نئے سیارہ کی تلاش
مراکش کی سرزمین پر جنم لینے والے معروف سیاح ان بطوطہ نے غیر معمولی اور تاریخی سفر کاجس انداز سے آغاز کیا وہ تمام اسلامی ممالک کے علاوہ سمر قند، بخارا چین، ہندوستان کی سیاحت پر اختتام پذیر ہوا، اس نے14ویں صدی کے حوالہ سے وہ اہم باتیں بتائیں جو لوگ پہلے نہیں جانتے تھے۔ اسی جذبہ کے تحت اٹلی کا نوجوان کرسٹوفر کولمبس نئی دنیا کی مہم جوئی میں نکلا، وہ ایشیا کو تلاش کرتے ہوئے بحر اوقیانوس عبور کرکے دنیا کے اس حصہ میں پہنچ گیا جسے آج کل بر اعظم امریکہ کہا جاتا ہے۔ دونوں کا مقصد اس کائنات کو دریافت کرنا بھی تھا۔
دنیا بھر سے سیاح ا سی ذوق اور شوق کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمی سفر پر روانہ ہوئے، دنیا کی خوبصورتی کی گواہی سب نے دی ہے، کائنات کے مالک اور خالق نے آخری کتاب قرآن حکیم کی سورہ رحمان میں نے اپنی ہر نعمت کا ذکر کرکے بار بار اپنا احسان یاد دلایا ہے، ان نعمتوں میں وہ نعمتیں بھی جو پورے عالم پر کی گئی ہیں، اور وہ بھی جو صرف اہل ایمان پر ہیں۔ سب سے بڑی نعمت ایمان ہے۔
اللہ تعالی ٰ نے زمین جیسے سیارے پر تین فیصد پانی، باقی خشکی کا حصہ اپنی مخلوق کے لئے مختص کیا ہے، تاکہ انسان اورہر ذی روح اپنی ضرویات پوری کر سکے، اس میں رنگ، نسل، مذہب، خطے کی بھی کوئی قید نہیں، زہریلے ترین حشرات کی موجودگی کے باوجود اللہ تعالیٰ کا یہ دعوی ٰ بھی ہے کہ کائنات کی کوئی شے بے فائدہ پیدا نہیں کی ہے۔
کائنات کے فطری حسن سے کافر بھی انکاری نہیں، فلک بوس پہاڑوں، گہرے سمندروں، چٹیل میدانوں، وسیع و عریض صحرائوں، نیلے آسمان کے ساتھ ایسی متوازن کائنات رب کعبہ نے تخلیق کی ہے، کہ اس کی خوبصورتی دیکھنے کے لئے ہر سیاح بے تاب ہے، قادر مطلق نے ایسی بے مثل ہم آہنگی پیدا کرکے حضرت انسان کو بھی دعوت فکر دی ہے کہ کار ریاست، زمام کار اور فیصلہ جات میں بندہ بشر منصوبہ بندی کو اولیت دے، محض منصوبہ ساز کی کارہ گری ہی نہ دیکھے بلکہ انسانیت کی فلاح سے اسکی خوبصورتی اور جمال میں مزید اضافہ کرکے اللہ کی قربت حاصل کرے، حتیٰ کہ چرند، پرند حشرات اور حیوانوں کی مشکلات میں اضافے سے باز رہے۔ فطرت کو پراگندہ نہ ہونے دے۔
اللہ تعالیٰ نے قدرتی وسائل کی تقسیم بھی اس انداز میں کی ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں کا کاروبار چلتا رہے، کہیں زراعت کے لہلاتے کھیت ہیں، تو کہیں معدنیات کی فراوانی، کچھ ریاستیں تیل کی دولت سے مالا مال ہیں، تو کہیں جھیلوں، آبشاروں اور پھولوں سے مزین سر زمین، اس فطری تقسیم میں ایک واضح پیغام ہے کہ قدرتی وسائل سے بلا امتیاز استفادہ کرنے کا موقع ریاست ہر شہری کو دے۔
حضرت انسان نے اس ابدی پیغام سے بغاوت کر تے ہوئے وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے زندہ انسانوں پر بارود کی بارش کرنے کو بھی معیوب نہیں سمجھا، فطرت کے صاف ماحول کو آلودہ کرکے رکھ دیا ہے اب تو سانس لینا بھی دشوار ہے، ہر نیا دن بیماریاں لا رہا ہے، ہزاروں انسان لقمہ اجل بن رہے ہیں، باوجود اس کے اللہ تعالی ٰ نے اپنی کتاب میں انسان کو ان تباہ حال اقوام سے عبرت حاصل کرنے کی دعوت فکر دی ہے جنہوں نے اللہ کی اطاعت اور اسکی فطرت سے بغاوت کی ان میں وہ قومیں بھی شامل تھیں جنہیں اپنی ترقی پر ناز تھا۔
