معذور شہری کی کہانی

کام والی ماسی نہیں آئی، چل کر پتہ کرتے ہیں، وہ بیچاری بیمار رہتی ہے، اس طرح اسکی عیادت اور اسکے نہ آنے وجہ بھی معلوم ہو جائے گی، جب ہم اس کے گھر میں داخل ہوئے تو ایک بزرگ چارپائی پر براجمان ساتھ ہی ایک ویل چیر موجود تھی، ماسی نے تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ میرا شوہر ہے اور عرصہ دراز سے معذور ہے، اسکی وجہ سے مجھے کبھی کبھار چھٹی کرنی پڑتی ہے۔
اسکی معذوری کاسبب پوچھتے ملتان کی وزیر شاہ بستی کے معذور نے قصہ سنانا شروع کر دیا، وہ بیل گاڑی پر مال برداری کاکام کرتا تھا رات کے وقت گندم کی بوریاں لے جارہا تھا، کہ پیچھے سے آنے والے ٹرالر نے میری ریڑھی کو زور سے ہٹ کیا، بوریوں کے اوپر بیٹھا تھا، زور دار ٹکر لگی میں سنبھل نہ سکا اور نیچے گر گیا، ریڑھی پر لدھی بوریاں میری کمر پر آکر ایسے لگیں جیسے کسی نے گولی مار دی ہو، ریڑھی بھی ٹوٹ گئی، مجھے کوئی ہوش نہ رہا، جب آنکھ کھلی تو میں ہسپتال میں تھا، میرا جسم کا نچلا حصہ حرکت کے قابل نہ رہا، میری ٹانگیں میرا ساتھ نہیں دے رہی تھیں، اس حادثہ کے بعد سے میں معذور ہوں، چارپائی سے واش روم تک کا سفر بذریعہ ویل چیر ہی کر سکتا ہوں۔ بچوں کی روزی روٹی کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا۔
ہم نے گھر کا طائرانہ جائزہ لیا، چھ افراد پر مشتمل خاندان کے لئے ایک نیم پختہ کمرہ اور چھوٹا سا برآمدہ تھا، صحن کچاتھا، اس بستی میں جو چند گھر ہیں ان میں سے اکثر گھروں کا دروازہ نہ تھا، انکی معاشی حالت عیاں تھی اس نے بتایا کہ میرے چار بیٹے ہیں، مگر وہ سب ان پڑھ ہیں، معذوری کی وجہ سے ان پر توجہ نہ دے سکا، گھر کی دال روٹی چلانے کے لئے انکی والدہ گھروں میں کام کرتی ہے، بچے مزدوری کرتے ہیں۔
بظاہر ایک حادثہ ہے لیکن ٹریفک قوانین سے آگاہی نہ ہونے کی اور غفلت سے ایک صحت مند فرد ہمیشہ کے لئے معذور ہوگیا، گمان ہے، رات کی تاریکی میں ریڑھی پر کوئی لائٹ نہیں ہوگی، اچانک ریڑھی سامنے آنے پر ڈرائیور بریک پر قابو نہ پا سکا ٹرالر ہٹ ہوا اور ریڑھی بان بوریوں کے نیچے آگیا۔
آج بھی کثیر تعداد ان معذوروں کی ہے جو حادثہ کی بدولت اس اذیت سے گزرتے ہیں، محتاط اندازے کے مطابق پنجاب میں روزانہ کی بنیاد پر ریسکیو سروس کو 1100 ایمرجنسی کالز موصول ہوتی ہیں، ایشین ٹرانسپورٹ آبزرویٹری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اوسطاً ہر چھ منٹ کے بعد ایک شخص ٹریفک حادثہ میں ہلاک ہو رہا ہے، ان میں سے تین چوتھائی حادثات کا سبب موٹر بائیک ہے۔
کہاجاتا ہے کہ پاکستان میں معذور افراد کا تناسب آبادی کے اعتبار سے9فیصد سے زائد ہے، ان میں وہ بھی شامل ہیں جو پیدائشی طور یا فیکٹری حادثہ کی وجہ سے معذور ہوتے ہیں، جن کو خصوصی افراد میں شامل کیا جاتا ہے، جنرل ضیاء الحق کے اقتدار سے قبل ایسے افراد یا بچوں پر خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی، کہا جاتا ہے کہ انکی اپنی بیٹی بھی ایسے بچوں میں شامل تھی جو پیدائشی طور پر معذور ہوتے ہیں، تو پھر انھوں نے ایسے بچوں کو سماج کا بہتر فرد بنانے کے لئے قانون سازی کی، بڑے پیمانے پر سپیشل ایجوکیشن کے نام پر تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا، ملازمتوں میں کوٹہ مقرر ہوا، اس کے باوجود آج بھی خصوصی افراد شکوہ کناں ہیں کہ انھیں سماجی طور پر نظر انداز کیا جارہا ہے، ملازمتیں ناکافی ہیں، نیز سوشل سرکل سے محروم رکھا جارہا ہے، مخصوص افراد میں مردو خواتین بچے اور بچیاں بھی شامل ہیں۔
