پنجاب گورنمنٹ سرونٹس ہاوسنگ فاونڈیشن کے متاثرین کی فریاد

ہمیں ان تارکین وطن پر رشک آتا ہے، جو مغربی ممالک میں بآسانی گھر خرید کر سکتے ہیں، وہاں کی سرکار بنکوں کی وساطت سے انھیں مالی معاونت کی سہولت فراہم کرتی ہے، جو تارکین وطن پر گراں بھی نہیں گزرتا، بنک یا کسی بھی ایجنسی سے لی گئی رقم اقساط کی صورت میں ادا کرکے گھر کے مالک بن جاتے ہیں، یہ سہولت قریبا ً تمام ترقی یافتہ ممالک میں دستیاب ہے، ہمارے ہاں بھی روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند ہوا اس کا انجام مگرسب کے سامنے ہے، اسی طرز پر کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دینا، شہری اور دیہی علاقہ جات میں پانچ اور سات مرلہ سکیم کا اجراء بھی اسی کا تسلسل تھا، نیا پاکستان اپنا گھر سکیم، اپنا گھر اپنی چھت اس طرح کی دسیوں سکیمیں مختلف حکومتوں کی طرف سے متعارف کروائی جا چکی ہیں، باوجود اس کے ارض وطن میں کروڑں افراد گھر جیسی نعمت سے محروم ہیں، وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مغربی ممالک کی طرح شہریوں کومالی سہولت میسر نہیں جو تارکین وطن کو دیار غیر میں دستیاب ہے۔
ہرچند صوبائی اور وفاقی سطح پر ہاوسنگ کے شعبہ جات موجود ہیں مگر یہ شہر اور ٹاون میں عوام کو گھر فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں، سرکاری اور نیم سرکاری شعبہ جات حتیٰ کہ جامعات کی انتظامیہ نے اپنی اپنی برینڈیڈ ہاوسنگ سکیم کا آغازکیا، نتیجہ زمہنگی ترین زمین اب عام فرد کی پہنچ سے باہر، گھر بنانا ایک خواب ہے جسکی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے، ہمارے ہاں بڑھتی ہوئی آبادی اور گھروں کی ضروریات کی بابت کوئی مستند ڈیٹا سرے سے موجود ہی نہیں کہ اندازہ ہو سکے کہ مستقبل بھی کتنے گھروں کی ضرورت ہے، سرکار کے ہاوسنگ کے شعبہ جات کی ناکامی نے غیر قانونی ہاوسنگ سکیم کے کلچر کو بھی آباد کیا، جہاں سکینڈلز کی بھر مار ہے ہزاروں متاثرین جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
پنجا ب سرکار کے زیر اہتمام ادارہ خود اس نوع کے جرم کا مرتکب ہو تو اس لا قانونیت کو کیا نام دیا جائے؟ راقم کی مراد پنجاب گورنمنٹ سرونٹس ہاوسنگ فاونڈیشن ہے، جس کو باضابطہ ایکٹ مجریہ2004 کے تحت اس کا قیام عمل میں لایا گیا، یہ S&GAD کا ماتحت ادارہ ہے، اسکی نگرانی چیف سیکرٹری پنجاب کی زیر قیادت بورڈ کو سونپی گئی، قیام کا مقصد پنجاب کے سرکاری ملازمین کو گریڈ کے مطابق انکی ریٹائرڈمنٹ پر تعمیر شدہ مکانات اس رقم کے عوض دینا ہے انکی تنخواہوں سے ماہانہ کی بنیاد پر جو کٹوتی کی گئی ہے، چوہدری پرویز الہی کے سنہری دور میں پنجاب کے ملازمین کو گھر کی فراہمی کے شاندار فلاحی منصوبہ کا آغاز ہوا، جسکی باقاعدپنجاب اسمبلی سے منظوری لی گئی۔
مستقل ملازم کی کم از کم مدت ملازمت تین سال ہو وہ فاونڈیشن کا ممبر بن سکتا تھا، اس سکیم میں تجویز کیا گیاکہ سکیل1 تا7پانچ مرلے کا تعمیر شدہ گھر جس کا رقبہ1000مربع فٹ، سکیل8تا سولہ 7مرلہ تعمیر شدہ گھر کا رقبہ1350سکیل17اور 18دس مرلہ گھر کا رقبہ2000 مربع فٹ جبکہ19تا22سکیل 20 مرلہ تعمیر شدہ گھر3000 مربع فٹ طے ہوا تھا۔
