کردار کی گونج

جب پی ٹی وی کا سنہری دور تھا اور با مقصد ڈرامے ناظرین کو دکھائے جاتے، تب سماج کی اصلاح کے لئے ایک ڈرامہ دکھایا گیا کہ ائر فورس کا ایک پائلٹ گھر چھٹی پر آتا ہے اور بازار کی جانب نکل جاتا ہے، سڑک پر ٹریفک رواں دواں ہوتی ہے، وہ بھی بے دہانی میں چل رہا ہوتا ہے، آگے سست روی سے ایک کار چل رہی ہوتی ہے، جس میں مسافر کیلے کھاتے ہوئے اپنی گپ شپ میں مصروف ہوتے ہیں جبکہ چھلکے سڑک پر پھینکتے جاتے ہیں، پائلٹ کا پاؤں کا کیلے کے چھلکا پر آتا ہے اور وہ پھسل جاتا ہے۔
اس قدر برے انداز میں وہ کیلے کے چھلکے سے سلپ ہوتا ہے کہ اسکی ٹانگ ٹوٹ جاتی ہے، وہ بستر پردراز ہو جاتا ہے، ڈرا مہ نگارنے اس کی وساطت سے رائے عامہ کے لئے پیغام دیا کہ ایک پائلٹ کی تعلیم و تربیت پر قوم کا کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے، مگر گاڑی کے مسافروں کی معمولی غلطی اس پر پانی پھیر دیتی ہے، بے دیہانی میں پھینکے جانے والے چھلکے کسی کے لئے عذاب بن جاتے ہیں، ڈرامہ کا پائلٹ زندگی بھر جہاز اڑانے سے معذور ہوجاتا ہے، بظاہر ایک چھوٹی سی غلطی لگتی ہے مگر اس کی سزا ایک پروفیشنل کے لئے کس قدر سنگین ہوسکتی یہ کوئی نہیں سوچتا، المیہ یہ ہے کہ طویل مدت کے بعد بھی کیلے کھانے والے سڑک پر چھلکے پھینکنے سے باز آئے نہ ہی عوام نے اپنا رویہ بدلا ہے۔
رائے ریاض حسین جو جاپان اور سری لنکا میں پریس اتاشی کے عہدہ پر برا جمان رہے انھوں نے اپنی خود نوشت "رائے عامہ" میں لکھا ہے کہ جب وہ سرکاری فرائض منصبی کی ادائیگی کے لئے فیملی کے ساتھ جاپان میں تھے، تو ایک روز پیدل گھومنے نکلے، ان کے دو بچے جو پرائمری سکول میں پڑھتے تھے، انھوں نے آئس کریم خریدی اور چلتے چلتے کھانا شروع کردی، ہم میاں بیوی نے محسوس کیا کہ سب لوگ انھیں گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم نے سمجھا کہ ہم فارنر ہیں اس لئے ہمیں ایسے رویہ کا سامنا ہے، جب گھر آکر بیگم نے پڑوسن سے پوچھا، کہ آئس کریم کھاتے بچوں کو لوگ کیوں گھور کر دیکھتے رہے تھے، تو اس بتایا کہ جاپان میں سڑک پر چلتے پھرتے کھانے کو بہت ہی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کی تعلیم نبی مہربان چودہ سو سال قبل دی ہے۔
مصنف نے اپنی یاد کو تازہ کرتے ہوئے لکھا کہ جاپان میں قیام کے دوران "مسٹر ہنڈا کی کہانی" احباب کی زبانی معلوم ہوئی کہ مسٹر ہنڈا جاپان میں کسی دفتر میں چپڑاسی بھرتی ہوئے، دور دراز سے سائیکل پر آتے تھے، ایک روز وہ دفتر آیا تو اس کی سائیکل میں ایک چھوٹا سا انجن لگا ہوا تھا، دوسری عالمی جنگ کے سکریپ سے اسے یہ انجن ملا، دفتر کے دیگر ملازمین کی توجہ کا مرکز بن گیا، دفتر کے چند لوگوں نے ایسا انجن فٹ کرنے کی فرمائش کردی، تاکہ وہ باآسانی دفتر آسکیں۔
چھٹی کے دن مسٹر ہنڈا ٹوکیو کے کباڑ خانوں میں جاتا اور انجن تلاش کرتا انھیں بائیسکل میں فٹ کرتا، اب اسے کافی آمدنی ہونے لگی، اس نے ملازمت چھوڑ کر یہی کام شروع کر دیا، آہستہ آہستہ چھوٹی پاور کے انجن خرید کر اس نے نئی موٹر سائیکل بنانا شروع کر دی، اس کے بعد کاروں کی طرف توجہ دی، دنیا میں "ہنڈا"کے نام سے جس فرد کا ڈنکا بج رہا ہے یہ وہی جاپان کے دفتر میں کام کرنے والا چپڑاسی مسٹر ہنڈا ہے، ایک قوم نے اسکی صلاحیتوں کی آبیاری ہی نہیں کی بلکہ ترقی کے مواقع فراہم کئے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے ہاں کوئی "مسٹر ہنڈا" کی طرح ترقی کرکے فیکٹریوں کا مالک کیوں نہ بن سکا، مصنف کا کہنا ہے اسکی وجہ بوسیدہ انگریزوں کا دیا ہوا تعلیمی نظام، یا کرپٹ بیوروکریسی اور سیاست دان یا سوسائٹی کی منفی سوچ ہے جو کسی کو آگے بڑھنے نہیں دیتی۔
