تین لفظی بیانیہ
نعرے محض الفاظ کا مجموعہ ہی نہیں ہوتے، بلکہ کسی قوم کی سوچ، رحجانات اور جذبات کا عکاس بھی ہوتے ہیں، تاریخی طور پرہمیں سب سے مقبول نعرہ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ ملتا ہے جس نے قیام پاکستان سے قبل ہی مقبولیت حاصل کرلی، تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور نامور شاعر اصغر سودائی کی نظم کا حصہ تھا، یہی معاملہ بیانیہ کا ہے، بیانیہ ایسا جملہ، قول، بات ہے، جس میں حقیقت بیان کی جائے، یہ مثبت اور منفی بھی ہوتے ہیں، ہر عہد، سماج اور ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، کچھ بیانئے مقبول ترین نعرے بن جاتے ہیں، جیسے مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ، حالانکہ یہ نعرہ بھی شاعر افضل ہاپوڑی کی نظم کا مصرہ تھا، ایسے بیانئے تاحال زندہ ہیں۔
ادیبوں کی پاکستان کے بیانیوں کے بارے میں رائے ہے کہ حال کا بیانیہ ماضی کی نفی کر دیتا ہے، طاقتور افراد بھی بیانیہ کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
ایوب خاں نے جب باوردی صدر کے طور پر اقتدار پر شب خون مارا تو انھوں نے اپنے دس سالہ دور کو "سبز انقلاب" کا بیانیہ کہا، ناقدین اس عہد کی ترقی کوانڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن سے منسوب کرتے ہیں، بیرون قرضوں کی عادت اس دور میں پڑی، کرپشن کا آغاز ہوا، معاشی ناہمواری نے جنم لیا، ماہرین کہتے ہیں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا تعلق انکی پالیسیوں سے تھا۔ تنازعات، تفریق، تقسیم عہد ایوب کے تحفے ہیں۔
قائد عوام نے فاطمہ جناح کے ساتھ ہر ناانصافی میں ایوب کا ساتھ دیا، جب اس کے اقتدار کی کشتی ڈوبنے لگی، تو بوجھ اتارنا شروع کیا، بقول قدرت اللہ شہاب موقع کی تلاش میں تھے، ایوب کو اقتدار سے الگ کرنے کے بعد روٹی، کپڑا، مکان کا بیانیہ قوم کو دیا گیا، ان کے خلاف بہت بڑی اور منظم تحریک چلی، نتیجہ میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا، اپنے عہد میں انھوں نے بعض انقلابی کام کئے مگر سیاسی ابتری نے انھیں موقع نہ دیا کہ وہ اپنے بیانیہ پر عمل کرکے دکھاتے، قومی اتحاد کی تحریک کے تناظر میں جنرل ضیاء الحق نے اسلام کے نفاذ کا بیانیہ اپنایا جب وہ ہوائی حادثہ میں ہلاک ہوئے، تو اسلام کی کوئی عملی شکل موجود ہی نہ تھی بلکہ لسانی، گروہی، فروعی تقسیم ریاست میں واضع ہوچکی تھی۔
یہ حالات کا جبر تھا کہ جمہوریت کے لئے قربانیا ں دینے کا دعویٰ کرنے والی پارٹی کو بھی وقت کے سپہ سالار "کو تمغہ جمہوریت" دینا پڑا، محترمہ بھی اپنے اقتدار میں روٹی، کپڑا مکان کا وعدہ وفا نہ کر سکیں۔
جب اقتدار کا ہما ان کے سر پر آن بیٹھا جو خود کو "میڈ ان پاکستان"کہتے تھے، انھوں نے ریاست کو ایشین ٹائیگر بنانے کا بیانیہ متعارف کروایا، مگر وزارت عظمیٰ کی مدت کی تکمیل کی "سعادت" حاصل نہیں کر سکے، یوں یہ بیانیہ بھی دم توڑ گیا، حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار باوردی صدر نے "سب سے پہلے پاکستان"کا بیانیہ فضا میں بلند کیا، لیکن اسکی کوکھ سے لہو اور خون کے علاوہ کچھ برآمد نہ ہوا، پرائی جنگ میں کودنے کا خراج تاحال قوم ادا کررہی ہے، افغانستان سے رہے سہے تعلقات بھی حالت نزاع میں ہیں۔
کچھ قوتوں نے جواں سال قیادت پر بھروسہ کیا، تبدیلی لانے کی نوید ہی نہ سنائی بلکہ "نیا پاکستان" کا بیانیہ مارکیٹ میں لانچ کردیا، چورن یہ بیچا کہ سابقہ قیادت سر تا پاؤں بدعنوانی کے تالاب میں بری طرح غرق ہے، بہتری کی توقع رکھنا عبث ہے، آئینی مدت سے قبل ہی مسلط کرنے والوں کو تارے نظر آنے لگے انھوں نے دست شفقت کھینچ لیا، یہ بیانیہ بھی رنگ نہ جما سکا۔
