کا مدلل جواب دیا ہے۔ خوراک سے لے کر لباس تک، طرز تعمیر سے لے کر سجاوٹ اور ڈیکوریشن تک، ایک ایک شے کی اصل بتادی۔ آلو ہی کو لے لیجیے۔ سموسے کا یہ جزو لاینفک ہے۔ آلو کے کباب، آلو کی ٹکیاں، روزمرہ خوراک کا حصہ ہیں مگر ہندوستان میں آج سے چار سو سال پہلے آلو کا نام و نشان نہیں تھا۔ تاریخ، ادب، ثقافت، کسی کتاب میں آلو کا ذکر نہیں۔ سہیل ہاشمی کی تحقیق یہ ہے کہ آلو کا اصل وطن جنوبی امریکہ ہے۔ پرتگالی اسے جنوبی ہند میں لائے۔ اسی لیے ممبئی میں آج بھی اسے ٹباٹا کہتے ہیں جو پوٹیٹو کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ یوں آلو تو بھارت کی ثقافت سے نکل گیا۔ اسی طرح گوبھی کا پھول فرانسیسی لائے۔ بند گوبھی انگریزوں کا تحفہ ہے۔ شملہ مرچ کا شملہ سے شاید اتنا ہی تعلق ہو کہ پہلے پہل وہاں بوئی اور اگائی گئی ہوگی۔ اس کی اصل بھی جنوبی امریکہ ہے۔ آج برصغیر کے کھانوں کا طرۂ امتیاز سرخ اور ہری مرچ ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ مغلیہ کھانوں کا بڑا جزو مرچ مصالحے تھے۔ مگر مرچ مغلیہ عہد کے عروج تک ناپید تھی۔ یہ بھی جنوبی امریکہ کا تحفہ ہے۔ اسے برصغیر میں پرتگالی لائے۔ جنوبی امریکہ میں مرچ کئی رنگوں کی ہوتی ہے۔ سرخ، سفید، پیلی، نارنجی۔ پرتگالی ہندوستان میں آئے تو پہلے پہل مرچ کے پودے کو انہوں نے باڑ کے طور پر استعمال کیا۔ پرتگالیوں کے گھروں میں کام کرنے والے مقامی لوگوں نے یہ رنگ برنگا "پھل" دیکھا تو انہیں پسند آیا۔ تلخ ذائقے کو انہوں نے اپنے کھانے میں شامل کرلیا۔ پھر مہارا شٹر سے مرہٹے دہلی پر حملہ آور ہوئے، اٹھارویں صدی میں، تو ان کے ذریعے مرچ دہلی یعنی شمالی ہند پہنچ گئی۔ یوں مرچ بھی اصلاً بھارتی نہیں۔ شریفہ بھی جسے بھارتی سیتا پھل کہتے ہیں، باہر سے آیا۔ سیب، انار اور انگور وسط ایشیا اور افغانستان کے پھل ہیں۔ انہیں ہندوستان میں بابر لایا۔ خوبانی اور آلو بخارا بھی مغل لے کر آئے اور شاید یہ خربوزہ بھی۔ معروف مورخ ابراہام ایرالی لکھتے ہیں کہ آگرہ میں بابر کابل سے آیا ہوا خربوزہ کاٹتا جاتا اور آنکھوں سے کابل کی یاد میں آنسو بہتے جاتے۔ اسی طرح فرانسیسی ڈاکٹر برنیئر جو شاہ جہان اور اورنگزیب دونوں کے ساتھ وابستہ رہا، لکھتا ہے کہ خشک اور تازہ پھل دونوں، دو دو سو، تین تین سو اونٹوں پر لدے، وسط ایشیا سے مغل بادشاہوں کے حضور پہنچتے۔ ہاں! آم برصغیر کا اپنا پھل ہے۔ اگرچہ دوسرے ملکوں میں بھی ہوتا ہے مگر خوشبو، مٹھاس اور ذائقے میں برصغیر کے آم کا کوئی مقابلہ نہیں۔ مغلیہ عہد کے فارسی ادب میں آم (انبہ) کا ذکر عام ہے۔ شاعروں نے آم کی تعریف میں قصائد لکھے۔ گنا اصلاً برصغیر سے ہے اور بینگن بھی۔ کیلا بھی اصلاً یہیں کا ہے۔ سکندر اعظم حملہ آور ہوا تو اس کے ایک جرنیل نے تعجب کا اظہار کیا کہ یہ عجیب پیڑ ہے جس میں لکڑی نہیں اور اوپر سے نیچے تک پتے ہی پتے ہیں۔ مزید یہ کہ پھل میں بیج نہیں ہوتا۔ سکندر برصغیر کے مغربی حصے میں آیا۔ مشرقی حصے میں یعنی بنگال میں اس کالم نگار نے بیچ والا کیلا کھایا ہے۔ کیرالہ میں سرخ رنگ کا کیلا اگتا ہے، ایک کیلا تقریباً ایک کلو کا ہوتا ہے۔ یہ وہاں کے ناشتے کا لازمی جزو ہے۔ اسے ابال کر کھایا جاتا ہے۔ گنے کو استعماری قوتیں فجی، ماریشس اور جزائر غرب الہند لے گئیں۔ بڑے پیمانے پر اس کی پلانٹیشن ہوئی۔ ان کھیتیوں اور فارموں پر کام کرنے کے لیے بحری جہازوں میں ہندوستان سے مزدور لے جائے گئے۔ یوں آج فجی، ماریشس وغیرہ میں برصغیر کی اصل کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ سہیل ہاشمی کہتے ہیں کہ چینی باہر کی دنیا میں برصغیر سے پہنچی۔ اس سے پہلے مٹھاس شکر قندی یا چقندر سے بنائی جاتی تھی۔ مصریوں نے چینی کا محلول بنایا۔ اس کا کرسٹل بنا۔ کرسٹل کی شکل میں یہ میٹھا برصغیر واپس آیا اور "مصری" کہلایا۔ گنے سے کھانڈ بنی۔ جب وسط ایشیا پہنچی تو کھانڈ کا لفظ قند میں تبدیل ہو گیا۔ اس سے ثمرقند اور تاشقند کے الفاظ بنے۔ گل قند بنی۔ دوسری طرف یہ روایت بھی مشہور ہے کہ نادر شاہ کو دہلی میں گلقند بطور دوا پیش کی گئی۔ اسے پسند آئی اور کہا۔ حلوائے خوب است دیگر بیار۔ یعنی بہت اچھا میٹھا ہے اور لائو۔ یورپ میں کھانڈ اور قند کا لفظ کینڈی میں بدل گیا۔ ناریل کو بھارتی پوجا پاٹ میں بھی استعمال کرتے ہیں مگر اس کی اصل بھی جنوبی امریکہ بتائی جاتی ہے۔ یہ کہنا تاہم مشکل ہے کہ ناریل برصغیر میں کب پہنچا۔ پانی سبزی ہے یا پھل؟ یا محض پتہ؟ پنجاب کے دیہات میں کہا جاتا ہے کہ جانوروں کے لیے پٹھے لائو۔ یعنی ٹہنیاں، پتے، چارہ وغیرہ۔ گائوں کا ایک شخص دہلی گیا۔ وہاں شادی کرلی۔ یوپی کی اس دلہن کو وہ گائوں لایا۔ وہ غریب پان کھاتی تھی۔ گائوں والے خوب ہنسے کہ پٹھے کھاتی ہے۔ یہ سچا واقعہ ہے مگر سو ڈیڑھ سو سال پہلے کا ہے۔ آج تو گائوں گائوں سب کو معلوم ہے کہ پان کیا ہے۔ مغلوں کو ہندوستان میں پان کا خوب چسکہ پڑا۔ ذائقہ الگ، ہونٹوں کی سرخی الگ۔ شاہ جہان کی ایک بیٹی کا ایران سے آتے ہوئے ایک وجیہہ جرنیل سے معاشقہ ہوگیا۔ شاہ جہان کو معلوم ہوا تو بھرے دربار میں جرنیل کو اپنے ہاتھ سے پان کھلایا۔ یہ بہت بڑا اعزاز تھا۔ انکار کی مجال نہ تھی۔ مگر یہ پان اصل میں موت کا پروانہ تھا۔ پان بنگال میں بھی خوب خوب کھایا جاتا ہے۔ سہیل ہاشمی کی تحقیق کتنی معتبر ہے؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر ایک بات طے ہے کہ قدرت نے ہر علاقے کے کھانے، وہاں کی آب و ہوا کے اعتبار سے رواج دیئے ہوں گے۔ جہاں جہاں ناریل زیادہ ہوتا ہے وہاں پیٹ کے درد کے لیے سبز ناریل کا پانی دوا کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ صحرا میں اونٹ کا دودھ بیماریوں کے لیے اکسیر ہے۔ منگول گھوڑی کا دودھ پیتے تھے۔ کیا عجب اب بھی پیتے ہوں۔ ہمارے ہاں پنجاب میں مچھلی اور پکوڑے تلنے کے لیے سرسوں کا تیل استعمال ہوتا تھا۔ آج کا منظر نامہ مختلف ہے۔ دنیا سمٹ چکی ہے۔ چینی، اطالوی، تھائی، لبنانی کھانے دنیا کے کونے کونے میں پہنچ چکے ہیں۔ مراکش اور ملائیشیا کے کھانے آسٹریلیا اور امریکہ کے تمام بڑے شہروں میں ملتے ہیں۔ پاکستانیوں کے ساتھ ایک المیہ یہ ہوا کہ دنیا بھر میں جو کھانے "انڈین فوڈ" کے طور پر مشہور ہوئے ہیں، وہی پاکستانی بھی ہیں۔ بیرون ملک بہت سے پاکستانیوں کو مجبوراً اپنے ریستورانوں پر "انڈین فوڈ" کا بورڈ لگانا پڑتا ہے۔ یہ اور بات کہ پاکستانی کھانوں کا ذائقہ، انڈین کھانوں سے مختلف ہے۔ جو ذائقہ پاکستانی بریانی، پاکستانی قورمے، پاکستانی نہاری میں ہے، وہ ہمیں بھارتی بریانی، بھارتی قورمے اور بھارتی نہاری میں نہیں ملتا۔ مزا بھی نہیں آتا۔ اب یہ نہیں معلوم کہ اصل میں ایسا ہے یا یہ فرق صرف نفسیاتی احساس سے پیدا ہوتا ہے؟