پیارے ماموں، نذیر حسین

میرے نانا چوہدری محمد رمضان بڑے درویش صفت تھے، انکی تعلیم واجبی سی تھی اخبار کا مطالعہ مگر وہ کرتے، والدہ مرحومہ بتاتی تھیں جب مال و مویشی کو نہالنے اور چرانے نہر پر جاتے تو اخبار ساتھ لے جاتے، گجرات سے ہجرت کے بعد جس گاؤں میں بسیرا کیا، اسکی نمبر داری ان کے بڑے بھائی چوہدری شاہ محمد کے پاس تھی، اللہ تعالی نے نانا جی کو تین بیٹوں اور پانچ بیٹیوں سے نوازا تھا، دو بیٹیاں اولاد کی نعمت سے محروم رہیں۔
بڑا بیٹا نذیر حسین، درمیانہ بشیر احمد عرف بابو، جبکہ چھوٹا رشید احمد تھے، تینوں نے انٹر تک تعلیم حاصل کی، انھیں گورنمنٹ ملازمت مل گئی، بڑے زرعی یونیوسٹی فیصل آباد (لائل پور) میں بھرتی ہوئے، بابو جی نے پاکستان ائیر فورس جائن کی، چھوٹے رشید احمد نے زرعی انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ سے ملازمت کا آغاز کیا، ہم سب بھانجے نذیر حسین کو "بڑے ماموں"کے نام سے پکارتے، انکی حیاتی بڑی دلچسپ تھی وہ نظم و ضبط کے بڑے پابند تھے۔
ابتداء ہی سے ان کا میلان مذہب کی طرف تھا، والدہ مرحومہ بتاتی کہ بچپن ہی سے نمازی تھے، اوائل عمر میں وہ سید مودودی کی فکر سے متاثر ہوئے، انھوں نے تفہیم القرآن کا مطالعہ ہی نہیں کیا بلکہ اس کو اَزبر کر لیا، ان کا معمول تھا کہ وہ دفتر جانے سے قبل مذکورہ تفسیر کا مطالعہ کرتے، نیز اردو ڈائجسٹ کے وہ مستقل قاری تھے۔
زرعی جامعہ لائل پور ان کے گھر سے قریباً پندرہ کلومیٹر تھی، اس وقت سائیکل کی سواری کا چلن عام تھا، ماموں اس پر دفتر آتے جاتے، کچہری بازار میں جھنڈے والی معروف دوکان پر ڈیوٹی سے فراغت کے بعد روزانہ جانا ان کا معمول تھا وہاں اخبار پڑھتے، چائے پیتے اور دوستوں سے گپ شپ کرتے، سودا سلف لے کر شام تک گھر آتے، ماسوائے ایمرجنسی کے سوا انھوں نے دفتر سے کبھی چھٹی نہ کی، جب تلک وہ گاؤں 233 گ۔ ب ہری سنگھ والا میں رہے، ہفتہ وار چھٹی کے روز وہ اپنے دوستوں کو گھر مدعو کرتے اور چائے کی محفل سجتی، ان کے دوستوں میں، خادم ڈوگر، محمد سلیم اور محمد اسماعیل عرف شاہ جی معروف تھے۔ محمد سلیم بعد ازاں کسی دوسرے شہر چلے گئے مگر شاہ جی انکی زندگی تک ساتھ رہے۔
ماموں جی کی ایک بہن تحصیل کھاریاں کے گاؤں کتوار رہتی، جبکہ دو ضلع وہاڑی کے گاؤں 190 ڈبلیوبی میں آباد تھیں، ماموں جی سالانہ ٹور پر ان سے ملنے آتے، ان کے درینہ دوست شاہ جی ہمیشہ ان کے ہمراہ ہوتے، اپنے قیام کے دوران وہ خوب سیر و تفریح کرتے زیادہ تر پیدل چلتے۔
اپنے عزیزوں میں ایک خاتون ایسی تھیں جن کا بھائی نہیں تھا، اُنکے والد نے مرتے وقت اپنی بیٹی کا ہاتھ ماموں کے ہاتھ میں دیا کہ آج کے بعد یہ بھی تیری بہن ہے تو نے اس کا خیال بھی اپنی بہنوں کی طرح رکھنا ہے، ماموں جان نے اس رشتہ اور تعلق کو بڑے اخلاص کے ساتھ عمر بھر نبھایا، وہ ماموں کے گھر ایسے ہی آتی تھیں جیسے انکی سگی بہنیں آتی ہیں، ماموں نذیر انھیں بھی اسی طرح احترام دیتے، انکی خوشی اور غمی میں برابر شریک رہے۔
