سماجی خرافات

بعض یورپی ممالک میں تارکین وطن کے خلاف مقامی باشندے سراپا احتجاج ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انکی موجودگی کی وجہ سے ان کا کلچر اور رہن سہن متاثر ہورہا ہے، عینی شاہدین کہتے ہیں کہ وہ علاقہ جات جہاں ایشیائی خاندان مقیم ہیں وہاں ایسا ماحول بنا رکھا ہے کہ مقامی خاندان ان گلی، محلوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں، کہا جاتا ہے کہ مانچسٹر، برہنگم اور دیگر مقامات میں ان کی سرگرمیوں کو دیکھ یہ گماں گزرتا ہے کہ یہ علاقہ جات اب"منی پاکستان یا مشرقی پنجاب" جیسے ہیں، دیسی کھانے، حلوہ پوری، دہی بھلے جیسی پکوان ان سے اٹھتی خوشبو مشرقی کلچر کا پتہ دیتی ہیں۔ منفی پہلو کے طور پر بھنگڑا اور تیز آواز میں میوزک چلانا بھی ہے۔
اپنی تہذیب کو پروان چڑھانے کا حق تو ہر سماج کو ہے مگر اسکی آڑ میں کسی کا سکون بربادکرنے اور سوسائٹی کی روایات کی خلاف ورزی کی اجازت تو نہیں دی جاسکتی یہ بھی اطلاعات ہیں کہ مذکورہ علاقہ جات میں ایشیائی باشندے صفائی کا اس طرح خیال نہیں کرتے جس طرح ا س معاشرہ کا چلن ہے، شادی بیاہ کے موقع پر، بینڈ باجا، شورو غوغاگوروں کے سکون میں ہل من مزید کی سی کیفیت پیدا کرتاہے، تین نسلوں سے مقیم اس نسل نو علم نہیں من پسند رویہ اور کلچر ان نوجوانان کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے جو اعلی تعلیم یا روزگار کے لئے لندن سدھارنے کا خواب دیکھ رہے ہیں، شنید ہے کہ گوروں کے رنگ میں بھنگ ڈالنے میں مذہبی طبقہ بھی پیچھے نہیں رہا، اس نے لندن کی مساجد سے بھی اسی طرح کے جلوس برآمد کروا لئے ہیں، جو ہمارے ہاں مذہبی اور فقہی ایام کے موقع پر شاہراہوں پر مارچ کرتے ہیں، رنگ برنگے مسلکی عماموں کی جھلک وہاں بھی دکھائی دیتی ہے، غیر مسلموں تک اتحاد اور اتفاق کا جو پیغام پہنچنا تھا، اس میں اصل رکاوٹ یہی لوگ ہیں، اب تو ہر "برینڈ" کا پیر بھی سیزن لگانے کے لئے یوکے کا رخ کرتا ہے یہی وہ بگاڑ ہے جس نے مقامی آبادی کو احتجاج پر مجبور کیا ہے۔ اس رویہ کے منفی اثرات اب ویزہ پالیسی پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔
سماجی خرافات میں ہمارا بھی کوئی ثانی نہیں، تعلیم یافتہ کراچی میں درودیوار پر "پان کی پیک" اس شہر کے باسیوں کے رویہ کا پتہ دیتی ہے، کم وبیش یہی حال خیبر پختون خواہ میں"بیٹرہ کی پیک" کا ہے، پبلک مقامات کی بات کی جائے، ان کی ناقص صفائی، گندگی کے ڈھیر، جگہ جگہ ریپرز کی بھر مار قومی مزاج کی نشان دہی کرتا ہے، المیہ تو یہ تعلیمی اداروں کی پکنک پارٹی کے بعد جو منظر گراسی پلاٹس کا ہوتا ہے، جس بے دردری سے اس کو روندا جاتا ہے، وہاں نصب بنچوں اور دیگر ا شیاء کی جو درگت بنائی جاتی ہے، وہ تعلیمی اداروں میں دی گئی تربیت کو نمایاں کرتی ہے۔
عوام الناس کے سماجی رویئے اسکی تہذیب، رہن سہن، عادات و اطوار اور اخلاقیات کا عکاس ہوتے ہیں، وقت کے ساتھ تبدیلی وقت کی ضرورت بن جاتی ہے، جبکہ بہت سے مسائل کا تعلق عوامی رویہ جات سے بھی ہوتا ہے، ہسپتالوں، شفاخانوں، ائر پورٹس، ریلوے اسٹیشن، کچہریوں میں عوامی بھیڑ میں بڑا عمل دخل ہماری روایات کا ہے، حج عمرہ کی ادائیگی کے موقع پر آپ کو ائر پورٹس پر تل دھرنے کی جگہ نہیں ملے گی، عازمین سے دگنی تعداد ان افراد کی ہوگی، جو انھیں الوداع کرنے آتے ہیں، اس جم غفیر سے ائر پورٹ انتظامیہ کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، زائرین کی "دلی محبت" میں آنے والے اس سے بے خبر ہوتے ہیں، باوجود اس کے انھیں علم ہے ان کو انتظار گاہ تک جانے اور اسمیں بیٹھنے کی اجازت ہے، لیکن اس بھیڑ میں نہ تو کسی مسافر کو بیٹھنے کی جگہ ملتی ہے نہ ہی واش روم تک رسائی ہوتی ہے، چھوٹے بچوں کے گم ہونے کے واقعات بھی پیش آتے ہیں، زائرین اور عام مسافروں کے ساتھ فوج ظفر موج کا آنا فرض کر لیا جاتا ہے دور دراز سے آنے والوں کو ٹر انسپورٹ کا اضافی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔
یہی چلن ہسپتالوں میں دیکھا گیا ہے، ایک مریض کے ساتھ "ہمدردوں" کی ایک فوج ہوتی ہے، جو ہسپتال انتظامیہ کے لئے بوجھ بن جاتی ہے، کچھ رات کی تاریکی میں کسی پلاٹ یا عمارت کے کونے کھدرے میں سو جاتے ہیں، نو سر باز فائدہ اٹھا کر انکی قیمتی اشیاء کو چرا لیتے ہیں، اگر ضابطہ کے مطابق مریض کے پاس ایک اٹینڈنٹ ہو تو ہسپتالوں میں بھاری بھر رش کم ہو سکتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے جب کسی مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے، تو گروہ کی صورت میں آئے لواحقین نہ صرف ڈاکٹرز پر حملہ آور ہوتے ہیں بلکہ وہ ہسپتال کے اثاثوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔
ریلوے اسٹیشن پر بھی ایسی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے، ایک مسافر کو الوداع کہنے والے جھتے کی صورت میں آتے ہیں، جس سے سیکورٹی کے علاوہ پارکنگ اور صفائی کے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں، بعض اوقات پینے کے پانی کی کمی کا بھی سامنا کرنا پڑتاہے مردو زن کو واش روم کے استعمال میں مشکلات پیش آتی ہیں، کچھ جھگڑالو قسم کے افراد اس موقع پر انتظامیہ کے خلاف ہنگامہ آرائی کرتے ہیں، ایک نا خوشگوار صورت حال سے نیامسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے، مسافر بیچارہ نئی"پسوڑی" میں پڑ جاتا ہے۔ عدالتوں میں ہنگامہ آرائی اور مخالفین کے ساتھ مارکٹائی کی بڑی وجہ ملزم سے گروہ کی شکل میں آنے والے ملاقاتیوں کی ہے۔
بہت سے مسائل میں انتظامیہ سے زیادہ عوامی رویوں کا ہاتھ ہے، سماجی خرافات کی روک تھام اوراصلاح کے لئے عوامی سطح پر شعور پیدا کرکے، ائر پورٹ، ریلوے اسٹیشن، ہسپتالوں، عدالتوں میں"محبت، ہمدردی"کے نام پر جو جم غفیر ہوتا ہے، اس میں بہت حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔
فی زمانہ ڈیجیٹل کا ہے، اس کی وساطت سے ہر طرح کی وڈیوز بنائی اور بھیجی جاسکتی ہے، الوداع ہونے والوں سے گھر بیٹھ کر خیریت دریافت کی جاسکتی ہے، مریض سے فون پر بات کرکے اسکی عیادت کی جاسکتی ہے، جیل حکام کی اجازت سے ملزم سے ملاقات کی جاسکتی ہے سماجی خرافات ممکن ہے تارکین وطن کے لئے شغل ہوں مگر اس سے کیمونٹی کی بھی بدنامی ہوتی ہے، ایسا نہ ہو کہ تنگ آمد بجنگ آمد کے طور وہ ممالک ایسے قوانین بنا دیں کہ ان کا داخلہ ہی بند ہو جائے، خرافات سے نجات پا کر گوروں کے طرز زندگی کو آسودہ رہنے دیا جائے اور ایسارویہ اپنا یا جائے کہ مقامی باشندے آپ کے کلچر، تہذیب، روایات اور مذہب سے متاثر ہو کر اس میں شمولیت کی خواہش کریں۔

