پروفیشنل ازم کا فقدان

کہا جاتا ہے کہ پیشہ کوئی بھی ہو اچھا یا برا نہیں ہوتا، انسان کے رویئے اس کو اچھا یا برا بناتے ہیں، عمومی اصطلاح میں رویہ اور کام کرنے کے انداز کو پروفیشنل ازم کہتے ہیں، جس کے معنی یہ ہیں کہ کسی کام کو انتہائی ذمہ داری، سنجیدگی، اخلاص اور پیشہ ورانہ مہارت سے انجام دینا، کاروباری اصطلاح میں بلا امتیاز اپنے کلائنٹ کے معیار پر پورا اترنا بھی ہے۔
دنیا میں بے شمار پیشے ہیں جن سے کڑورں افراد منسلک ہیں، ان میں سے کون کون پروفیشنل ازم کی تعریف پر پورا اترتا ہے، اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتا ہے، انکی تعداد دنیا بھر میں قابل رشک نہیں ہے، پیشہ ور فرد اپنا من مار کر جو کامیابی حاصل کرتا ہے اس میں اہم کردار اس کے مثبت رویہ کا بھی ہے، ان میں سے بعض تو لیڈر قرار پاتے ہیں اور قیادت کے منصب پر فائز رہتے ہیں، خواہ ان کا تعلق کاروباری طبقہ کے علاوہ حکمرانی ہی سے کیوں نہ ہو۔ تاہم جن جابر حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے لئے ہر ناجائز حربہ اختیار کیا، وہ تاریخ کے اوراق میں دفن ہوگئے۔
ٹیچر، قانون دان، سیاست دان، ڈاکٹر، فارماسسٹ، بینک کار، تاجر، صنعت کار، نقشہ نویس، انجینئر، چارٹیڈ اکاونٹینٹ یہ وہ پیشہ ور افراد ہیں، جن سے شعبہ جات میں راہنمائی اور مدد لی جاتی ہے یا مہارت حاصل کی جاتی ہے، تعلیم یافتہ ہونے کی بدولت سماج کا عام شہری ان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے پیشہ میں یکتا ہوں گے بلکہ پروفیشنل ازم کی حروف ابجد سے بھی واقف ہوں گے۔ سماج کی ترقی میں ان کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں دیگر پیشہ جات بھی ہیں جن کا تعلق فنی مہارت سے ہے، ان سے متعلق افراد ہمارے ہاں نیم خواندہ ہی ہوتے ہیں، بہت کم ایسے ہیں جو اپنے پیشہ کا رسرٹیفکیٹ رکھتے ہوں، ان میں الیکٹریشن، پلمبر، ٹائیل فکسر، میسن، کارپینٹر، گھڑی ساز، رنگ ساز، ٹھیکیدار، ٹیلرقابل ذکر ہیں۔
اس خطہ میں سیاسی میدان میں پروفیشنل ازم کی بات کی جائے تو ایک طرف بانی پاکستان کا کردار ہے تو دوسری طرف لارڈ مونٹ بیٹن ہیں، تقسیم ہند کے وقت ترازو جن کے ہاتھ میں تھا وہ تاج برطانیہ کے نمائیدہ تھے، جس طرح انھوں نے جغرافیائی حدود میں ڈنڈی ماری وہ تاریخ میں سیاہ حروف میں لکھی گئی ہے۔ بانی پاکستان اپنی اصول پسندی اور پروفیشنل ازم کی وجہ سے ایک دن بھی جیل نہیں گئے، اسکی ایک مثال رولٹ ایکٹ 1919 کی مخالفت تھی آپ اپنے عہدہ سے مستعفی ہوئے، قانون اور آئین کا احترام کیا، مگر سڑک پر احتجاج نہیں کیا نہ نعرہ بازی کی اس کے مقابلہ میں کانگریس قیادت نے سڑک پر احتجاج کیا اور اسے جیل جانا پڑا تھا۔
بطور قانون دان بھی انھوں نے اپنے پیشہ سے انصاف کیا، پروفیشنل ازم کے معیار پر پورے اترے، یہی قد آور شخصیت ہمارے سماج اور پیشہ ور لوگوں کے آئیڈئل ہونے چاہئیں تھے، وکلاء کے سمندر میں شائد چند ہی گوہر نایاب میسر ہوں گے، جنہوں نے اس پیشہ میں قائد کی اصول پسندی کوفالو کیا ہے۔
طب کی دنیا جرمن نژاد مسیحارتھ فاؤسے تو آشنا ہوگی، اپنا عہدے شباب طب پروفیشن کے نام کرکے رہتی دنیا تک امر ہوگئی، انھوں نے جزام کے مریضوں کا علاج کیا جنکے ورثاء مریض کو اپنے سے جدا کر دیتے، یہ جذبہ پروفیشنل ازم کی انتہا ہے کیاآج کا معالج اس معیار پر پورا اتر رہا ہے، مہنگے ٹسٹ، بھاری ادویات کا بوجھ مریض پر ڈالنے کا عمل ان کی ہوس کو عیاں ہی نہیں کرتا ہے بلکہ نان پروفیشنل ازم کو بھی نمایاں کرتا ہے۔
