Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Khalid Mahmood Faisal
  3. Jamhuriat Ki Nakami Aur Awamiyat Pasandi Ka Fareb

Jamhuriat Ki Nakami Aur Awamiyat Pasandi Ka Fareb

جمہوریت کی ناکامی اور عوامیت پسندی کا فریب

ہیگل کے نظریات سے متاثر کارل مارکس کیمونزم کے نفاذ کا خواب دیکھتے اس دنیا سے رخصت ہوئے مگر مارکسی انقلاب انکی وفات کے 34 سال بعد روس میں برپا ہوا، غیر منطقی نظام کی تاب نہ لاتے ہوئے سویت یونین 1991 میں ٹوٹ گیا، اس شر سے البتہ یہ خیر برآمد ہوا کہ کئی سال پر محیط دو بڑی سپر پاورز کے مابین جاری سرد جنگ بھی اپنے انجام کو پہنچی۔

روس کے شہری کیمونزم کی فیوض و برکات سے مستفید ہو سکے نہ ہی دنیا کے دیگر ممالک پر اس کے ثمرات مرتب ہو ئے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کال مارکس کیمونزم کے بارے میں غلط ہو سکتا ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں اس کے خیالات زیادہ تر صحیح تھے۔ مارکس کا یہ کہنا درست ہے کہ ورکنگ کلاس کی محرومیاں، معاشی اور معاشرتی تقسیم صرف سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت ہے۔

روس کی شکست و ریخت کے بعد End of History کے مصنف فرانسس ایک انقلابی نظام کی نوید سناتے ہیں، جو سماجی، سیاسی، معاشی سسٹم پر مشتمل انسانیت اور تمام ممالک کے لئے قابل قبول ہوگا جس کو وہ لبرل ڈیموکریسی کا نام دیتے ہیں۔

سرد جنگ کے خاتمے کے شادیانے ابھی بج رہے تھے، عالمی سطح پر یقین ہو چلا تھا کہ امن دنیا کا مقدر اب رہے گا، کہ "نیو ورلڈ" کا بگل بج گیا، اسکی کوکھ سے تباہی نے جنم لیا کہ بہت سے ممالک پر غیر اعلانیہ پراکسی جنگ مسلط کر دی گئی، فرانسس کے خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے، عراق، ایران، کویت، لیبیا، افغانستان کے عوام پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا، وہ مجاہدین جنہوں نے انکل سام کو دنیا کی واحد سپر پاور بنانے میں اپنی جانوں کا نذرانہ تک پیش کیا انھیں ہی تختہ مشق بنایا گیا۔

ارباب اختیار جنہوں نے اِس عالمی حکم نامہ کی تابعداری میں اپنا سر نگوں کیا، ان پر نوازشات کی بارش کردی گئی جو مخالف کیمپ میں گئے انھیں سبق سکھانے کا اہتمام کیا گیا، اس مشق کے اطلاق کے لئے دعویٰ کیا گیا کہ یہ اعمال جمہوریت کے فروغ کے لئے ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ جن ریاستوں میں انتخابات کے ذریعہ اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل ہونا تھا، انکی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئیں، مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کو تخت دار تک پہنچایا گیا اور فوجی اقتدار کی حمایت کی گئی۔ جہاں نسل در نسل سے شاہی حکمرانی ہے اس سسٹم کو قبول کرتے ہوئے دانستہ صرف نظر کیا گیا۔

کارل مارکس نے جس جمہوریت کو سوشلزم کا راستہ قرار دیا تھا اب وہ فسطائیت کی نئی شکل میں موجود ہے، اگرچہ مغربی ریاستوں کی غالب تعداد اس کے زیر اثر ہے، عوام شخصی آزادیوں سے لطف اندوز بھی ہورہے ہیں، کچھ بنیادی سہولتوں کے عوض عوام کی آمدن سے بھاری بھر ٹیکس کی کٹوتی عملی طور سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت دینے کی کاوش ہے، اس نظام کا ہی فیض ہے کہ امیر اور غریب میں تفاوت بڑرہا ہے۔

لبرل جمہوریت کے ناقدین نے عوامیت پسندی کی نئی تھیوری کی حمایت کی ہے یہ نظریہ ڈچ ماہر سیاسیات پروفیسر کاس مڈی نے دیا، کسی ریاست کے اشرافیہ نہیں عوام ہی سیاسی طاقت کے مالک تصور ہونے چاہیں، عوامیت پسندی کی یہی بالا دستی ہے۔

