تحریک انصاف بمقابلہ جماعت اسلامی

تحریک انصاف گذشتہ دوسال سے زیر عتاب ہے، اس کے بانی پابند سلاسل ہیں، ریاست میں تبدیلی لانے کے لئے موصوف کوشا ں ہیں، اس اعتبار سے یہ خوش قسمت رہی کہ اسے چار سال اقتدار"انجوائے" کرنے کا موقع بھی ملا، بانی نے وزیر اعظم کے طور خدمات انجام دیں، تبدیلی لانے میں کس حد تک یہ کامیاب رہی اب کوئی راز نہیں رہا، ناکامیوں میں بڑا ہاتھ اسکی فیصلہ سازی کا رہا، جس کی ابتداء ان متنازعہ انتخابات سے ہوئی جس نے مسند اقتدار تک اسکی راہ ہموار کی۔
بطور وزیر اعظم وہ ان غیر سیاسی قوتوں کے ممنون رہے، جنہوں نے "سہولت کاری" کا فرض نبھایا، یہ پہلے وزیر اعظم تھے جو برملا عوامی جلسوں میں سپہ سالار کی تعریف و توصیف اور اعتراف کرتے اگر ان کا دست شفقت ان کے سر نہ ہوتا تو یہ کچھ بھی نہ کرسکتے، پارٹی کی 22 سالہ سیاسی جدوجہد کا ہی ثمر تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی وساطت حکمرانی عطا ہوئی تو کابینہ بنانے کے لئے دوسری سیاسی جماعتوں سے افراد مستعار لینے پڑے، دوسرا امتیاز جو انکی کابینہ کو حاصل تھا وہ غیر ملکی افراد کی بطور مشیران کرام کابینہ میں شرکت تھی، وہ عوام کو جواب دہ نہیں تھے، سیاسی وژن کا کیا کہنا کہ انھوں نے بڑے صوبہ کی کمانڈ اس"سیاسی مجاہد" کے ہاتھ میں دی جن کا نام پہلی دفعہ پنجاب کی عوام نے سنا، بزدار فیملی کے چشم و چراغ محض تحصیل کی سطح تک اپنی پہچان رکھتے، دلچسپ امر یہ تھا انکی بطور وزیر اعلی پارٹی کے اندر سے بھر پور مخالفت ہوتی رہی، مگر کپتان نے اسے در خود اعتناء نہ سمجھا، بدعنوانی کی بابت بہت سی کہانیاں زیر گردش تھیں جنکے ڈانڈے انکی تیسری زوجہ کی سفارش سے ملتے تھے۔
چار سال مدت میں سیاسی مخالفین کو محض چور ڈاکو کہہ کر پکارتے رہے وہ خود اسی نوع کے الزام کی زد میں اب جیل کاٹ رہے ہیں، جس احتساب اور تبدیلی کا نعرہ انھوں نے بلند کیا، دور دور تک اس کا کوئی نشان نہ تھا، بلکہ ان کے عہد میں بدعنوانی کا دور دورہ رہا، جسکی شہادت عالمی رپورٹ سے ملتی رہی۔
جہاں تک انکی فارن پالیسی کا تعلق ہے، پاکستان کے درینہ دوست سعودی عرب کے فرمان رواء نے اپنا جہاز دے کر انھیں امریکہ بھیجا، پاکستان کے پردھان منتری نے امریکہ کو خوش کرنے کے لئے سعودیوں کی برائیاں کیں، وآپسی پر شاہ نے بے عزت کرکے انھیں جہاز سے اتار دیا، یہ اعزاز بھی ان کے حصہ میں آیا، ہم کوئی "غلام ہیں" نعرے بلند کرنے والوں کو کیا علم ان کے قائد نے امریکہ کو خوش کرنے کے لئے سی پیک کے راز داری کے معاہدے امریکی انتظامیہ کے ساتھ شیئر کر دیئے، جس پر چین ناراض ہوا، بعد ازاں یہ پروگرام فریز کر دیا، ملائشیاء نے کپتان کی فرمائش پر اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کا فیصلہ کیا، اس میں نہ موصوف خود گئے نہ ہی وفد بھیجا، روس کا دورہ ایسے موقع پر کیا جب وہ یوکرین پر حملہ کرنے والاتھا یورپی یونین، ترکی کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کیا، اس "بے مثال" سفارت کاری کا معاملہ کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤ والا ہے۔
کپتان کے عہد میں ہندوستان نے کشمیر کی آئینی حیثیت بدلی، موصوف نے صرف تین منٹ خاموشی پر اکتفاء کیا، ٹینکوں میں تیل نہ ہونے کا پیغام تو قوم نے سن لیا ہے۔
