Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Khalid Mahmood Faisal
  3. Marqad e Quaid e Azam Ki Ziyarat Se Mehroomi

Marqad e Quaid e Azam Ki Ziyarat Se Mehroomi

مرقد قائد اعظم کی زیارت سے محرومی

دو دہائیوں کے بعد روشنیوں کے شہر کراچی جانے کا موقع ملا، شہر میں یہ دوسری شادی تھی جس میں شرکت کی، قبل اس کے پی اے ایف سے والد محترم کے درینہ دوست اور کولیگ عمدہ خاں کے فرزندمحمد سہیل کی شادی تھی، اب لیڈز(یو کے)سے ڈاکٹر عدیل احمد کی دعوت ولیمہ تھی، جن سے بھتیجی ڈاکٹر مریم جاوید اصغر کی شادی طے پائی، نارتھ ناظم آباد سے ہمارے میزبان نفیس احمد، محمدنشاظ، محمد نہال، شکیل احمد، محمدریئس تھے۔ برادر ڈاکٹر جاوید اصغر، مسز ناہید اختر، ہمشیرہ حفصہ الماس، دخترحرا خالد اصغر، بھانجی تحریم فاطمہ بھتیجے، محمد انس، عبدالوہاب اور بھانجے داوداختر مختصر قافلہ کا حصہ تھے۔

خانیوال سے گرین لائین سے رخصت سفر باندھا، اسٹیشن پر پہنچ کر بڑی مایوسی ہوئی، جو پُل مئی2025 میں خستہ حالی سے ٹوٹا اور نتیجہ میں ریلوے کا ایک اہلکار ہلاک ہوا وہ تاحال مسافروں کی آمدورفت کے لئے بند تھا، قلی حضرات نے پلیٹ فارم تک جانے کا راستہ بتایا وہ انتہائی غیر محفوظ تھا، پانی کی ٹینکی کے نیچے سے ایک پک ڈنڈی ہے، جس کے ا طراف میں بڑی بڑی گھاس، روشنی کا بھی معقول انتظام نہیں، ساتھ ہی کچھ کوارٹرز ہیں، رات کی تاریکی میں خاتون مسافر کا اس دشوار گزار سے گزرنا پر خطر ہے، مسئلہ کی جانب متعلقہ حکام کو متوجہ کیا تو انھوں نے کہا مسافروں کی جانب سے بار ہا شکایت آئی ہے، اس کا حل اعلیٰ افسران کے پاس ہے، پل کب مرمت ہوگا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

کینٹ اسٹیشن کراچی چار گھنٹے تاخیر سے پہنچنے کے بعد احسا س ہوا کہ گرین لائین ٹرین کی دھوم صرف کاغذوں ہی میں ہے، عہد جدید میں بھی ٹرینیوں نے لیٹ ہونے کی روایت کو برقرار رکھا ہوا ہے، ریلوے اہلکار نے بتایا کہ خاں پور سے حیدر آباد کا ٹریک آپ گریڈ نہ ہونے کی وجہ سے ہر ٹرین لیٹ ہورہی ہے، ورنہ ریلوے کے پاس ایسے انجن بھی ہیں جو تین سو فی گھنٹہ کی رفتار کے ٹرین چلاسکتے ہیں، راقم نے سوال کیا کہ سندھ میں ایسا کیوں، ریلوے تو وفاق کا ادارہ ہے، انکا جواب تھا کہ فنڈز تو ہر ڈویژن اور اسٹیشن کو ملتے ہیں، مگر انکا شفاف استعمال ہونا بھی اہم ہے۔ ہماری نظر شالیمار ٹرین کے اس اشتہار پر پڑی جس کو لگژری ٹرین کے طور روانہ کرنے کی تیاری ہے، وزیر ریلوے سے بہتر کون جانتا ہے ٹرین میں سہولیات فراہم کرنے سے زیادہ ناگزیر ٹریک کو برق رفتار اور محفوظ بنانا ہے۔

میزبانوں کی طرف بہترین رہائش اور ٹر انسپورٹ کی فراہمی نے سفر کی تھکن اُتار دی، کراچی میں تین دن قیام کے دوران ہم نے سی ویو کی سیر کی، بانی پاکستان کے مزار پر حاضری دی اور نیوی کے میوزیم کا دورہ کیا، سی ویو پر قائم ہوٹل کے نرخ پڑھ کر محسوس ہواکہ فوڈ اتھارٹی اور لوکل گورنمنٹ کراچی کا ان پرزور نہیں چلتا، ایک کلو بلوچی فش کی قیمت4100 جبکہ ایک چپاتی90 روپیہ کی تھی، کہا جاتاہے سعودی عرب جو "جموریت"جیسے نظام سے محروم ہے وہاں جو قیمت پیپسی بوتل کی ائر پورٹ پر ہے وہی لاگت صحرا میں ہے، ہمارے ائر پورٹ، ریلوے اسٹیشن ہوں یا عوامی مقامات بازار کی نسبت اشیاء کے نرخوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ سوال انتظامیہ سے ایسا کیوں ہے؟