بانی پاکستان کی شکل میں سیاست کا رول ماڈل اور ان کا تین لفظی ایمان، اتحاد، تنظیم بیانیہ کسی نعمت سے کم نہ تھا، مگر اس کو اپنانے کی بجائے حکمران غیر حقیقت پسندانہ بیانیوں میں الجھے رہے، اس مشق سے نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم والا معاملہ ہوگیا، یہ ہنس کی چال چلتے چلتے اپنی بھی بھول گئے، ان کے بیانات نے تحریک پاکستان کی صورت میں ایک قوم کو پھر سے ہجوم میں بدل کے رکھ دیا، اگر فلسفہ قائد کے فروغ پرصلاحتیں صرف کرتے تو حالات یکسر مختلف ہوتے، حکمرانوں کے بیانیوں کا فیض ہے کہ یہاں نہ ایمان نظر آتا ہے، نہ ہی اتحاد دکھائی دیتا ہے، اور تنظیم کا تو سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔
قائد کا تین لفظی بیانیہ اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے، انھوں نے یہ فلسفہ قیام پاکستان سے پہلے پیش کیا، یہ گائیڈ لائین ہی نہیں نصب العین بھی تھا، کہ نوزائیدہ مملکت کو انھیں اصولوں کی بنیاد پر چلایا جائے گا، ایمان سے مراد مثبت طرز عمل بھی ہے اس کی عدم ترویج کی کوکھ سے بدعنوانی نے جنم لیا، دھوکہ، فراڈ، فریب، ہوس پرستی وہ ر ذائل اخلاق ہیں جس کی جھلک قومی اداروں میں ملتی ہے، حد تو یہ ہے ارباب اختیار بھی ان الزامات کی زد میں رہے ہیں۔
جنہیں مسند اقتدار پر براجمان ہونے کا شرف ملا، انھوں نے صرف ان قوتوں سے اتحاد کر نا ضروری سمجھا جو ان کے مفادات کے محافظ رہے، تحریک پاکستان کے دوران تمام تر تعصبات سے بالا تر ہو کر ایک جھنڈے تلے جمع ہونے والوں میں قومی اتحاد آج عنقا ہے، ہر صوبہ میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں، تنظیم کے لفظ سے تو پورا سماج نا آشنا ہے، یہ کسی مقام پر نظر نہیں آتی، لاقانونیت، امیر اور غریب کی تفریق نے تو اس کا جنازہ نکال دیا، سیاسی جماعتوں میں اس کا وجود سرے ہی نہیں ہے، ان میں احتساب کا کوئی رواج نہیں، پارٹیاں خاندانی پراپرٹی بن گئی ہیں۔
وہ تمام بیانئے جن کا آغاز سبز انقلاب سے ہوا تھا، اسکی تان آکر نیا پاکستان پر آکر ٹوٹی ہے، یہ سب قوم کے دکھوں کا مداوہ کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں، معاشرہ کو ترقی، خوشحالی، امن، اخوت، محبت دینے سے عاری رہے ہیں، وسائل کی غیر منصفانہ کی تقسیم کی راہ کو ان بیانات نے کشادہ کیا ہے، نہ کسی کو روٹی ملی نہ کپڑا اور نہ ہی مکان، یہ ریاست ایشین ٹائیگر بن سکی، نہ اسلام اس میں آسکا، سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ سراب ثابت ہوا ہے، جو نیا پاکستان اور تبدیلی لائی گئی وہ قوم کے سامنے ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ تین لفظی"ایمان، اتحاد، تنظیم" کا بیانیہ قومی سطح پر اپنایا جائے، اس فلسفہ کی گراس روٹ تک آبیاری کی جائے، نسل نو کو ازبر کروایا جائے، تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے، تاکہ قوم میں تحریک پاکستان کا جذبہ پروان چڑھ سکے، عوام ہجوم سے قوم بننے کا سفر طے کر سکیں، یہ آزمودہ نسخہ ہے، اسی جذبہ نے قیام پاکستان کی راہ ہموار کی اور یہی ترقی کی ضمانت بھی ہے، زمینی حقائق سے برعکس بیانیہ عوام کے جذبات کا عکاس نہیں ہو سکتا، البتہ ارباب اختیار اس کو ڈھال بنا کر عوام کو دھوکہ دینے میں کامیاب ضرور ہو جاتے ہیں۔