اندھے عقاب کی اڑان
شام ڈھل رہی ہے۔ لائبریری میں کتابوں کی الماریوں کے درمیان بیٹھا کھڑکی سے باہر دیکھتا ہوں۔ املی اور کھجور کے درخت گم سم کھڑے ہیں۔ لمبے ہوتے سائے اداسی میں ڈوبے ہوئے لگ رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے شام ڈھاکہ کے اوپر تاریکی نہیں، نا امیدی کی چادر تان رہی ہے۔ میرا بنگالی دوست آکر میرے پاس بیٹھتا ہے اس کے ہاتھ میں مغربی پاکستان سے شائع ہونے والا سرکاری اخبار پاکستان ٹائمز ہے۔ وہ اس کا اداریہ میرے سامنے رکھ دیتا ہے۔ اداریہ اعتراف کر رہا ہے کہ مشرقی پاکستان کا کمایا ہوا زرِمبادلہ مغربی پاکستان پر خرچ کیا جاتا رہا اور کیا جا رہا ہے۔ کئی برسوں سے یہ کالم نگار ہر سولہ دسمبر کو سقوط ڈھاکہ پر کالم لکھتا رہا ہے۔ روتا رہا ہے! حقائق بتاتا رہا ہے۔ سوچا اب کے نہیں لکھتا! آہ و زاری، نالہ وشیون اور سینہ کوبی کی ایک حد ہوتی ہے۔ یہ نہ ہو کہ ؎شامِ غم جل جل کے مثلِ شمع ہو جائوں گا ختمصبح کو احباب آئیں گے تو دفنائیں گے کیاسو خاموش رہا! اور دیکھتا رہا کہ سولہ دسمبر کو اپنے پرائے کیا کیا لکھ رہے ہیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اندھوں کا گروہ ہاتھی کے گرد کھڑا ہے۔ کوئی ٹانگوں سے لپٹا ہوا! کوئی سونڈ کو ٹٹولتا! کوئی کان کو پنکھا قرار دیتا ہوا!! ؎کوئی یار جاں سے گزرا کوئی ہوش سے نہ گزرایہ ندیم یک دو ساغر مرے حال تک نہ پہنچےوہی احساسِ کم تری کہ ہمارا کیا قصور ہے، یا، ہمارا قصور ہے مگر اتنا بھی نہیں! کوئی حقائق بتاتا ہے تو رویے کا ذکر نہیں کرتا۔ وہی گھسی پٹی لولی لنگڑی دلیل کہ ہندوئوں کے زیر اثر تھے۔ اور بھارت کے گلے میں کامیابی کا ہار تو ہم شروع ہی سے پہناتے چلے آ رہے ہیں۔ تعصب کے علاوہ اس بے تُکی چاندماری کی ایک وجہ لاعلمی بھی ہے۔ بنگال کی تاریخ سے لاعلمی! مغربی پاکستان کے رویے سے لاعلمی! اُس تکبر اور نخوت سے لاعلمی جس سے مشرقی پاکستان کو 1948ء سے لے کر 1971ء تک مسلسل کچوکے دیئے جاتے رہے۔ ہندوئوں کا اثر تھا تو یہ اثر قیام پاکستان کے راستے میں رکاوٹ کیوں نہ بنا؟ مغربی پاکستان میں تو مجلسِ احرار بھی قیام پاکستان کی مخالفت کر رہی تھی۔ خاکسار بھی اور جماعت اسلامی بھی، مشرقی بنگال میں تو کوئی مخالفت نہ تھی۔ سو فی صد مسلمان پاکستان کے حق میں تھے۔ پھر پاکستان کو تو آج تک اسلام کی قمیض پوری نہ آئی، اردو کو اسلام کا چولا پہنا کر، تمام غیر مسلموں کو بیک وقت اردو سے متنفر کر دیا گیا۔ آج بھارت کے مسلمان شاعر چیخ چیخ کر اردو کی طرف سے کہہ رہے ہیں کہ ؎کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہمیں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانامگر یہ بات اُس وقت کے مغربی پاکستانی اور آج کے پاکستانی نہیں سمجھتے! کیا تھا اگر پہلے ہی دن سے بنگالی اور اردو دونوں کو سرکاری زبان مان لیا جاتا؟ کینیڈا کی دو اور سوئٹزر لینڈ کی تین سرکاری زبانیں ہیں! کئی اور ملکوں میں بھی ایسا ہی ہے۔ بنگالی زبان اردو کی نسبت سینکڑوں سال پرانی اور کئی گنا زیادہ ثروت مند تھی۔ خود پروفیسر غلام اعظم ڈھاکہ یونیورسٹی طلبہ یونین کے 1947ء سے لے کر 1949ء تک جنرل سیکرٹری رہے اور وزیر اعظم لیاقت علی خان کے سامنے اسی حیثیت میں مطالبہ پیش کیا کہ اردو کے ساتھ بنگالی کو بھی ریاست کی قومی زبان تسلیم کیا جائے۔ پھر جب انکار نے زخم لگائے۔ فساد ہوا، کدورتیں گہری ہو چکیں تو مطالبہ مان لیا گیا مگر بنیاد پر ضرب پڑ چکی تھی۔ معاملہ سوپیاز اور سو کوڑوں سے آگے نکل چکا تھا۔ گزشتہ ہفتے جناب ارشاد عارف ٹیلی ویژن پر اُس نفرت کی ایک مثال دے رہے تھے جو مغربی پاکستانیوں کے دل میں بنگالیوں کے لیے تھی۔ گورنر امیر محمد خان ڈھاکے گئے اور الطاف گوہر کو کھانے کی دعوت دی تو فخر سے بتایا کہ میں گوشت پانی اور نمک تک مغربی پاکستان سے لایا ہوں۔ وفاقی بھک منگوں کو اس زمانے میں کسی ترقی یافتہ ملک سے سینیٹری کا سامان ہاتھ لگا۔ وفاقی وزراء نے آپس میں بانٹا۔ بنگالی وزیروں نے حصہ مانگا تو کہا گیا تم لوگ تو رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جاتے ہو، تم نے سینیٹری سامان کو کیا کرنا ہے۔ کبھی لنگی(دھوتی) کا مذاق اڑایا جاتا۔ کبھی چاول کھانے کی نقل اتاری جاتی۔ کبھی مچھلی اور تیل کے حوالے سے تضحیک کی جاتی۔ مغربی پاکستانی طلبہ جو مشرقی پاکستان میں زیر تعلیم تھے، ان کی اکثریت بنگالیوں کو ڈڈو(مینڈک) کہا کرتی۔ جو ان دکاندار سے کوئی شے خریدتے، وہ قیمت چھ آنے بتاتا۔ اسے ایک تھپڑ پڑتا اور چار آنے دیئے جاتے۔ بہار سے آئے ہوئے مہاجرین کا مشرقی پاکستانیوں نے کشادہ بازوئوں اور فراخ دل کے ساتھ استقبال کیا۔ دوسرکاری محکموں، پوسٹل اور ریلوے، پر ان کا قبضہ ہو گیا۔ اس کالم نگار نے دور افتادہ ریلوے اسٹیشنوں پر بھی انہی کی افرادی قوت دیکھی۔ ان بھائی لوگوں نے ان محکموں میں مقدور بھر کوشش کی کہ بنگالی آنے ہی نہ پائیں۔ اپنی بستیاں الگ بسا لیں۔ کسی بھی ملک میں لسانی بنیاد پر الگ آبادیاں بسانا حماقت کی بدترین قسم ہے۔ اس کا مطلب ہے آ بیل مجھے ضرور مار اور زور سے مار! پھر خمیازہ بھی بھگتا۔ ان لگ، جزیرہ نما، بستیوں پر حملہ کرنا بھی آسان اور نذر آتش کرنا بھی آسان! یہی حماقت اب کراچی اور لاہور میں کی جا رہی ہے۔ لسانی بنیادوں پر الگ الگ پاکٹ بن گئی ہیں۔ یہی حال وزیر اعظم کے دفتر کی بغل میں بارہ کہو کا ہے اور کچھ میل پرے ترنول کا۔ زندہ قومیں اپنے آپ کو ایسی دولتی نہیں مارتیں۔ سنگا پور میں تین قومیتیں بس رہی ہیں۔ انڈین، ملے اور چینی! کسی کی بھی کہیں اکثریت نہیں! گھروں اور فلیٹوں کی منصوبہ بندی اور بکنگ اس طرح کی جاتی ہے کہ کسی ایک قومیت کا رہائشی یونٹ پر غلبہ نہ ہو۔ چینی کا پڑوسی انڈین ہے اور انڈین کا ہمسایہ مَلے ہے۔ پھر اُس مرحوم اخبار نویس پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے گئے جس نے "ادھر ہم ادھر تم" کی منحوس شہ سرخی جمائی تھی۔ تُف ہے ایسا کہنے والوں پر اور کرنے والوں پر۔ پیپلزپارٹی نے دھمکی دی کہ جو اسمبلی کا اجلاس اٹنڈ کرنے ڈھاکہ جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ مجیب الرحمن کا انجام اچھل اچھل کر بتانے والے پیپلزپارٹی کا عبرت ناک انجام بھی دیکھیں جو آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا ہے۔ آج پیپلزپارٹی کرپشن کی علامت کے سوا کچھ بھی نہیں! بچے کھچے ارکان شہزادے بلاول کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ بلاول ایک نازک پودا! جس کے اوپر کا چھتنار درخت اسے قد ہی نہیں نکالنے دیتا۔ یوں بھی بلاول گوربا چوف نہ ثابت ہوا تو آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر ضرور ثابت ہو سکتا ہے۔ بہت تکلیف تھی کہ مجیب الرحمن صرف مشرقی پاکستان کی نمائندگی کر رہا ہے۔ وفاق کیسے اس کے حوالے کیا جائے؟ تاریخ سزا دیتی ہے تو عبرت کا نشان بنا کر دنیا کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ وفاق کی حکومت وسطی پنجاب کے صرف چھ اضلاع کی نمائندگی کرنے والوں نے ہتھیا لی اور چار سال تک مسلط رہے۔ ساری اہم وزارتیں بھی ان اضلاع کے پاس تھیں۔ ہر سال اس سبق کا ذکر ہوتا ہے اس سانحہ سے نہیں سیکھا گیا۔ سیکھ بھی لیا تو کیا! ؎اب ترا التفات ہے حادثۂ جمال و فناندھے عقاب کی اڑان! زخمی ہرن کا بانکپن!