کراچی آمد پر جب تلک قائد اعظم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ان کے مزار پر حاضری نہ ہو، دل کو تسلی نہیں ہوتی، اس بار مرقد پر فاتحہ خوانی سے محروم رہنے کا دلی رنج ہوا، معلوم ہوا گذشتہ چار سالوں سے عوام کا داخلہ ایک تنظیم کی طرف سے دھمکی کی بدولت بند ہے، اگر یہ بات درست ہے توکیا ریاست اس قدر کمزور ہے کہ وہ ایک تنظیم کی دھمکی کی تاب نہ لاسکی، عوام کو بانی پاکستان کے مزار کے اندر فاتحہ خوانی سے محروم رکھا جارہا ہے، حکام بالا کو اس کا نوٹس لازمی لینا چایئے۔ جو روحانی تسکین مرقد کی زیارت کے موقع پر فاتحہ پڑھنے سے ہوتی ہے وہ لطف مزار کے احاطہ میں دعا کرنے سے کہاں۔

80 کی دہائی میں والد گرامی کے فیصل ائر بیس کے قیام کے دوران کراچی اس قدر پرامن تھا کہ رشک آتا، راقم نے وہ دور بھی دیکھا جب چھوٹے بھائی عامر نوید اصغر کے ساتھ آئی ایس ایس بی کے امتحان میں شرکت کے لئے گیا تو لسانیت کا جن بے قابو تھا، گاڑی میں سوار ہوئے تو مسافروں نے کہا بہتر ہے آپ یہاں اتر جائیں آگے نو گو ایریا ہے، اس قماش کے لوگوں کو اگر پروان نہ چڑھایا ہوتا تو ہماری پورٹ اور تجارت دوبئی سے بہت آگے ہوتی، ایسا ہی برا حال کے پی کے سے لسانی جماعت کے سابق وزیر ریلوے بلور خاندان کے چشم و چراغ نے کیا جب ریلوے ٹریک پر کوئی ٹرین نظر نہیں آتی تھی، سوال ہے قومی ادارہ اور صنعتی شہر کو برباد کرنے والوں کو کب اور کہاں جواب دہ ہونا پڑا؟

شکر ہے کہ اب کی بار کراچی میں کسی نو گو ایریا کی بازگشت سنائی نہ دی، نہ ہی ہڑتال کلچر دیکھنے کو ملا، البتہ کراچی ٹریفک کے بارے میں عمومی رائے یہ کہ ہر لمحہ غیر یقینی صورت حال رہتی ہے، کہیں پانچ منٹ کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے، کہیں گھنٹوں کا سفر منٹوں میں بھی ہو سکتا ہے، بڑے شہروں میں رہنا فی زمانہ جوئے شیر لانے کے مترادف اس لئے بھی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح ہمارے ہاں کی حکمرانی نہیں ہے، ہمارے شہروں میں اگرچہ سہلولیات ہیں مگر اسکی نسبت مسائل بہت زیادہ ہیں، عوام کی آدھی حیاتی حالت سفر میں شاہراہوں پر گزر جاتی ہے، ہر شہری کو یہ اذیت اٹھانا پڑتی ہے، جو ملازمت یا تعلیم حاصل کرتا ہے پنجابی میں کہامنیر نیازی کا شعر صادق آتا ہے۔

وڈے شہر وسا بیٹھے آں۔ سارا چین گنوا بیٹھے آں۔ سوچی پئے آں۔ ہن کی کریئے۔

مئیر کراچی نعمت اللہ خاں اورمصطفی کمال کے ادوار کے بنائے پلوں اور انڈر پاسز سے ٹریفک کی روانی میں کافی بہتری آئی ہے۔ مگر ای چلان کا نوحہ ہر زبان پر تھا، بعض مقامات پر اڑتی دھول اور شاہرات کی تعمیر کے مطالبات پر مبنی بینرز اس بات کے غماز تھے کہ مقامی حکومت کے ذمہ داران میٹروپولیٹن عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترے۔

امیر جماعت اسلامی محترم حافظ نعیم الرحمان کی تصویر سے مزین کراچی کے مسائل پر آویزاں بینر سے محسوس ہوتا ہے کہ شہر میں سب سے توانا آواز انہی کی ہے، مقام شکر ہے کہ روشنیوں کا شہر لسانی جنگ و جدل سے توآزاد ہوا، سٹریٹ کرائم میں کمی سے کاروبارمیں مزید بہتری لائی جاسکتی ہے، تاریخی شہر ریاست کا معاشی حب ہے لیکن ایک تنظیم کی جانب سے"تھریٹ" کی بدولت عوام کو مرقد قائد کی زیارت سے محروم رکھنا بہت بڑی انتظامی کمزوری کوعیاں کرتا ہے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam