وفاقی سروس کا پنجاب گروپ
قیام پاکستان کے بعد پہلی دہائی میں جو ترقی ملک کے طول و عرض میں دکھائی دیتی ہے، اس کی بنیادی وجہ ملک میں بیوروکریسی کا ایک مضبوط، منظم اور مستحکم نظام تھا۔ اس وقت حکمران افسروں کوذاتی ملازم سمجھتے تھے نہ بیوروکریسی آئین، قانون اور قواعد وضوابط پر کوئی سمجھوتہ کرتی تھی۔ جنرل ایوب خان کے اقتدار سنبھالنے تک ملک میں کسی حکومت کو ٹک کر کام کرنے کا موقع نہ ملا، جس پر اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کو کہنا پڑا کہ "میں سال میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی پاکستان میں حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں "، آئے روز حکمرانوں کی تبدیلی، آئین کی زنجیر نہ ہونے، حکمرانوں کے عدم استحکام کے باوجود ملکی بیوروکریسی نے نوزائیدہ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا، سیاسی غیر یقینی اور مارشل لاءکے قیام کے باوجود ترقی کا یہ سفر جاری رہا، انگریز دور کی تربیت یافتہ بیوروکریسی کی وجہ سے ملک نے ریکارڈ ترقی کی، زرعی، صنعتی، تجارتی، محصولات، بجلی کی پیداوار، معدنیات کی تلاش، درآمدات و برآمدات اور امن و امان کے حوالے سے ایسے کارہائے نمایاں انجام دئیے کہ دیگر ممالک بھی نقالی پر مجبور ہو گئے، جنوبی کوریا اس کا باقاعدہ طور پر اعتراف کرتا رہا ہے۔
ملک میں سیاسی انارکی اور حکمرانوں کی شوریدہ سری کے نتیجے میں رفتہ رفتہ بیوروکریسی کا نہ صرف مورال گرتا چلا گیا بلکہ کار کردگی بھی زوال پزیر ہوتی چلی گئی، تنزلی کا یہ سلسلہ ایوبی آمریت ہی میں جاری ہو گیا تھا مگر تب بھی بیوروکریسی کی کار کردگی کافی بہتر رہی جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں تو انتظامی لٹیا ہی ڈوب گئی۔ افسروں کی تعیناتی میں حکمران طبقہ کی پسند نا پسند کا عمل جاری ہو گیا، منتخب نمائندے سرکاری افسروں کو ذاتی ملازم گرداننے لگے، قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑا کر تبادلے اور تعیناتی ہونے لگی، قوانین کیخلاف افسروں سے کام لئے جانے لگے، زبانی احکامات پر سرکاری فرائض انجام دئیے جانے لگے، اسی کا نتیجہ ہے کہ بیوروکریسی کے ارکان بھی منہ زور ہوتے گئے اور انکی طرف سے بھی من مانیاں شروع ہو گئیں۔
صورتحال یہ ہے کہ ملکی نظام کو چلانے کےلئے وفاقی سروس کے ارکان پورے پاکستان میں ملازمت کےلئے منتخب ہوتے ہیں جبکہ تمام صوبوں کے اندر ایک انتظامی سروس بھی ہوتی ہے جسے پروونشل سروس کہا جاتا ہے، اس کے ارکان بھی وفاقی سروس کے ارکان کی طرح مقابلے کا امتحان پاس کر کے تعینات ہوتے ہیں، صوبوں میں وفاقی اور صوبائی سروس کے دائرہ کار اور باقی معاملات پر آئندہ کالموں میں لکھوں گا، آج وفاقی افسروں کے اس گروپ کے بارے میں بات کرنی ہے جو ایک صوبے سے باہر جاناپسند ہی نہیں کرتا، ویسے تو وفاقی سروس کے تمام گروپوں کو سارے صوبوں میں کام کرنا ہوتا ہے مگر ان گروپوں میں سے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پی اے ایس) اور پولیس سروس آف پاکستان (پی ایس پی) کے افسران کسی ایک صوبے میں ایسا دل لگاتے ہیں کہ وہ اس صوبے سے باہر اسی وقت جاتے ہیں جب انہیں گریڈ اکیس یا بائیس میں وفاق میں تعینات کیا جاتا ہے، ہمارے کئی ایک افسر تو ان گریڈوں میں بھی پنجاب سے باہر جانا پسند نہیں کرتے۔ حالانکہ پی ایس پی اور پی اے ایس افسروں کیلئے یہ ضروری تھا کہ وہ تین سال کے بعد دوسرے صوبہ میں خدمات انجام دیں، مگرایسا نہ ہو سکا، وفاقی افسروں کیلئے دو مرتبہ تین تین سال کیلئے پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں ڈیوٹی دینا بھی ضروری تھا، مگر اس کے برعکس دہائیوں سے پنجاب سے متعلقہ افسر پنجاب میں ہی تعینات ہیں۔