پارٹی مخالفت کے باوجود قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر باہر آگئے جب پارلیمنٹ میں انکی موجودگی لازمی تھی۔
سچ تو یہ ہے کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے بڑے جیدافراد ان کے مداح تھے، جنہوں نے میڈیا پر آکر برملا کہا کہ سب سے زیادہ کپتان نے انھیں مایوس کیا ہے، چاہیے تھا کہ قیادت اور انکے فالورز اپنی ناکامی کا جائزہ لیتے مگر انھوں نے اپنی توپوں کا رخ ہر اس فرد، پارٹی، صحافی کی طرف کیا جس نے سچ کہااور حق لکھا، بے بسی کے عالم میں کپتان کااعتراف انھیں اپوزیشن میں بیٹھنا چاہئے تھازود پشیماں ہونے کے مترادف تھا۔
حقیقی تبدیلی کے خواہاں تھے تو انھیں غیر سیاسی کی بجائے سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر ملک میں اصلاحات نافذ کرنا چایئے تھیں۔
بہت سے قومی مسائل کی ذمہ داری محترم امیر جماعت اسلامی کپتان پر بھی ڈالتے ہیں ان کے فالورزحسب عادت جماعت اسلامی پر برستے ہوئے بھول گئے امیر جماعت نے جیتی ہوئی سیٹ وآپس کرکے سیاسی تاریخ میں عمدہ مثال قائم کی کہا یہ سیٹ تحریک انصاف کی ہے، کراچی مئیرکے انتخاب میں کپتان کے کونسلر زنے اس پارٹی کو ووٹ دیئے جس کوموصوف ڈاکو چور کہتے ہیں، جماعت اسلامی کی امانت، دیانت کا زمانہ گواہ ہے، جماعت کا تنظیمی نیٹ ورک تمام شعبہ ہائے زندگی میں موجود ہے، اگر شارٹ نوٹس پر اس کو اقتدار سنبھالنا پڑے، کپتان کی طرح کابینہ کے لئے جماعت کسی سے افراد مستعار نہیں لے گی، جماعت اسلامی کاعام کارکن امیر جماعت بن سکتا ہے، اس کے لئے کسی اے ٹی ایم کی ضرورت نہیں پڑتی۔
شرمناک ہے پارٹی کے لئے جدوجہد کرنے والے درینہ ورکرز دیوار کے ساتھ لگا دیئے اقتدار کے لئے الیکٹیبل کا سہارا لیا گیا نعرہ تھا کہ لیڈر کا ایماندار ہونا کافی بری طرح فیل ہوا، آمرانہ دور میں نعمت اللہ خاں مرحوم نے کراچی میں ترقیاتی کاموں کی تاریخ رقم کی، پورے نظام پر انکی گرفت تھی، ایک سیکنڈل بھی سامنے نہیں آیا، پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے متعلق آڈٹ رپورٹس نے کپتان کی ایمانداری کا جنازہ نکال دیا۔
اس وقت یہ پارٹی وکلاء کے ہاتھوں یرغمال ہے، باہمی لڑائیوں کی بنیاد پر وزارت اعلی تبدیل کی جارہی ہے، جماعت اسلامی کی ریاست سے وفا اقتدار سے مشروط نہیں، اس کی قربانیاں اسکی شہادت ہیں جماعت اسلامی کا انتظامی ڈھانچہ اس قدر مضبوط ہے کہ اس سے راہ فرار اختیار کرنے والے بھی عزت سے رخصت ہوتے ہیں، اس کے ورکرز جانے والوں پر کپتان کے فالورز کی طرح تبرہ نہیں بھیجتے بلکہ دعاگو ہوتے ہیں، مگر جماعت کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔
بانی کے منظر نامہ سے ہٹنے کے بعد پارٹی میں اندھیرا ہی اندھیرا ہے، ماسوائے جماعت اسلامی کے سوا تمام سیاسی پارٹیاں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں، کپتان نے گالی گلوچ کے علاوہ نسل نو کو سکھایا ہی کیا ہے، جبکہ محترم حافظ نعیم الرحمان امیر جماعت نے "بنو قابل" آئی ٹی مہارتوں پر مشتمل ایسا وژنری پروگرام نوجوانان کو دیا ہے بشمول کشمیر ملک بھر میں جسکی دھوم ہے ہے، المیہ وہ ا فراد جو سیاسی بصیرت، کردار سے محروم ہوتے ہیں، انھیں مسند اقتدار پر بٹھانے کے لئے صلاحتیں صرف کی جاتی ہیں، جسکی بھاری قیمت قوم کے ساتھ مقدس اداروں کو بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔

