سیاسی قیادتوں میں باہم عدم اعتماد

کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں مسجد سے ملحقہ شراب خانہ تھا، جس سے اہل مسجد بھی کسی حد تک تنگ تھے، روایتی انداز میں امام صاحب ہر نماز میں شراب خانہ کی بربادی کی دعا باآواز بلند کراتے تھے، اتفاق ایسا ہوا کہ ایک روز شراب خانہ آگ لگنے سے جل کر خاکستر ہوگیا، اس کے منتظمین نے آگ لگنے کا کھوج لگوانے کی بجائے مسجد کے امام پر مقدمہ درج کروا دیا کہ انکی بددعا سے ہمارا شراب خانہ برباد ہوگیا ہے۔
جب کیس عدالت میں چلا، توجج صاحب نے پوچھا مولوی جی یہ سچ ہے کیا کہ آپ کی بددعا سے شراب خانہ کو آگ لگی ہے، مولوی نے حالات کے تناظر اور کسی پریشانی سے بچنے کے لئے کہا کہ ہماری دعا تو بس رسمی تھی، اس سے بھلا آگ کیسے لگ سکتی تھی، تاہم اس کا منتظم جو ہندو تھا بضد رہا کہ ہمیں کامل یقین ہے کہ آگ انکی بددعا ہی سے لگی ہے، جو بھگوان پر ایمان رکھتے تھے وہ پر اعتماد تھے، جن کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمان کی ہر دعا قبول کرتا ہے وہ ماننے سے انکاری تھے کہ آگ انکی دعا سے لگی ہے۔
یہی مثال ہماری سیاسی قیادت پر لازم آتی ہے کہ خود کو مقبول ترین سمجھنے والے قائدین بھی اعتماد کے فقدان کا شکار رہے ہیں اپنی سیاسی صلاحیتوں پر اعتماد نہ ہونے کی بدولت وہ غیر سیاسی قوتوں کا کندھا استعمال کرنے پر نازاں رہے اور عوامی اجتماعات میں بھی انکی تعریف اور توصیف فرماتے رہے۔
سب سے مقبول سمجھے جانے والے قائد عوام الیکشن میں کامیابی کے بعد سیاسی اعتماد کی محرومی کی بنا پر مخالف سیاسی جماعت کو اکثریت کے باوجود اقتدار حوالہ کرنے سے گریزاں رہے حتی ٰ کہ سقوط ڈھاکہ ہوگیا، ہر چند دیگر اسباب بھی تھے، سیاسی میدان میں مقابلہ کرتے تو یقیناََ حالات مختلف ہوتے۔ قائد عوام سے دوسری حماقت نجانے کس سیاسی اعتماد کے فقدان کے سبب ہوئی کہ انھوں نے ایک جونیئر آفیسر کو چیف آف آرمی سٹاف بنا دیا، سینئر سے انھیں کون سا خوف تھا، میرٹ کی پامالی انھوں نے کیونکر کی، راوی یہ بتانے سے قاصر ہے اس فیصلہ کی ان کے علاوہ قوم نے بھی بھاری قیمت ادا کی ہے اگر وہ میرٹ پر فیصلہ کرتے تو وہ سیاسی راج کرتے۔
سیاسی قیادتوں میں باہم اعتماد کے فقدان کی نئی شکل آئی جے آئی کی صورت میں برآمد ہوئی، اس نئے سیاسی اتحاد نے" بڑوں کی چھتری" تلے پناہ لی بڑے بڑے زیرک سیاست دان اس منفی پروپیگنڈہ کی رو میں بہہ گئے جو عوامی سیاسی جماعت کے حوالہ سے کیا گیا تھا، بعد ازاں حالات نے ثابت کیا کہ انکا فیصلہ غلط تھا۔
آرمی چیف کی میرٹ سے ہٹ تقرری کی جو غلطی مسٹر بھٹو نے کی، اسی کو شریف خاندان نے دہرایا اور جلا وطنی کی صورت میں سزا بھی پائی، سیاسی اعتماد کے فقدان اور خوف کا نیا روپ اس وقت سامنے آیا کہ زرداری خاندان کے بیٹے کے ساتھ بھٹو کا لاحقہ لگا کرسیاسی پذیرائی حاصل کرنے کی ناکام کاوش کی گئی جس سے بھٹو مرحوم کی توقیر کو بھی گذند پہنچی۔ بھٹو کے پوتے اب سیاسی میدان میں اتر چکے ہیں۔ سیاسی تاریخ میں ایک لمحہ " میثاق جمہوریت" کا ضرور آیا جو بڑی جماعتوں کی قیادتوں کے مابین سیاسی اعتماد کا مظہر تھا مگر محترمہ کی شہادت سے یہ معاہدہ پروان نہ چڑھ سکا اور پالیمان کی توقیر، ایک جمہوری کلچر کے فروغ کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