پنجاب کے ایک سابق چیف سیکرٹری محمد پرویز مسعود بڑے قابل اور محنتی افسر تھے، میں نے ایک مرتبہ ان سے پوچھا کہ وفاقی سروس کے ارکان کےلئے تمام صوبوں اور وفاق میں سروس کرنا ضروری ہوتا ہے مگر یہ پنجاب اور لاہور سے باہر کیوں نہیں جاتے؟ تو انہوں نے اس وقت اسکی تین وجوہات بتائیں۔ جن میں لاہور کی جی او آرز، یہاں کا جمخانہ کلب اور ایچیسن کالج شامل ہیں۔ اب یہ وجوہات تین سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ میرے سامنے پنجاب حکومت کی ایک فہرست پڑی ہے، جس میں موجود افسر ایک لمبے عرصے سے پنجاب میں ہیں۔ میں ان افسروں کے با صلاحیت اور محنتی ہونے پر شک نہیں کر رہا مگر ساری سروس پنجاب میں کرنے کے بعد یہ وفاق میں جا کر چاروں صوبوں سے کس طرح انصاف کر سکیں گے۔
مثال کے طور پر سیکرٹری سید علی مرتضیٰ 11سال 7ماہ سے پنجاب میں ہیں، سیکرٹری لٹریسی سمیرا صمد 13سال10ماہ سے، سیکرٹری جنگلات کیپٹن(ر)محمد آصف 12سال ایک ماہ سے، سیکرٹری کوآپریٹواحمد رضا 18سال3ماہ سے پنجاب سے باہر نہیں گئے، سیکرٹری سوشل ویلفیئرمحمد حسن اقبال 18 سال 10ماہ سے سیکرٹری سروسز صائمہ سعید 22سال، سیکرٹری نبیل جاوید 17 سال 6ماہ، سیکرٹری لائیو سٹاک ثاقب ظفر 20سال10ماہ سے، کمشنر سرگودھا ڈاکٹر فرح مسعود 20سال4ماہ، سیکرٹری سکولز ایجوکیشن سارہ اسلم 20 سال 7ماہ سے، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ظفراللہ 21سال 4ماہ سے، سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ارم بخاری 26سال7ماہ، سیکرٹری آبپاشی کیپٹن (ر)سیف انجم مسلسل10سال5ماہ سے پنجاب میں سروس کر رہے ہیں۔ سیکرٹری ویمن ڈویلپمنٹ عنبرین رضا 24سال4ماہ، ایڈیشنل سیکرٹری مریم خان 10سال2ماہ، سردار سیف اللہ ڈوگر 11سال، ڈی جی شوکت علی 11سال2ماہ، ڈی ایم جی افسر قیصر سلیم 11سال3ماہ، ڈی ایم جی افسر خاور کمال 12سال10ماہ سے پنجاب میں ہیں، ڈی سی خوشاب مسرت جبیں، ڈی ایم جی افسر ثمن رائے، ڈی ایم جی افسر عتیقہ محمود، ڈی جی ایکسائز صالحہ سعید، ایڈیشنل سیکرٹری عائشہ حمید نے ا?ج تک پنجاب سے باہر خدمات انجام نہیں دیں، کمشنر ڈی جی خان ساجد ظفرڈل13سال9ماہ، سپیشل سیکرٹری صحت اقبال حسین 13سال7ماہ، ڈی جی سپورٹس عدنان ارشد اولکھ 16سال5ماہ سے مسلسل پنجاب میں تعینات ہیں۔
اب وفاقی حکومت نے پنجاب سمیت ایک ہی صوبہ میں عرصہ دراز سے خدمات انجام دینے والے وفاقی افسروں کی رپورٹ طلب کر لی ہے اور اس سلسلہ میں روٹیشن پالیسی بھی جاری کر دی ہے، نئی پالیسی کے تحت سروس میں اانے والے نئے افسر کو گریڈ 18میں ترقی تک پانچ سال دوسرے صوبہ میں خدمات انجام دینا ہونگی خواتین کیلئے یہ حد تین سال ہو گی، گریڈ 17سے19تک کے افسروں کو پسماندہ دور دراز اور خطرناک علاقوں میں ڈیوٹی دینا لازمی ہو گا، نئے تعینات افسروں کو ایک سال کیلئے قبائلی علاقوں میں بھی تعینات کیا جائے گا اور یہ سروس لازمی ہو گی، کسی بھی افسر کی اس کے اپنے صوبہ میں تعیناتی اسکی سروس کے پانچ سال اور خواتین افسروں کی تین سال کی سروس سے پہلے نہیں ہو سکے گی، 20ویں سکیل کے افسر کی 25سالہ ملازمت میں 15سال صوبوں اور 8سال وفاق میں خدمات انجام دینا ہونگی۔
وفاقی افسر عام طور پر پنجاب سے باہر ڈیوٹی دینا نہیں چاہتے اس صورتحال میں زیادہ تر ہاتھ سیاسی حکمرانوں کا بھی ہے، یہ اپنے تابع دار اور زبانی حکم کو قواعد پر ترجیح دینے والے افسروں کو پسند کرتے اور خلاف ضابطہ ان کو پنجاب میں تعینات رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے دیگر صوبوں میں وفاقی افسروں کی قلت ہو گئی تھی، سوال یہ ہے کہ اگر وفاقی افسروں کو پنجاب میں ہی ڈیوٹی دینا ہے تو وہ وفاقی سروس چھوڑ کر پنجاب کی صوبائی سروس میں شامل ہو جائیں، دوسرا سوال یہ کہ اگر وفاقی افسر خود پر لاگو قواعد پر عملدرآمد میں تساہل برت رہے ہیں تو ملکی قوانین اور ضابطوں پر کیسے عمل کرائیں گے؟ ایک بات طے ہے کہ کسی افسر کی ایک ہی پوسٹ یا صوبہ میں تعیناتی سے اس کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے جس سے انتظامی خرابی اور مالی بد عنوانی کے دروازے کھلتے ہیں، جسے اب روکنا ہو گا۔