سستی موت کے سوداگر

ادویات فروخت کرنے والے ساہو کار لواحقین کے جذبات کو نجانے سمجھنے سے قاصر کیوں ہیں، جن کا مریض بستر مرگ پر ہو، لیکن وہ بلیک میں زندگی بچانے والی دوائی خریدنے پر مجبور ہو ایسے دوکانداراپنی چالاکی کا ملبہ بھی ڈاکٹرز پر ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ڈاکٹرز کے علم میں بھی ہے کہ یہ دوائی مارکیٹ میں دستیاب نہیں پھر بھی لکھے جاتے ہیں، لواحقین دل پر پتھر رکھ کر انکی بات سنتے اور اپنی جیب کی جانب دیکھتے ہیں، ایک طرف آہیں بھرتا مریض دوسری طرف مہنگی ادویات اور ان کا بلیک مارکیٹ سے خرید کرنا بڑے دکھ سے کم نہیں۔ ریٹیلرز سے بہتر کون جانتا ہے کہ جان بچانے والی دوائیوں کی قلت پیدا کرنا کس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
راقم کے ایک عزیز شعبہ طب سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں فارمیسی، لیبارٹری سے لے کر وراڈ ز اور آپریشن تھیٹر تک "مافیاز" کا ایک جہاں آباد ہے، ان کا اصلی نشانہ سادہ لوح مریض ہوتے ہیں، جن کی جیبوں پر ہاتھ صاف کئے جاتے ہیں، ان کے ہاتھ اتنے لمبے ہوتے ہیں کہ ان پر ہاتھ ڈالنے والوں کو سو بار سوچنا پڑتا ہے، ان پر ایسے ایسے "جید حضرات" کا دست شفقت ہوتا ہے، جن کے دم سے پرائیویٹ سیکٹرکی رونقیں ہمیشہ سے بحال رہی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پوری دنیا میں ڈاکٹرز کا کام مرض کی تشخیص کرنا ہے جبکہ دوائی تجویز کرنا فارماسسٹ کا کام ہے، ہمارے ہاں بھی ڈاکٹرز وہی دوائی تجویز کرتے ہیں، جسکی مارکیٹینگ ڈاکٹرز کی وساطت سے فارماسسٹ کرتا ہے، ڈاکٹرز کی "سہولت کاری"کا جو فریضہ اپنی کمپنی کے بہترین مفاد میں وہ انجام دیتا ہے، اسکی"فیوض و برکات" بہت سی اشکال میں ڈکٹرز حضرات سمیٹتے ہیں، اس کار ستانی سے جب عوام پوری طرح واقف ہیں تو سرکار ایسی "واردات" سے بھلاکیسے لاعلم ہو سکتی ہے۔
چند سال قبل ڈرگ ایکٹ پر عمل درآمد کے لئے طے پایا کہ عالمی معیار کے مطابق فارمیسی، ہول سیل، ریٹیلرز، مینوفیکچرز کا نظام مرتب کیا جائے گا، اس پر ڈرگ مافیا نے ہڑتال کرکے انسانی فلاح کے اس منصوبہ کو خاک میں ملا دیا، شنید تھی کہ اس عمل سے اتائی مافیاز اور غیر معیاری ادویات کی پیدا وار، فروخت کا خاتمہ ہونا تھا، اعلی تعلیم یافتہ افراد کو حساس کاروبار سے منسلک کرنا اور، مضر صحت ادویات کی فروخت ختم کرنا تھا مگر سرکار کو ایسی ریفارمز سے پیچھے ہٹنا پڑا۔
ہمارے دیہاتی کلچر میں آج بھی ایسے منفرد طبیب موجود ہیں، جن کے خیال میں ہر بیماری کا علاج ڈرپ اور طاقت کی گولیاں ہیں، اپنی ناقص پریکٹس کا بدلہ وہ اس انداز میں مریضوں سے لیتے ہیں کہ صحت کے ساتھ جمع پونجی بھی جاتی رہتی ہے۔
صحت کے ادارے کسی المیہ کے بعد ہی متحرک ہوتے ہیں، حال ہی میں ایک انجکشن کے لگانے سے کئی افراد کی بینائی جانے پر علم ہوا کہ اس کا سپلائر غیر معیاری آٹیم فروخت کر رہا تھا، اس کی زد میں ڈرگ انسپکٹرز بھی آگئے ہیں، یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ چھوٹے قصبات، ٹاونز میں ڈرگ انسپکٹرز کی آمد کی اطلاع پہلے ہو جاتی ہے، پھر بھی میڈیکل سٹورز مالکان آمد پر سٹور بند کرکے بھاگ جاتے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر دو صورتوں میں جرمانہ یا چالان ہوگا، ڈرک انسپکٹر یہ طریقہ اس لئے اپناتے ہیں تاکہ وہ اپنی مٹھی گرم کر سکیں۔
