قصور ہمارا ہے
عرف عام میں کرپشن کی تعریف یہ ہے کہ ہر وہ شخص بد عنوان ہے جو اپنی ظاہر کردہ آمدنی سے زیادہ پر تعیش زندگی گذار رہا ہے لیکن ہمارے یہاں یہ مسئلہ صرف پر تعیش زندگی کا نہیں بلکہ محلات، فارن اکاؤنٹس اور بڑھتے ہوئے اربوں کھربوں کے کاروبار کا نام ہے جس نے پاکستان کو نہ صرف کھوکھلا کردیا بلکہ پاکستان نہ صرف آج بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور ہماری خارجہ پالیسی ان بیرونی قرضوں کی وجہ سے شدید متاثر ہے۔
پاکستان کے عوام بخوبی واقف ہیں کہ کس طرح حکومتوں اور اختیارات کے بل بوتے پر اشرافیہ اور سیاستدانوں نے بینکوں سے قرضے لے کر معاف کروائے، کس طرح اپنے اداروں کو دیوالیہ قرار دلوا کر حکومت سے مراعات لی گئیں اور کس طرح حکمرانوں نے پاکستان کے قیمتی شہروں کی زمینوں کو من مانی، اقربا پروری اور سیاسی توڑ جوڑ کے تحت اس کی بندر بانٹ کی، کس کس طرح پلاٹ، پرمٹ اور لائسنسوں کی سیاست کی گئی، یہ سب ایک طویل عرصے سے ہو رہا ہے اور انصاف کی دیوی کی آنکھوں کی پٹی ایک سینٹی میٹر بھی نہ سرکی، میزان بردار بھی لب بستی کا مظاہرہ کرتے رہے اور قلم بردار بھی تصویر حیرت بنے رہے۔
ملکی مفاد پر ذاتی مفادات کو ترجیحات میں شامل کرلیا گیا۔ ہر حکمران نے اپنے اپنے ایجنڈے پیش کیے اور ساتھ ہی کرپشن اور بے ایمانی کے نت نئے طریقے پیش کرکے مثالیں قائم کیں، اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پہلے مذہب کا احترام دلوں سے ختم کیا گیا، قوم کو فرقہ واریت، صوبائیت اور لسانیت میں تقسیم کیا گیا ہر صاحبِ اقتدار نے خود کو مضبوط کرنے کے لیے دولت جمع کرنا شروع کردی اور پھر اس دولت کو بچانے کے لیے مزید دولت کا سہارا لیا گیا تاکہ دولت کی حفاظت کے لیے دولت ہی کام آئے۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن کا عفریت بڑھتا چلا گیا اور عام آدمی کیڑے مکوڑوں کی طرح پاؤں تلے کچلا جانے لگا اور کرپشن ہمارے سیاستدانوں کی جدید ترین تجارت کا ذریعہ بن گئی۔
آج ہر سیاستدان یا تو موروثی زمینوں کا مالک ہے یا اس کے پاس جدی پشتی کاروبار ہے اور یہ کاروبار لاکھوں، کروڑوں میں نہیں بلکہ اربوں کھربوں میں ہے، جس کی دو شوگر ملیں تھیں وہ آج درجنوں شوگر ملوں کا مالک ہے، جس کی ایک رائس مل تھی وہ آج لا تعداد رائس ملوں کا مالک ہے، زمینوں کے کھاتے چیک کریں تو سیکڑوں ایکڑ زمین کا مالک آج ہزاروں ایکڑ زمین کا مالک ہے، رہا بینک بیلنس کا سوال تو اس کا تو شمار ہی نہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ پیسہ بنایا ہی غریب لوگوں کے ذریعے سے ہے، یہ پیسہ ہر اس عمل سے حاصل کیا گیا ہے جس سے غریبوں کا خون چوسا گیا، آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ ان وڈیروں، جاگیرداروں اور حکمرانوں نے ایک دوسرے کی جائیداد یا کاروبار پر قبضہ کیا ہو یہ سارے امیر سے امیر تر غریبوں کا خون چوس کر ہی بلند و بانگ عمارتیں کھڑی کرتے چلے جارہے ہیں۔