پہلے مرحلہ میں جن شہروں میں اس سکیم کو لانچ کیا گیا، ان میں لاہور، راولپنڈی، ملتان، بہاولپور، فیصل آباد شامل تھے، 2004 کے بعد ابتدائی سالوں میں ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کو شہر لاہور میں بنے بنائے گھر ملے، نجانے کس نے اس کے بعدملازمین کو پلاٹ دینے کا مشورہ دیا، جبکہ فاونڈیشن کے ایکٹ میں ملازمین کو پلاٹ فراہم کا سرے سے تذکرہ ہی نہیں ہے، لکھا ہے خدانخواستہ دوران سروس اگر کوئی ملازم وفات پا جاتا ہے تو اسکی بیوہ یا لواحقین کو تعمیر شدہ گھر دیا جائے گا۔
ایکٹ کے مطابق سرکار نے ملازمین کو زمین عطیہ کرنا تھی البتہ تعمیراتی اور ترقیاتی اخراجات بغیر منافع کے الاٹی ممبران سے مکان کا قبضہ دینے سے وصول کرنا لازم قرار پایا تھا۔ لیکن زمینی حقائق غالب کے اس شعر کے مصداق ہیں۔ کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔
مذکورہ فاونڈیشن کا طریقہ "واردات" یہ ہے اب ملازمین کو محض پلاٹ بذریعہ قری اندازی دیئے جارہے ہیں، جو کہ ایکٹ کی صریحاً خلاف ورزی ہے، تعمیر شدہ گھر سے پلاٹ کے سٹیٹس کو کس کی اجازت سے تبدیل کیا، راوی اس پر خاموش ہے، حد یہ ہے کہ آج سے قریباً تیرہ سال قبل پلاٹوں کی قرعہ اندازی ہوئی، اب تلک سینکڑوں ملازمین ریٹائرڈ ہوئے مگر تاحال وہ گھر یاپلاٹ سے محروم چلے آرہے ہیں، ظلم یہ ہے جو وفات پاگئے، انکے لواحقین کو بھی کچھ نہیں ملا، فاونڈیشن کی نا اہلی کی سزا مردو خواتین ملازمین کو مل رہی ہے جنہوں مجوزہ مکان اور پلاٹ کی پیشگی رقم اقساط کی صورت میں اپنی تنخواہ سے ادا کی ہے۔
احسن طریقہ سے تعمیر شدہ گھرملازمین کو دیئے جاسکتے تھے، کیونکہ 2004کے بعد تمام ملازمین کا ڈیٹاادارہ کے پاس موجود محتاط اندازے کے مطابق72000سے زائد ملازمین 21سال بعد گھر یاپلاٹ سے محروم ہیں، ملک کے سب سے بڑے صوبہ میں صرف 65000 ہزار کنال زمین درکار ہے دلچسپ امر یہ ہے، فاونڈیشن کے پاس ملازمین کی قریباً چالیس ارب سے زائد رقم جمع ہے، ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتیوں کا سلسلہ تاحال جاری بھی ہے۔
ذرائع کا کہنا کہ فاونڈیشن میں لوٹ کھسوٹ کا ایک بازار گرم ہے، ملازمین طویل عرصہ پہلے جو وفات پا چکے، ان کے نام کاٹ کر پلاٹ دوسرے ملازمین کو دیئے جارہے ہیں، جو افسران کی مٹھی گرما کرتے ہیں، جنکی معاونت رئیل سٹیٹ کا مافیا کررہا ہے، واقفان حال بتاتے ہیں، اس اندھیر نگری کی باز گشت اسمبلی تک پہنچی اور سٹینڈنگ کمیٹی کا اہم اجلاس منعقد ہوا، یہ مطالبہ سامنے آیا ہے، کہ فاونڈیشن کا تھرڈ پارٹی سے آڈٹ کروایا جائے، حق سے محروم ملازمین نے عدالت سے بھی رجوع کیا ہے، حال ہی میں فاونڈیشن کے نئے مینجنگ ڈائیریکٹر تعینات ہوئے ہیں۔
سب سے زیادہ زیر عتاب پنجاب کے ملازمین ہیں، پنشن میں کٹوتی کی گئی، لیو ان کیشمنٹ سے محروم رکھا گیا انشورنس کی رقم بھی واجب ادا ہے ملازمین کے لئے منفرد، شاندار رہایشی منصوبہ کو سیاست کی نذر کرنے کی بغیر جرم سزا پنجاب کے ملازمین کو مل رہی ہے، جسکی بڑی مثال پنجاب گورنمنٹ سرونٹس ہاوسنگ فاونڈیشن کے ممبران ہیں، جو اپنی جیب سے قیمت ادا کرنے کے باوجود گھر یا پلاٹ سے محروم ہیں، ان میں وفات پانے والے ملازمین بھی ہیں، سوشل میڈیا پر یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے، کہ ملازمین کو جلد از جلد پلاٹ الاٹ کئے جائیں، ایسی سکیم اگر مغرب میں ہوتی تو تارکین وطن کی طرح ملازمین کو بھی گھر ہی ملتے، فلاحی اور سیکورٹی ریاستوں میں یہی بنیادی فرق ہوتا ہے۔