مقتدر طبقہ نے فطرت کے اصولوں سے بغاوت بھی ایسی کی ہے، کہ نتیجہ عالمی بدامنی کی صورت میں سامنے آرہا ہے، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے غربت نے جنم لے کر بہت سے مسائل کو فروغ دیا ہے، ہرچند یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سترھویں صدی کے بعد دنیا ترقی یافتہ ہوگئی ہے، سائنسی ترقی ہوئی اورجمہوریت کو فروغ ملا ہے۔
ولیم جیمز کہتے کہ20 صدی کی تاریخ لہو میں نہائی ہوئی ہے، مختلف جنگوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سولہ کروڑ ہے۔ یہی معاملہ دولت کی تقسیم کا ہے، اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ دس فیصد لوگوں کے پاس دنیا کی پچاس فیصد دولت ہے، امریکہ، مغربی یورپ، چین کے ممالک میں یہ عدم توازن معروف ہے۔ عالمی انصاف کا معاملہ بھی اس سے قطعی مختلف نہیں ہے، بڑی طاقتوں نے" جس کی لاٹھی اس کی بھینس" کے غیر فطری قانون کی ایسی طرح ڈالی کہ اس کلچر کو ترقی پذیر ممالک کے ارباب اختیار نے اپنایا ہے، سب سے زیادہ متاثر ہونے والا عام فرد ہے۔
اگرچہ اس عہد میں انسانی حقوق کا ڈنکا تو بہت بج رہا ہے، لیکن انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکالنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی ہے، ترقی پذیر ممالک کے وسائل کو حیلے بہانوں سے ہڑپ کرنے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، عالمی سطح پر امیر اور غریب کی تفریق اب بہت گہری ہورہی ہے، منصوبہ ساز اس کے خاتمہ کے لئے بھی غیر فطری انداز میں کوشاں ہیں، جس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمدہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی، اس لئے بھی سرمایہ دارانہ نظام دولت کے ارتکاز کا تو حامی ہے مگر عالمی دولت کی منصفانہ تقسیم کا قائل نہیں ہے۔
یہ عالمی منظر اب ہر ریاست کا خاصا ہے جہاں اشرافیہ کو قومی دولت لوٹنے، غبن کرنے کی کھلی چھٹی ہے، فطرت کے برعکس پالیسیاں مرتب کرنے والے اب پریشان ہیں، عوام پر عرصہ حیات تنگ ہے، کہیں سموگ نے زندگی اجیرن کر رکھی ہے، تو کہیں دہشت گردی کا ایندھن سماج کاعام فرد بن رہاہے، ایک ناگہانی صورت حال سے قوم نکلے تو دوسری سر اٹھائے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔
امن، تحفظ، آسائش، مفادات، اپنی اپنی بالا دستی کے نام پر جس طرح ارباب اختیار نے قدرتی، فطری اور عالمی قوانین کو پس پشت ڈال کردنیا بھرمیں بدامنی کو رائج اور ماحول کو آلودہ کرکے اللہ تعالیٰ کی خوبصورت ترین کا ئنات کو بد صورتی میں تبدیل کرکے انسانیت پر ظلم کیاہے یہ خود قابل توجہ معاملہ ہے، انسان کے ساتھ ساتھ چرند اور پرند بھی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ عالمی گماشتے اگریہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کی مخلوق کو ناراض کرکے اس کو راضی کر لیں گے تو یہ انکی بھول ہے، خالق کائنات کی ناراضی کسی نہ کسی شکل میں نظر آرہی ہے، فقہاء فرماتے ہیں کہ شریعت صرف نظر کر سکتی ہے مگر فطرت معاف نہیں کرتی۔
سیاح بھی پر امن اور فطری کا ئنات کے دلدادہ ہیں جسکی بدصورتی میں ارباب اختیار نے اضافہ کرکے سانس لینا بھی دشوار کر دیا ہے۔ مسائل سے دوچار بے بس انسان اب تو نئے سیارہ پر رہنے کو ترجیح دیں گے جہاں وسائل کی منصفانہ تقسیم، عدل و انصاف کی فراہمی، قدرتی اور صاف ماحول ہو مگرجابر، ظالم حکمرانوں کے وجود سے سیارہ بالکل پاک ہو۔ ہر پرامن شہری کی یہی حسرت ہے۔