مذکورہ معذور فرد کو دیکھ کر جہاں اللہ کا شکر ادا کیا وہاں سرکار کی جانب سے اسے نظر انداز کرنے کا دکھ بھی ہوا۔ اس کی زوجہ نے بتایا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے رقم ملتی رہی، پھرایجنٹ نے اس کا نام فہرست سے کٹوا دیا، اب اس کو کوئی مالی امداد نہیں ملتی۔
ہر چند پنجاب حکومت نے معذور افراد کے لئے "ہمت کارڈ" کا اجراء کیا ہے کچی بستیوں میں رہنے والے افراد ایسی سہولیات سے لاعلم ہیں، سوشل ڈیپارٹمنٹ اور مقامی حکومتوں پر ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ ایسے افراد کا ڈیٹا اکھٹا کرکے انکی مالی معاونت کرے کیونکہ معذورں کی بڑی تعداد دفاتر تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے، ضابطہ کے لئے ضروری کاعذات بنوانے میں بھی انھیں دشواری پیش آتی ہے، سرکاراور متعلقہ اداروں کو چاہئے کہ تمام تر سہولت انھیں گھر میں فراہم کریں۔
ترقی یاٖفتہ ممالک میں ایسے افراد کو ماہانہ کی بنیاد پر وظائف دیئے جاتے ہیں، مخصوص بچوں کے لئے والدین کو تمام تر مراعات بشمول طبی سہولت دی جاتی ہیں، نیز جس علاقہ میں کوئی معذور فرد ہوتا ہے، اس کے گھر کو کسی سمبل سے نمایاں کیا جاتا ہے، اس کو عام لوگوں کی طرح سوشل سرکل میں شمولیت کے لئے سہولت دی جاتی اور مدد گار فراہم کیا جاتا ہے، بڑی مثال اسٹیفن ہیگن کی ہے۔
جنوبی پنجاب جیسے علاقہ میں معذور فرد کا گرمی کا مقابلہ محض پنکھے سے کرنا قرین انصاف نہیں، ریاست ایسے افراد کو جو بجلی کے بل ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے کم از کم سولر سسٹم فراہم کر دے زیادہ مناسب ہے کہ ان کے بجلی کے بل سرے سے معاف کئے جائیں تاکہ وہ اچھے ماحول میں دن تو بسر کر سکیں، ان کا بھی قومی وسائل پر اتنا ہی حق ہے جتنا اشرافیہ کا ہے۔
فی ذمانہ ڈیجیٹل کا ہے، وہ معذور افراد جو تعلیم یافتہ اور باصلاحیت ہیں، آن لائن ٹرینگ کا اہتمام کرکے سرکار انھیں برسر روزگارکرے وہ گھر ہی میں کام کر سکیں، جو ان پڑھ افراد کو انکی صلاحیت کے مطابق ایسی سرگرمی میں شامل کیا جائے جو آسانی سے انجام دیں، کسی پر بوجھ بننے کی بجائے اپناپیسہ کما سکیں، سماجی تنظیموں کو بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا ہے، پڑھے لکھے معذوروں کوکتب کی فراہمی، انٹرنیٹ کی کم نرخوں پر دستیابی دن بھر انھیں مصروف رکھنے میں معاون ہوگی۔
معذور افراد مختلف بیماریوں میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں، ایسے افراد کو موبائل ہیلتھ سروس کی وساطت سے سرکار طبی سہولت دے نیز ان کا مکمل ڈیٹا سماجی اور خیراتی اداروں کو بھی دے تاکہ وہ بھی اس کار خیر میں شریک ہو جائیں، یہ ایک معذور کی کہانی نہیں بلکہ ان جیسوں کی داستان ہے جن کی سرکاری اداروں تک یا اداروں کی ان تک رسائی نہیں ہے، احساس محرومی سے نکال کر انھیں سماج کا بہتر فرد بنانے سے بڑھ کر کوئی انسانی خدمت نہیں، جس میں تمام اہل خیر حصہ لے سکتے ہیں۔

