پیارے تایا چوہدری محمد اسماعیل

پیارے دادا چوہدری اللہ داد خاں جٹ کوروٹانہ نے تحصیل کھاریاں کے گاؤں عموآنہ سے اپنے خاندان کے ساتھ لائل پور ہجرت کی تو چک نمبر233 گ ب ہری سنگھ میں پڑاؤ ڈالا، گمان ہے کہ اس وقت بہت سے سکھ، ہندو، عیسائی ہجرت کرکے ہندوستان چلے گئے، وہاں سے مہاجر آکر مذکورہ دیہہ میں آباد ہوئے، کسان گھرانے سے تعلق کی بنیاد پر گاؤں کی نمبر داری ہمارے خاندان کے حصہ میں آگئی، دادا محترم کے بھائی چوہدری شاہ محمد نمبر دار بنے، بعد ازاں دادا جی نے دوسری ہجرت اپنے تین بیٹوں کے ساتھ اس وقت ضلع (ملتان) اب وہاڑی کے گاؤں چک نمبر190/W.B کی، بڑے بیٹے چوہدری اسماعیل نے برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کی، درمیانے بیٹے درس و تدریس سے منسلک ہوئے، جبکہ چھوٹے بیٹے محمد اصغر راقم کے والد گرامی نے پاکستان ائر فوس جوائن کی، دادا کے بھائیوں نے مشترکہ طور پر زمین خرید کی اور اس میں باغ لگایا۔
تایا محمد اسماعیل نے دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا اور وہ برما، رنگون بھی گئے، وہ بھتیجوں، نواسوں، پوتوں کو "جوان" کہہ کر پکارتے، ہم نے پوچھا آپ نے فوج میں نوکری کیسے حاصل کی، وہ گویا ہوئے کہ کسی کی وساطت سے پتہ چلا کہ فوج میں بھرتی ہورہی ہے، تو میں بھی سلیکشن سنٹر چلا گیا میری تعلیم میٹرک تھی، اس دور میں بہت کم لڑکے میٹرک پاس تھے، یوں مجھے بھرتی کرلیا گیا، دلچسپ واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ ایک میجر میرا جسمانی معائنہ کر رہا تھا، تو مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے پنجابی میں بولا "جوان گھردے دانے مک گئے نے تے بھرتی ہون آگئے او" (گندم کے دانے مراد وسائل ختم ہوگئے ہیں تو بھرتی کے لئے آگئے ہو) تایا جی مرحوم نے کہا کہ میں نے بھی پنجابی میں جواب دیا، صاحب "پیلا تواڈے مک گئے تے توسی بھرتی ہوگئے او ہون ساڈی واری آگئی اے" (تایا جی نے جواب دیا پہلے آپ کے ختم ہوئے تو آپ بھرتی ہوئے اب میں آگیا ہوں) بھرتی کے موقع پر بھی انھوں نے کسی مصلحت سے کام نہیں لیا، سیدھی منہ پر بات کر دی، تایا جی صوبیدار کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے، ہم نے فرمائش کی اپنی وردی پہن کر دکھائیں انھوں نے اپنے صندوق میں سنبھال کر رکھی تھی زیب تن کی، اس پر بہت سے میڈل آویزاں تھے، ان کے پاس فس (ترکی) ٹوپی بھی تھی اکثر جناح کیپ پہنتے۔
تایا جی نے ریٹائرڈ منٹ کے بعد کاشتکاری کی، زیادہ وقت باغ کی نگہبانی میں گزرتا، مال مویشی بھی پال رکھے تھے، بہت محنتی، نفیس طبیعت کے مالک اورصاحب مطالعہ تھے، ان کا معمول تھا کہ دوپہر کو گھر آکر آرام کرتے اور روزانہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی کتاب کا مطالعہ کرتے، انکی لائبریری میں سید مودودی کا تفہیم القران اور سیرت ﷺ پر مبنی سیٹ"نقوش رسول" ﷺ ودیگر کتب تھیں، گاؤں میں صرف ہمارے گھر ہی اخبار آتا، اس لئے تایا جی باقاعدگی سے اس کا مطالعہ بھی کرتے۔
چائنا کی بائیسکل رکھتے، اس وقت یہ امارت کی علامت تھی، اپنی پنشن لینے پوسٹ آفس جہانیاں جاتے، یہی قریب ڈاک خانہ تھا، انکی شادی فیصل آباد کی لنگڑیال فیملی میں ہوئی، بہت ہی کم سسرال جاتے ہم نے انھیں دیکھا، زیادہ تر تائی اماں جی ہی خوشی اور غمی میں شرکت کرتی تھیں۔