حالیہ سیلاب نے انجینئرزاور ٹھیکیدار کے گٹھ جوڑ کو بری طرح ایکسپوز کیا ہے جن کی کرپشن نے پل اور سڑکیں دریا برد کر دی ہیں، نیزنان پروفیشنل ازم کا ثبوت وہ اموات ہیں جو رات کی تاریکی میں سڑک پر سامان چھوڑنے کی وجہ سے ہوتی ہیں، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
مغرب کا تاجرمشرق سے مختلف صرف پروفیشنل ازم کی وجہ ہے سے، کم تولنا، ملاوٹ کرنا، معیاری سامان کا سودا کرکے غیر معیاری بھجوا دینا، وعدہ خلافی کرنا، جھوٹ بولنا مشرقی تاجر کی سرشت میں شامل ہے، یہی معاملہ بینکاری کا ہے بااثر افراد قرض معاف کروانے کی جرا، ت کبھی نہ کرتے اگر بینکار اپنے پروفیشن سے مخلص ہوتے، وہ استاد جس نے پروفیشنل ازم کے رموز و امور سمجھانے تھے وہ مادیت کے سمندر میں غوطہ ظن ہوگیا، ٹیوشن سے لے اکیڈیمی مافیاز تک کے سفر نے اسکی توقیر کو ہی داؤ پر لگا دیا، اب توجنسی سکینڈل تک میں ملوث ہونے سے رہی سہی کسر بھی نکل گئی ہے۔
تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ارباب اختیارات کے منفی رویوں کا عکس ہی معاشرہ کے تعلیم یافتہ طبقہ میں نظر آرہا ہے، جو سماج میں پروفیشنل ازم کے فقدان کی نشاندہی کر رہا ہے، 76سالہ سیاسی تاریخ میں کسی سیاسی اور غیر سیاسی فرد نے اپنی حماقتوں کے قومی نقصان پر قوم سے معافی مانگنے کی اخلاقی جرا، ت بھی نہیں کی ہے، قومی خزانہ کی حفاظت اور عوامی مشکلات کو کم سے کم کرنا سیاسی پروفیشنل ازم میں شمار ہوتا ہے۔
ابے رزگاری کے اس سمندر میں آپ کو کوئی ایسا ہنر مند نہیں ملے گا، جو اپنے وعدہ کا پاس کرتا ہو، وقت کی پابندی کرتا ہو، سامان کی خریداری میں سچ بولتا ہو، کام کے اوقات میں ہیرا پھیری نہ کرتا ہو، کام کو درست انداز میں کرنے کی بجائے"جوگاڑ" لگا کر آسان راستہ اختیار کرتا ہو سامان کی خریداری کے عوض دوکاندار سے کمیشن نہ لیتا ہو۔ سامان کی چوری نہ کرتا ہو، ایڈوانس رقم لے کر کام چھوڑ کر بھاگنے کی شکایات تو الگ ہیں۔
اس سے مفر نہیں کہ اس ماحول میں بھی اچھے قانون دان، تاجر، استاد، سیاسی قائدین، بینک کار، ڈاکٹرز، فارماسسٹ، انجینئرز، ٹھیکیدار، پلمبر، الیکٹریشن، رنگ ساز، کارپینٹر، ٹائل فکسر دستیاب ہیں، اس کے باوجود یہ تمام اس رویہ سے نابلد ہیں جو پروفیشنل ازم کی روح کے لئے لازم و ملزوم ہے۔ پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کی ترقی اس فرق کو جانچنے کے لئے یہی معیار کافی ہے یہی معاملہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مابین ہے۔
بدقسمتی ہے کہ قومی سطح پر بھی کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے جو ہنر مندوں کو ایسی تربیت دے جس سے صارفین کی شکایت کم سے کم ہو سکیں۔ ہر چند تعلیم یافتہ افراد کے لئے مختلف ورکشاپ کی وساطت سے انھیں اپنے پروفیشن کی مہارت حاصل کرنے اخلاقی اقدار اپنانے کا درس اور
تربیت دی جاتی ہے، مشاہدہ ہے اس کا اثر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کی موجودگی تک ہی رہتا ہے، پروفیشنل ازم کا فقدان ہمارے تمام شعبہ جات کی ناقص کارکردگی کو نمایاں کر رہا ہے اور ترقی کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے، حکمرانی سے لے کر تمام شعبہ تک اس کا اطلاق وقت کی ضرورت ہے۔