ہماری قومی زندگی کے آغاز میں ہی غیرجمہوری اور غیر قانونی کارروائیوں پر اگر خاموشی اختیار نہ کی جاتی اور برسر اقتدار لوگوں پر یہ واضح کردیا جاتا کہ عوام ان کی کرپشن کی تائید نہیں کرتے تو شاید پاکستان کی تاریخ اس قدر سنگین نہ ہوتی۔ آج پاکستان کو درپیش مسئلوں میں سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے، جس کی بازگشت ہر طرف سنائی دیتی ہے لیکن یہ بازگشت نئی نہیں ہے بلکہ یہ سب تو لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ببانگ دہل شروع ہوگیا تھا اور کرپشن ہماری صفوں میں سرائیت اختیار کر گئی، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ قیام پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والوں، بے لوث رہنماؤں کو پس پشت ڈال کر وڈیروں اور جاگیرداروں نے اپنی جائیدادوں میں اضافے کے لیے حکومت کی پہلی صفوں میں اپنی جگہ بنا ڈالی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کیسے ہوگیا اور ہم نے کرپشن کے ساتھ جس 73سال گذارے اس کا ذمے دار کون ہے؟ میرے خیال میں ہمارے حکمرانوں اور ارباب اقتدار نے کبھی قوم کے ضمیر کو جگانے کی کوشش ہی نہیں کی اور یہی وجہ ہے کہ ہماری خود اعتمادی اور ضمیر پر مردنی چھا گئی۔
سیاستدانوں نے بڑی کامیابی سے عوام کے ذہنوں میں یہ بات سما دی کہ کرپشن حکمرانوں کا حق ہے اور اس کے بغیر حکومت نہیں کی جاسکتی اور حکومت کرنے کے لیے انعامات، تحائف، اور مخالفین کے ساتھ انتقامی کارروائیاں کرنا ان کا حق ہے۔ عوام کو اپنی زندگی کی بنیادی سہولتوں جیسے پانی، بجلی، روزگار، بچوں کی تعلیم اور صحت کے حصول کی جنگ میں مصروف رکھ کر حکمران من مانیاں کرتے رہے اور عوام میں ان کی حرکتوں کے خلاف نفرت کا جذبہ نہ ابھر سکا اور جب بھی کسی دوسری جماعت نے حکمرانوں کی کرپشن کی نشاندہی کی تو اس کا مطلب صرف اقتدار کا حصول تھا جس میں عوامی مفاد کا کوئی عنصر شامل نہیں تھا جو اس جنگ میں ہار جاتا وہ اصولوں اور پاکستان کی سلامتی کے بڑے بڑے دعوے کرتا اور دوسرے کو پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتا اور جو اس جنگ میں جیت جاتا وہ پھر اپنے اصولوں اور نظریات کا پرچار بھول جاتا اور اپنے مخالفین کے اوپر وہ تمام حربے استعمال کرتا جو اس کی حکومت کو مضبوط بنا سکیں اور اسے اپنے مفادات کے حصول میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔
یہ تحریر کرتے ہوئے افسوس ہورہا ہے کہ اب کرپشن عوام کی نظروں میں بھی برائی نہیں ہے، بلکہ وہ اس کو سیاست کا تقاضہ سمجھنے لگے ہیں، اگر ہم کرپشن سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایسا معاشرہ قائم کرنا ہوگا جو کرپشن کی سیاست اور روایت کے خلاف سراپا احتجاج ہو اور بڑا ہو یا چھوٹا قانون کی نظر میں برابر ہو۔ عوام کی معاشی صورتحال اتنی خراب ہے کہ وہ اپنی ضروریات اور زندگی کے چیلنجوں سے نبردآزما رہتے ہیں، بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ان کے سامنے ان کے اپنے مسائل اژدہے کی طرح پھن پھیلائے کھڑے ہیں تو وہ کس طرح سیاستدانوں اور حکمرانوں کی کرپشن کی طرف توجہ دے سکیں گے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ پورے پاکستان میں عوام کو صحت، تعلیم، پینے کے صاف پانی اور بنیادی انفرااسٹرکچر سے محروم کرکے ان کو اپنی ذاتی زندگی کے مسائل میں الجھا دیا گیا تاکہ حکمرانوں کی کرپشن اور طریقہ واردات پر عوام کبھی بغاوت نہ کر سکیں۔ قصور بحیثیت عوام ہمارا ہے اور ہم اس جنگ کے خلاف انفرادی حیثیت میں آواز بلند کرتے رہیں اور کرپشن سے نفرت کا اظہار کرتے رہیں تو زبانِ خلق نقارہ خدا بن جائے گی۔
(صاحب مضمون ایم کیو ایم کے رہنما اور رکن سندھ اسمبلی ہیں۔ )