تایا جی جب پنشن لینے جاتے تو بن سنور کر جاتے، تائی اماں کہتی، آج "لاڑا" بن کر پنشن لینے جارہا ہے، تایا جی وآپسی پر اپنی شاپنگ کرتے، نیا رومال، نیا جوتا، نئی بنیان، نیا سوٹ اور کھانے کی کچھ چیزیں خرید کرتے روزانہ شام کی چائے پینا معمول تھا، انتہائی صفائی پسند تھے، ہمیشہ اجلا لباس پہنتے، راسخ العقیدہ تھے، پانچ وقت کی نماز پڑھتے، راقم نے انھیں شدید گرمی اور روزہ کی حالت میں پٹسن کی بوری بھگو اور اوڑھ کر بیلوں کے پیچھے"پھلے" سے گندم نکالتے دیکھا ہے۔ انکے چھوٹے فرزند محمد اکرام مرحوم نے اپنے والدین کو حج کروایا، اس وقت صرف کراچی سے حج فلائٹ جاتی تھی، وہ گاؤں سے ایک جلوس کی شکل میں الوداع ہوئے، اس وقت یہی کلچر روا تھا، پھر خانیوال سے ٹرین پر سوار ہو کر کراچی حاجی کیمپ پہنچے۔ بلا کے دیانت دار تھے، ایک دفعہ علاقہ میں ایک بڑی واردات ہوگئی، معاملہ پنچائت میں گیا، وہاں طے ہوا کہ اگر ہمارے تایا چوہدری اسماعیل گواہی دیں تو قبول کی جائے گی۔ وہ گاؤں کی زکوۃ کمیٹی کے سربراہ بھی مقرر کئے گئے۔
انگریز دور میں معمولی درخواست کی بھی شنوائی ہوتی، جس طرح گاؤں کا کلچر ہوتا کہ خواہ مخواہ کی مخاصمت رکھی جاتی ہے، کچھ افراد نے دادا کے ساتھ ایسا کیا تو تایا جی نے اپنے کمپنی کمانڈر کو درخواست گزار کی، جو تھانہ مترو پہنچ گئی، تھانے دار نے ان لوگوں کو بلا بھیجا جن کے نام درخواست میں تھے کہ وہ گڑھا موڑ حاضر ہوں، یہ اس وقت بہت ہی معمولی سا مقام تھا، تھا نیدار نے ان سب کی سرزنش کی اور ہدایت کی کہ آئندہ کبھی شکایت نہ ملے۔
کچھ مدت کے لئے تایا جی نے نواب آف بہاولپور کے ہاں ملازمت کی، میں نے گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی بہاولپور میں ملازمت کا آغاز کیا، ویک اینڈ پر گاؤں آیا، تو پوچھنے لگے، جوان تیرا کالج کہاں ہے، میں نے کہا۔ سٹیلائٹ ٹاؤن میں، کہنے لگے وہ کدھر ہے، بتایا چوک حمایاتیاں کے پاس، کہا بیٹھ جاو، تمھیں ایک بات بتاتا ہوں، جب میں نواب کے پاس ملازم تھا، تو اس کا منشی مجھے کہتا ہے، کہ چوہدری صاحب تمھارے نام دو مربعے لگوا دیتا ہوں، ہزاروں ایکٹر ویران ہی پڑی ہے تم بھی کسان ہو، اسے آباد کر لینا، کیا یاد کروگے، تایا جی کہتے ہیں میں نے جواب دیا، اللہ نے ہمیں اپنی زمین دی ہے، میرا یہ حق نہیں، کہ مجھے ملے میں نے اس سے معذرت کرلی، کمال کے لوگ تھے۔
تایا جی نے دوسرے گاؤں میں زمین خریدی جو اپنے گاؤں سے قریباً پندرہ کلومیٹر کے فاصلہ پر تھی، کبھی کبھار سائیکل پر اسکا جائزہ لینے جاتے، بعدا ازاں ان کے بیٹے نے انھیں 50 سی سی موٹر بائیکل لے کر دی بڑھاپے میں اکثر ڈرائیوکو ساتھ لے کر زمین پر جاتے۔
صدقہ جاریہ کے لئے اپنے گاؤں میں ذاتی کاوش سے بچیوں کا پرائمری سکول منظور کروایا، انکے بھائی محمد اشرف نے اس کام کو آگے بڑھایا، زمین سکول کے نام کروائی اب یہ ہائی سکول کادرجہ پاچکا ہے۔
اپنی حیاتی میں انھیں اپنے بڑے بیٹے محمد اکبرکی وفات کا دکھ اٹھانا پڑا، ا نھوں نے اپنے پوتے سہیل اکبر کے نام ایک خط لکھا جو اس وقت پاکستان ائر فورس میں خدمات انجام دے رہا تھا، بہت ہی جذباتی انداز میں رقم کیا گیا خط راقم کے پاس آج بھی موجود ہے ان کے احباب قریبی چک نمبر 106/W.B کے ملک بشیر ہیں تایا جی ان کے پاس اکثر جاتے، چک نمبر192ڈبلیو بی میں چوہدری محمد فیض مرحوم ان سے ملنے اکثر گھر آتے، گاؤں میں کوروٹانہ برادری کے چوہدری میاں خاں، چوہدری محمد عنایت، چوہدری فضل احمد سے انکی یاد اللہ تھی۔
خاموش طبع، سنجیدہ، انتہائی خوبرو اور قد آور شخصیت تھے، انھوں نے 84 سال عمر پائی ساری حیاتی مگر کوشش کی کہ ان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے، اللہ تعالیٰ انکی مغفرت کرے وہ ہماری فیملی کا اثاثہ تھے۔