ہمارے ہاں مہنگی ادویات ہونے کی بڑی وجہ خام مال کا درآمد کر نا ہے، اس کا تعلق چونکہ ڈالر سے ہوتا ہے، اس لئے اس کے اثرات ادویہ کی قیمت پر بھی پڑتے ہیں، بعض غیر ملکی ادویہ ساز کمپنیاں مقامی خام مال استعمال کرنے کے باوجود ڈالر کی نسبت سے دوائی کی قیمت کا تعین کرتی ہیں، غیر ملکی کمپنیوں کی تعداد بتدریج کم ہورہی ہے، اسکی وجہ سرکار کی پالیسایاں اور یہاں ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کا نہ ہونا ہے، کہاجاتا ہے کہ ڈرگ ریگولیٹر اتھارٹی کے پاس ریسرچ فنڈ ہوتا ہے، یہ ادویہ ساز کمپنییز اپنے منافع کا ایک فیصد ڈریپ کو جمع کرواتی ہیں، تاکہ ملک میں ادویات پر تحقیق کی جائے اور زیادہ سے زیادہ لیبارٹیز بنائی جائیں، ہمسایہ ملک میں سستی ادویات کی بڑی وجہ مقامی خام مال کا استعمال اور ادویات کی تحقیق کے لئے منظم ادارو ں کا وجود ہے، غیر رجسٹرڈ ادویات کا نہ ہونا بھی ہے۔
پولیس کے مطابق پنجاب میں شوگر کے مریضوں کی آنکھ کی بینائی متاثر ہونے کی وجہ مبینہ جعلی ٹیکہ تھا، اگرچہ جعل ساز ادارہ کے مالک کے خلاف قانون حرکت میں آگیا ہے، مگر ایک ٹیکہ انکی زندگی کے لئے مکمل روگ بن چکا ہے جو پہلے بھی موذی بیماری میں مبتلا ہیں۔
ہرچند یہاں مقامی کمپنی ادویات کے جنیرک بناتی ہیں مگر وہ غیر معیاری ہوتے ہیں، پسماندہ علاقوں میں آپ کو تھوک کے حساب سے ایسے غیر معروف برینڈ ملتے ہیں، ان کے استعمال سے کسی انسانی زندگی کو جب تک نقصان نہیں پہنچتا ہے تو متعلقہ ادارے حرکت میں نہیں آتے ہیں، بڑھتی ہوئی آبادی میڈیکل سٹورز، ہول سیلرز، ڈسٹری بیوٹرز کی تعداد بڑھنے کے باوجود ڈرگ انسپکٹرز کی آسامیوں میں اس شرح کے حساب سے اضافہ نہیں ہوا، اخبارات میں ناقص ادویات سے متاثرہ افراد کے کیس رپورٹ ہوتے رہتے ہیں، مگر قرار واقعی سزا نہ ملنے کی وجہ سے ایسے مافیاز زیادہ دیدہ دلیری سے کام کرتے رہتے ہیں کیونکہ اس نوع کی ادویات میں منافع کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔
عوام شکوہ کناں ہیں کہ دمہ، کینسر، دل، شوگر کی ادویات کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں، اسکی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ ہول سیلرز، دواسازجس دوائی کی قیمت بڑھانا چاہتے ہیں اسکی قلت پیدا کر دیتے ہیں، وہ بلیک میں ملتی رہتی ہے، جب عوام کی طرف سے اسکی دستیابی کا مطالبہ سامنے آتا ہے، تو کمپنیز کی جانب سے ڈریپ کو قلت شدہ دوا کی قیمت بڑھانے کے لئے درخواست گزار کی جاتی ہے جونہی قیمت بڑھتی ہے دوا مارکیٹ میں بآسانی دستیاب ہوجاتی ہے۔
دیار غیر کے برعکس ہمارے ہاں ہر میڈکل پریکٹیشنر بغیر نسخہ کے علاج کے لئے مریض کو دوا دیتا ہے، اس لئے معمولی قسم کے برینڈ کی ادویات کونٹرز پر فروخت ہوتی ہیں، آنکھوں کے انجکشن کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، لاکھ روپئے کااصلی ٹیکہ متوسط طبقہ کی پہنچ سے باہر ہے، اس لئے مریضوں نے علاج کے لئے سستا انجکشن لیا۔
ڈریپ کے ریسرچ فنڈمیں کمپنیز کی جانب سے دی گئی رقم کے باوجود ادویات کے لئے ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کا فروغ نہ پانا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اب تو یہ روایت پختہ ہوتی جارہی ہے جب تلک کوئی سانحہ وقوع پذیر نہیں ہوتا متعلقہ ادارے اصلاح احوال کے لئے متحرک نہیں ہوتے منافع خوروں اور کمیشن مافیاز کی ہوس نے مریضوں کی موت کو اتنا سستا کر دیا ہے کہ اب تو انسانیت بھی شرما جاتی ہے۔

