محتسب اداروں کا بیان حلفی
جنرل ضیاء الحق مرحوم کی دیرینہ خواہش تھی کہ امیر المومنین کے منصب پر فائز ہوتے، عالم اسلام کی قیادت کرتے، پھر سے سلطنت عثمانیہ کی یاد تازہ اور سب کو ایک چھتری تلے جمع کرتے، تاکہ تاریخ انھیں بھی مسٹر بھٹو کی طرح یاد رکھتی جنہوں نے نامساعد حالات میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں منعقد کرکے مغرب کو پیغام دیا کہ امت تیل کو ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کر سکتی ہے، مگر جن کو یہ سندیسہ دینا تھا وہ ہی جان کے دشمن بن گئے اسی طرح جنرل ضیاء بھی اندھے اعتماد کی بھینٹ چڑھ کر فضائی حادثہ میں جان گنوا بیٹھے، امیر المومنین بننے کی آرزو پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی، تاہم انھوں نے ایک سپر پاور کو توڑ نے میں معاونت کرکے عالمی سطح پر اپنا لوہا منوا لیا، ان کے چاہنے والوں کی کثیر تعداد اب بھی موجود اوران کی پالیسیوں کی گرویدہ بھی ہے۔
انکے ناقدین کی بھی کمی نہیں جو انھیں اچھے نام سے یاد نہیں کرتے، اور الزام دھرتے ہیں کہ انھوں نے اسلا مائیزیشن کی آڑ میں سماج میں انتہا پسندانہ سوچ کو پروان چڑھایا ہے، روشن خیال طبقہ ان سے ہمیشہ نالاں رہا، جو سرخ انقلاب کا راستہ دیکھ رہے تھے انھیں البتہ سخت مایوسی ہوئی، مدر پدر آزادی کی جو خواہش وہ رکھتے تھے، جنرل ضیاء نے ان کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا، حیرانی یہ ہے کہ اسلام پسند طبقہ بھی ان سے ناخوش رہا، وہ ہر عوامی جلسہ میں اسلامی نظام کا دعویٰ کرتے مگر عملاً انکی پالیسیاں اس عمل سے کوسوں دور ہوتیں، صلوٰۃ کے نظام سے لے کر عشر اور زکوٰۃ کے اجرا تک کی قانون سازی سماج میں وہ انقلاب نہ لا سکی جس کے اطلاق کے وعدہ پر انھوں نے سیاسی قومی اتحاد کی قیادت سے حمایت حاصل کی تھی، جب وہ رخصت ہوئے تو نہ صرف فروعی طور پر پورا معاشرہ منقسم تھا بلکہ لسانی، گروہی، تفریق بہت حد تک نمایاں تھی، جن دیگر خرافات کاتذکرہ انکی شخصیت کے ساتھ کیا جاتا ہے وہ کلاشنکوف کلچر اور منشیات کی آزادانہ ترسیل بھی ہے باوجود اس کے انھوں نے عوامی مقامات پر مجرموں کو پھانسیاں دیں۔
جس طرح ہر آمر کا مزاج ہوتا ہے کہ وہ تمام قومی اداروں کو اپنی مٹھی میں بند رکھے، جنرل ضیاء بھی اسی رویہ کے مصداق ثابت ہوئے، ایک طرف عدلیہ زیر عتاب تھی تو دوسری طرف ملٹری کورٹس کا ڈنکا بجتا تھا، عوام کو فوری انصاف کی فراہمی کے لئے انھوں نے البتہ 80 کی دہائی میں ایک آرڈیننس کے ذریعہ محتسب کا ادارہ قومی سطح پر قائم کیا، اس کو آئینی حیثیت دی، جس آئین کو چند صفحات کی کتاب کہتے اور پھاڑنے کی دھمکی دیتے تھے بعد ازاں اسی طرز پر صوبائی سطح کے محتسب کے ادارے قائم ہوئے، جنرل ضیاء شہید کا دعویٰ تھا کہ یہ " غریب کی عدالت " ہوگی جہاں سائلین کو سستا اور فوری انصاف ملے گا، اس میں درخواست گذاری کا طریقہ بھی سادہ رکھا گیا، فی زمانہ یہ سہولت آن لائن بھی میسر ہے، اس میں کوئی وکیل کرنے کی ضرورت ہے نہ ہی بھاری فیس ادا کرنا پڑتی ہے، بنیادی طور پر ان کے ذہن میں اسلامی ریاست ہی کا خاکہ تھا، جہاں قاضی کی عدالت میں بلا امتیاز انصاف ملتا تھا۔