ماموں جی کو نئے نوٹ جمع کرنے کا بھی شوق تھا، ان کے بکس میں یہ نوٹ ہر وقت موجود ہوتے، ماموں جی یونیورسٹی میں، بجٹ اور پنشن کے شعبہ سے وابستہ تھے، اپنے کام پر انھیں ملکہ حاصل تھا، اسی عادت کی بناء انھوں نے اپنی تنخواہ کے بھی ہیڈز بنا رکھے تھے، وہ ماہانہ کی بنیاد پر جوتوں، کپڑوں، ریفریشمنٹ، سودا سلف، حجامت بنوائی، سائیکل مرمت، سفری اخراجات، عزیز واقرباء کی مدد وغیرہ کی مد میں پیسے رکھ دیتے، ان کا بجٹ کبھی بھی خسارہ میں نہیں رہا، ان کے پاس بیک وقت نئے جوتے، کپڑے اور ان کے پیسے موجود ہوتے، انکی دوسری خوبی یہ تھی کہ وہ روزانہ کی بنیاد کر گھر کا خرچ لکھتے اور اس کا ریکارڈ بھی رکھتے، ایک دفعہ ہمارے اصرار پر انھوں نے بیس سال پرانہ کھاتا دکھایا جب بکرے کے گوشت کی قیمت محض چندآنے فی سیر تھی۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں قرآن و سنت کے علم سے نوازا تھا، نبی مہربانﷺ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کہ اگر ایک آیت بھی معلوم ہو تو دوسروں تک پہنچاؤ، بڑے ماموں نے اپنے گاؤں کی مسجد میں ہفتہ وار درس کا اہتمام کیا، اس کے بعد وہ شہر کی مختلف مساجد میں نماز جمعہ پڑھایا کرتے، کم وبیش تیس سال سے زائد عرصہ تک انھوں نے نماز جمعہ پڑھانے کی خدمت بلا معاوضہ انجام دی، ان کے خطبات کو بہت پسند کیا جاتا تھا، وہ جماعت اسلامی کے قرآنی حلقوں میں بھی درس دیتے رہے، ایک بار میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے نزدیک حدیث مبارکہ کی کونسی کتاب مستند ہے تو انھوں نے کہا میرے خیال میں موطا امام مالک کی کتاب سب سے بہتر ہے۔ ان کے گھر قیام کے دوران کبھی کبھار اسلامی مسائل کی بابت ہم ان سے نشست کرتے، وہ مذہبی اعتبار سے بڑے روشن خیال اور راسخ العقیدہ تھے۔
انکی شادی اپنے کزن کی بیٹی سے ہوئی، اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک بیٹے سے نوازا، ماموں کا تعلق بیٹے سے دوستانہ تھا ہمایوں زبیر کی فرمائش پر انھوں نے اسے بائیک لے کر دی، باپ بیٹے کے مابین پیسے لینے کی نوک جھلک مگر بڑی دلچسپ ہوتی، حج پر روانگی کے وقت یہ سعادت بھی میرے حصہ میں آئی، حاجی کیمپ لاہور تک میں ان کا ہم سفر رہا۔
اپنے آبائی گاؤں میں تعلیم کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے والدہ محترمہ بچوں سمیت انکے ہاں رہیں، ہماری بڑی بہن کو وہ روزانہ دکن سکول سمن آباد چھوڑتے، اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد کی نعمت دیر سے عطا کی، چھوٹے بھائی طارق اصغر کی ممانی سے انسیت تھی، ممانی نے اپنے ہاں رکھ لیا اور دوسرے بھائی عامر اصغر نے فیصل آباد میں جاب کے دوران ماموں کے ہاں قیام کیا، ہم تمام کزن جب بھی ان کے گھر جاتے تو وہ بڑے تاپاک سے ملتے، ملاقات پر وہ سب کا پوچھتے، ہماری محفل میں کبھی کبھی شور ہنگامہ بھی ہوتا مگر وہ اپنی دنیا میں مگن رہتے، مہینہ بھر قیام کے بعد جب رخصت لیتے تو اتنا کہتے اچھا آپ جارہے ہیں، سب کو سلام کہنا، ممانی اور ماموں کے ماتھے پر ہم کبھی شکن تک نہ دیکھی۔
خاندان میں وہ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے، عزیز و اقرباء اپنی امانتیں انکے پاس رکھواتے، فیملی میں بیوہ خواتین کا بطور خاص خیال رکھتے۔
جس طرح ہر دادا کا دوست اس کا پوتا ہوتا ہے اسی طرح ان کا پوتا ابراہیم بھی ان کا آخری دوست تھا، انھوں نے انتہائی ایمانداری سے اپنے فرائض منصبی انجام دیئے، اپنے دفتر میں بھی عزت کمائی۔ زرعی جامعہ سے ڈپٹی ڈائیریکٹر کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے تھے۔
85 سال سے زائد عمر میں وہ اس طرح رخصت ہوئے کہ ان کا روشن چہرہ گواہی دے رہا تھا، اللہ کی کتاب اور اسکے رسول ﷺ کی سیرت کا جو علم انھوں نے حاصل کیا، اپنی حیاتی میں دوسروں تک پہنچانے کی حتیٰ المقدور کاوش کی اور ایک کامیاب انسان کے طور اپنے رب کے حضور پیش ہوئے، جنازہ میں شریک ہر فرد اسکی گواہی دے رہا تھا، حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا۔