جاپان کی ترقی کے پیچھے قوم کا اجتماعی کردار ہے، مصنف لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ ٹرین سے سفر کررہے تھے، جب سٹیشن پر ٹرین رکی تو انھوں نے دیکھا کہ ایک لڑکی ہر مسافر کو ایک چٹ دے رہی ہے، جس پر جاپانی زبان میں کچھ لکھا تھا، سمجھ نہ آئی، ایمبیسی آکر سیکرٹری سے پوچھا، چٹ دیکھ کر اس نے حیرانی سے پوچھا سرآپ کو پتہ ہے آج کیا ہوا، آج ٹرین تین منٹ لیٹ ہوئی اور یہ سرٹیفکیٹ ہے کہ آپ اپنے آفس یا ورک پلیس پر دیں اور آپ کے خلاف کوئی ایکشن نہ ہو۔
سری لنکا میں قیام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ بڑی کاوش کے بعد کولمبو میں مینگو فیسٹیول منعقد کیا، کراچی سے آنے والے آم انتہائی کھٹے، بد مزہ نکلے، میرے آنے کے بعد وطن عزیز کے مہربانوں نے خربوزوں میں ہیروئن ڈال کر بھجوا دی ائر پورٹ پر پکڑی گئی، سری لنکن اخباروں میں ہیڈ لائن لگائی "pakistan melon cost million Dollar" اُس وقت تاجروں کی بے ایمانی کی وجہ سے بڑی مارکیٹ ضائع ہوگئی۔
جاپان کا کوئی سرکاری مذہب نہیں، مذہبی جماعتوں کے بڑے بڑے اجتماعات بھی نہیں ہوتے، درباروں اور اولیاءکی یہ سرزمین بھی نہیں، حجاج کرام کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، مسلم آبادی کا تناسب 0.15 فیصد ہے، جس میں تارکین وطن بھی شامل ہیں، یہاں جرائم کی شرح سب سے کم ہے یہ محفوظ ترین ملک شمار کیا جاتا ہے ہمارے ملک سے ایک تہائی کم اس کا رقبہ ہے، شہروں پر ایٹم بم گرنے کے باوجود 2010 میں جاپان دنیا کی دوسری بڑی معیشت تھی، مصنف کا خیال ہے اس کامیابی کے پیچھے اس قوم کی جدوجہد، ایمانداری اورشفاف کردار اور قانون کی حکمرانی ہے، کسی کو کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے، فی زمانہ کوئی بھی ریاست ان اصولوں کو اپنا لے تووہ بھی عالمی سطح پر اپنا لوہا منوا سکتی ہے۔
دنیا میں بدعنوانی کو انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے، نت نئے مالیاتی، سیاسی سکینڈل روزانہ کی بنیاد پر یہاں جنم لے رہے ہیں، اپنی سرکار بنانے کے لئے وزراءکرام کی فاورڈ بلاک کے نام پر خریدوفروخت کو بھی معیوب نہیں سمجھاجاتا، دیدہ دلیری کا ہی فیض ہے کہ کھانے پینے کی اشیاءمیں دھڑلے سے ملاوٹ کی جارہی ہے کھانے کے معروف برینڈ بھی اس جرم میں شریک ہیں، ہجوم سے قوم بننے کوہم تیار نہیں۔
اخلاقی اعتبار سے ہم کب جاپانیوں کے ہم پلہ کب ہوں گے، ایک صدی شائد درکار ہو، فیلڈ مارشل کی عسکری کامیابیوں کی عالمی سطح پر جس طرح باز گشت سنائی دے رہی ہے دنیا میں جاپانی قوم کے کردار کی بھی ایسی ہی گونج ہے، مذکورہ کا میابیوں میں قوم اپنے اعلیٰ کردار سے مزید اضافہ کر سکتی ہے، مصنف نے اپنے مشاہدات کا تذکرہ اس لئے کیاہے، عوام اور ارباب اختیار کو آگاہی دی جائے۔