خود ساختہ امیرالمومنین نے جس طرح " اپنی پسند کا اسلام" نافذ کیا، اسی طرح انھوں نے چند اداروں کو بھی احتساب سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے، جسکی گواہی اِس حلف نامہ میں ملتی ہے جو سائل کو درخواست کے ساتھ پیش کرنا پڑتا ہے، محتسب کا یہ اختیار نہیں کہ وہ عدلیہ اس کے ماتحت اداروں، وفاقی اور صوبائی سیکٹریریٹ، اراکین پارلیمنٹ کا احتساب کر سکے، اسی طرح کوئی ملازم اپنے محکمہ کے خلاف درخواست نہیں دے سکتا، نجانے اس امتیازی احتساب کے پیچھے کونسی حکمت کار فرما تھی، راوی اس پر خاموش ہے، حالانکہ سماج کا یہی طبقہ تو طاقتورہے جس نے عام فرد کی زندگی اجیرن رکھنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے، بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی میں اس قماش کے لوگ ہی رکاوٹ رہے ہیں، سفارش اور میرٹ کے عدم اطلاق کے پیچھے یہی ہاتھ نظر آتے ہیں۔
اسلامی نظام عدل کے حوالہ سے جنرل ضیاء الحق مرحوم سے بہتر کون جانتا تھا کہ نبی مہربانﷺ نے بھی اپنے لئے کوئی استثنیٰ حاصل نہیں کیا، خلیفہ وقت سے جمعہ خطبہ کے موقع پر ریاست مدینہ کے شہری کا خلیفہ کی چادر سے متعلق سوال تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا ہے، خلیفہ دوئم کا اپنے بیٹے کو کوڑے لگانا ایسی مثالیں ہیں جو دنیا کا کوئی نظام عدل پیش کرنے سے قاصر ہے، اسلامی نظا م کے نفاذ کی خواہش رکھنے والے امیر المومنین کی آنکھوں سے انصاف کی فراہمی کا مذکورہ معیار نجانے کیوں اوجھل ہوگیا؟
ہر چند کہ وفاقی اور صوبائی محتسب اداروں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ہزاروں شہریوں کی داد رسی کی ہے، جس کی شہادت انکی سالانہ رپورٹوں میں ملتی ہے، لیکن عام شہری تاحال ان اداروں کی اہمیت اور ورکنگ سے آگاہ نہیں، اس کے دفاتر ریجنل مقامات پر قائم ہیں، بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے فوری انصاف کی فراہمی کا خواب تبھی شرمندہ تعبیر ہوگا جب ان اداروں کی تعداد اور اختیارات میں اضافہ ہوگا۔
اگرچہ اس کا دائرہ اختیار صرف سرکاری ادارہ جات تک محدود ہے، مگر عام شہریوں کی بڑی تعداد کو اب نجی اداروں سے بھی واسطہ پڑتا ہے، یہ بھی شہریوں کا استحصال کرتے نظر آتے ہیں، ان کے خلاف شکایت اور داد رسی کے لئے وہی روایتی طریقہ کار اپنانا پڑتے ہیں مگرانصاف کے حصول کے لئے عمر خضر چاہئے، محتسب اداروں کو ان کے خلاف شکایت سننے کا مینڈیٹ مل جائے تو سونے پہ سہاگہ ہوگا۔ انفارمیشن کے جدید عہد میں سائبر کرائم بھی جنم لے چکا ہے، محتسب اداروں کو بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا اور اس طرح کی شکایت پر مقدمہ کے اندراج کا اختیار اور متاثرین کی داد رسی کرنا وقت کی پکار ہے۔
محتسب اداروں کے لئے آرڈیننس کی وساطت سے ایسی ترمیم کی جائے کہ کسی فرد اور ادارہ کو کسی بھی قسم کا استثنی ٰ حاصل نہ ہوبلا امتیاز احتساب اور انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے، ہمارے ہاں احتساب کا نعرہ اچھی شہرت نہیں رکھتا، کم از کم محتسب کے مذکورہ ادارے میرٹ پر اور سستا انصاف فراہم کرکے سرخ رو ہوسکتے ہیں اور یہ بڑی قومی خدمت بھی ہوگی، جنرل ضیاء کی روح کے ایصال ثواب کے لئے محتسب اداروں کی وساطت سے معاشرہ میں بلا استثنیٰ احتساب کا نیاچلن مثبت تبدیلی ہوگی، بیان حلفی میں تبدیلی سے اسکی شروعات کی جاسکتی ہے عوامی خواہش ہے کہ قومی سطح پر کوئی ادارہ تو ایسا ہو جو سب کا بلا امتیازاحتساب کرنے کا "ثواب "لے۔