ناقدین کا خیال ہے کہ جمہوری اور پارلیمانی نظام کو ہائی بریڈ بنانے میں سب سے منفی کردار کپتان کا ہے، جس مقبولیت اور اعتماد سے انھوں نے نئے جذبہ کے ساتھ پورے سیاسی اور سماجی کلچر کی تبدیلی کے لئے اٹھان بھری وہ اپنی مثال آپ تھی، مگر یہ بھی اُس راہ پر چل نکلے، جس کا راستہ غیر جمہوری پگڈنڈی کی طرف جاتا تھا، ان کے سیاسی عدم اعتماد نے انھیں سیاسی لحاظ سے بھی تنہا کر دیا، پارلیمان کی مضبوطی کے لئے جو جدو جہد وہ سیاسی قیادت سے مل کر کر سکتے تھے انھوں نے انھیں زیر کرنے کے لئے غیر سیاسی عناصر پر غیر ضروری اعتماد کرکے ایک بار پھر اس تاثر کو پختہ کر دیا کہ جمہوریت " بڑے گھر " کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتی، حد تو یہ وہ اس ڈکٹیشن کا تذکرہ برملا کرتے جو اُس وقت کی عسکری قیادت سے لیتے، دوسراجرم ان سے یہ سر زدہوا کہ انھوں نے اس خوف سے کہ کہیں پنجاب جیسے بڑے صوبہ میں ان کا سیاسی مخالف زیادہ مضبوط نہ ہو جائے، بڑے صوبہ کی کمان ایک ایسے فرد کے حوالہ کی جو انتہائی غیر معروف تھے جس پر انھیں اپنی جماعت سے تنقید کا سامنا رہا۔
کپتان کی ہٹ دھرمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پارلیمنٹ ہائی بریڈ سسٹم کے سامنے کمزور دکھائی دیتی ہے، جو عوام کی مشکلات سے دانستہ لا علم ہے، اس کے اراکین بھی پبلک سے لا تعلق نظر آتے ہیں، مہنگائی، بے روزگاری، ملازمین، کسانوں کی آہ و بکا بھی انھیں سنائی نہیں دیتی۔
سیاسی اعتماد کے فقدان کا عالم ہے کہ صوبہ پنجاب طویل عرصہ سے بنیادی جمہوریت کے حق سے محروم ہے، لوکل باڈی کے انتخابات کا انعقادنجانے کس خوف سے التوا کا شکار ہے، سیاسی اعتماد کے فقدان کی ایک صورت یہ بھی کہ خاندانوں سے باہر کسی کو زمام کار دینے سے ڈر سا لگنے لگا ہے جو عام ورکرز پر عدم اعتماد ہے، ہائی بریڈ سسٹم کا ہی فیض ہے، لگتا ہے کہ سیاسی زمانہ کہیں رک گیا ہے، تانے بانے کہاں ملتے ہیں فیصلے کہاں ہوتے ہیں عیاں ہو رہا ہے، عوامی سطح پر مگر ایک مایوسی ہے۔
اس ریاست کی بقا ایک مضبوط پارلیمانی نظام میں ہے کوئی نیا تجربہ اس اتحاد کو پارہ پارہ کر دے گا، جو ایک متفقہ آئین کی بدولت ہے، ماضی گواہ ہے کہ سیاسی قیادتوں نے خاصدست شفقت " کے نیچے کام تو کیا ہے مگر عوام کو کبھی نظر انداز نہیں کیا، اب تو ارباب اختیار کی بے بسی چھپائے نہیں چھپ رہی ہے۔
قومی ڈائیلاگ کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے حافظ نعیم الرحمان امیر جماعت اسلامی دعوت سیاسی جماعتوں کو دے چکے، سچ یہ ہے کہ سیاسی قیادتوں کے باہم عدم اعتماد نے اُس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ عام فرد کا جمہوریت سے اعتماد اٹھ گیا، انکی حالت انڈیا کے اس امام مسجد کی سی ہے، جو دعاؤں کو شراب خانہ کی تباہی کی وجہ نہیں سمجھتے دوسری جانب غیر سیاسی قوتوں کے اعتماد کا یہ عالم کہ مارشل لاؤں کے نفاذ کے باوجود جمہوریت کی خرابی کی وجہ وہ سیاسی قیادتوں کا باہمی عدم اعتماد اور ان کی خرافات کوقرار دیتے ہیں۔