نظریہ کی ایک سیاسی صورت حال یہ کہ عوامی مفادات کو اشرافیہ کے مفادات کے سامنے لا کھڑا کیا جاتا ہے، اس سے سیاسی فوائد حاصل کئے جاتے ہیں، عوام پسند راہنماء مقبولیت اور سیاسی کا میابی کے لئے شخصیت پرستی کا حربہ استعمال کرتا ہے، مرکزی میڈیا بھی عوامیت پسندی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ عوامی پسندی کے عالمی تصور میں اشرافیہ طبقہ کی جہتیں مختلف ہیں، عملاََ یک گروہ دوسرے کے مفاد کومضبوط کرتا رہتا ہے۔

اگرچہ اس کا تصوراشرافیہ کی بالا دستی نہیں بلکہ عوام ہی سیاسی طاقت کے مالک سمجھے اور جانے جاتے ہیں، مگر عملاً ایسا کہیں بھی نہیں ہے۔

اس فلسفہ کو لے کر امریکہ سمیت بہت سے ممالک میں پاپولسٹ حکومتیں قائم ہوئیں مگر وہ عوامی توقعات پر پوری نہیں اتریں، ایک مثال ارض وطن میں تحریک انصاف کی سرکار کی بھی ہے، افغانستان میں اگرچہ طالبان کو مقبول سیاسی قوت مانا جاتا ہے لیکن یہ بھی عوامی خواہشات کے احترام اور تکمیل میں ناکام نظر آتی ہے۔

ٹرمپ کا انتخاب بھی اسی تحریک کا حصہ رہا دوسری بار انکی کامیابی بھی عوامی حمایت کا پتہ دیتی ہے، منتخب ہونے کے بعد فلسطینیوں کو ان کے گھر سے بے گھر کرنے کا عندیہ اور اسرائیل پر دست شفقت یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ عوامی مفادات کے تحفظ کی بجائے اشرافیہ کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، باوجود اس کے امریکہ کی جامعات کے ہزاروں طلباء و طالبات غزہ میں اسرائیل مظالم کے خلاف سراپا احتجاج رہے۔

انڈین وزیر اعظم کے دوبارہ اقتدار میں آنے کو عوامیت پسندی مان بھی لیا جائے، مگر انکی پالیسیاں ملک میں انتہا پسندانہ رویہ کو فروغ دے رہی ہیں، مقبوضہ کشمیر میں عوامی رائے کا احترام نہ کرنا اور استصواب رائے سے انکار کرتے ہوئے کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی بھی عوامیت پسندی کے فلسفہ کی کھلی نفی ہے۔

ہر چند سیاسی ماہرین کا اس بات پر کلی اتفاق کہ لبرل ڈیموکریسی تمام سیاسی نظریات پر حاوی ہے مگر عوامیت پسندی جیسے نظریہ کی شمولیت، انتخابی عمل میں اجارہ داری، نئے معاشی تنازعات سے لبرل ڈیموکریسی از خود خطرہ سے دو چار ہے۔

تلخ حقیقت ہے کہ لبرل ڈیموکریسی دنیا کے پسماندہ طبقات کو انصاف، روزگار فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے، انسانی حقوق کے تحفظ کے نام پر اقوام متحدہ کی چھتری تلے زندہ انسانوں پر بم بھی گرائے گئے جمہوریت کی آڑ میں ناجائز دولت جمع کرنے والوں کو کھلی چھٹی ملی، اسی طرح عوامیت پسندی کے فلسفہ کا بھی غلط استعمال کیا گیا ہے عوامی رائے کا احترام کہیں نظر نہیں آتا، عوامی احتجاجات کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ نااہل اور طاقتور حکمرانوں کی پشت پناہی کی گئی ہے۔

ڈیجیٹل عہد میں یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ عالمی سطح پر نہ تو امن قائم ہو سکا، نہ ہی خوش حالی میسر آسکی، نہ ہی جبر اور ظلم کا خاتمہ ہوا، تمام عالمی ادارے اپنے فرائض منصبی سے انصاف نہیں کر سکے، جمہوریت کی پر فریب تعریف سے عوام کے دکھوں کا مداوہ نہ ہو سکا، عوامیت پسندی کا فلسفہ بھی شخصیات کے گرد گھومتا رہا، عوامیت پسندی، لبرل جمہوریت کی طرز کا ایک نیا پرفریب نظریہ ہے جس کا مقصد بھی اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ ہے، کیمونزم، جمہوریت اور عوامیت پسندی، سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کسی نئے نظام کے نفاذ کی متقاضی ہے، جوعالمی سطح پرسماجی، معاشی، قانونی انصاف کی فراہمی کو یقینی بنا سکے۔

Check Also

Bazgha

By Ismat Usama