جبار مرزا کی صحافتی یادیں

سمجھ میں نہیں آرہا کہ صحافتی یادوں کو معاشرتی ناہمواری کا آئینہ کہا جائے یا گزرے ہوئے حالات کا روزنامچہ مانا جائے یا اس کو صحافت کی کہانی کہا جائے، یا انھیں ذاتی اور دھرمی یادیں سمجھ لیا جائے کیونکہ یہ تلخ، شریں اور کسیلی بھی ہیں، مصنف کی مشاہداتی داستان بھی لگتی ہے، انھوں نے عرق ریزی سے سماج کے تمام کرداروں کو قارئین کے سامنے یوں رکھ دیا ہے کہ بقول پرفیسر ملک نواز کئی خوبصورت صورتیں مسخ دکھائی دیتی ہیں، جبار مرزا کی"صحافتی یادیں" ایک طرح سے آپ بیتی بھی ہے رزق کی تلاش میں سرگرداں رہنے کا اگر تذکرہ ہے تو سات طوائفوں کے گرد گھومتی کہانی بھی کتاب کا حصہ ہے، مرزا کا لکھناہے کہ بے حیائی ایسی قوت ہے جس کے سامنے ایٹمی قوتیں بھی ہتھیار ڈال چکی ہیں۔
مصنف نے نیکی اور پارسائی کے کرداروں اور معاشرہ کی منافقت کو اچھے انداز میں بے نقاب بھی کیا ہے، کتاب میں حق و صداقت کا علم بلند کرنے کا دعوی کمزور دل صحافیوں کے لئے مشعل راہ بھی ہے، کہ کس طرح مصنف نے اردگرد پھیلی خرافات سے اپنے دامن کو بچا کر رکھا اور پروفیشن پر آنچ بھی نہ آنے دی۔
جبار مرزا ایک جید صحافی ہی نہیں بلکہ باکمال شاعر اور نثر نگار بھی ہیں، یادوں کو تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ٹکا خاں اخبار فیڈریشن کے تاحیات جنرل سیکرٹری رہے لطیفہ یہ ہوا کہ اخبار کے سب ایڈیٹر نے ایڈیٹر سے پوچھا کہ آرمی چیف ٹکا خان نے اخبار مارکیٹ سے پریس ریلیز کیوں جاری کیا، بطور ایڈیٹر لوگوں کے مسائل کے لئے ہمیشہ متحرک رہتے کھلی کچہری تک لگایا کرتے، اس چوہدری کا تذکرہ کرتے ہیں ہجرت کے وقت ہندووں نے سونا جس کے پاس رکھوایا دھوکہ سے انھیں کوہالہ، مری اور کشمیر جانے کا مشورہ دیا اور بارہ کہو پر بس کو آگ لگوا دی، جو مسافر باہر نکلتا اس پر چوہدری کے کارندے فائرنگ کرتے، بعد ازاں اس نے اپنے نام کے ساتھ"رئیس راولپنڈی"لکھوانا شروع کیا۔
راولپنڈی میں بلدیاتی نظام1858 میں آیا، مغل، موریہ اور انگریزوں نے یہاں حکومت کی، دوسری جنگ عظیم کے بعد روس کا راستہ روکنے کے لئے برطانیہ نے دو ڈویژن فوج یہاں اتاری جہاں ہمارا جی ایچ کیو ہے یہ نادرن آفس کہلاتا تھا، بقول مصنف دس ہزار قبل مسیح کشمیر کی سرحدیں سکھر تک تھیں۔ داروڑوں اور مئیو کے زمانے میں کشمیر ملتان تک تھا، ملتان کو چھوٹا کشمیر کہتے، مغلیہ خاندان کے دور حکومت میں کشمیر پنڈدادن خاں تک آگیا تھا سالٹ رینج میں اس کے نشانات اب بھی موجود ہیں۔
مصنف کو بازار کے بدمعاش نے بتایا ایوب خاں جب فاطمہ جناح کے مد مقابل الیکشن لڑ رہے تھے تو اس اکیلے نے سات سو ووٹ ڈالے جبکہ اس کو ٹارگٹ پانچ سو کا دیا گیا، دلچسپ واقعہ کتاب کا حصہ ہے کہ عیدالفطرکا چاند نظر نہ آنے کے باوجود سرکارعید کی نماز پڑھانے پر مصر تھی ایوب خاں کے عروج کے دن تھے، قاضی اسرار الحق جامعہ مسجد کے امام تھے، وہ روزے سے تھے مگر نمازعید پڑھانے سے انکاری انھیں گرفتار کرکے لایا گیا، انھوں نے مجبوراً نماز پڑھانا شروع کی ہزاروں لوگ عید گاہ میں تھے، جب سب سجدہ میں گئے تو امام صاحب اٹھ کر بھاگ گئے اس واقعہ سے انھیں عالمی شہرت ملی یہ "سانحہ" عالمی میڈیا میں رپورٹ ہوا۔
ایوب خاں نے عائلی قوانین کا نفاذ کیا تو گانے بجانے والے بازار بند ہوگئے، جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں سیٹلائٹ ٹاون میں عمر رسیدہ ہوٹل کا مالک جسم فروشی کا اڈہ چلاتا تھا اس کو کوڑے کی سزا تو نہ دی مگر اس کا منہ کالا کرکے اسے سٹیج پر بٹھا دیا تاکہ لوگ عبرت پکڑیں بقول مصنف کہاں کسی نے عبرت پکڑی۔
جبار مرزا لکھتے ہیں جب پاکستان دولخت ہوا تو سردار عبدلقیوم نے کشمیریوں کی ڈھارس بندھائی اور نعرہ لگایا "کشمیر بنے گا پاکستان" مصنف کا ماننا ہے، بیرون ملک آپ ہوں تو اپنی سرزمین کی قدر ہوتی ہے، گھر سے باہر فاقوں سے بھی نکلیں تو بیسیوں لوگ آپ کو سلام کرتے ہیں، ہزاروں ڈالر سے آپ کی جیب بھری ہو تو بھی کوئی نہیں پوچھتا۔
عراق ایران جنگ کے خاتمے میں جنرل ضیاء الحق کا کلیدی کردار تھا امام خمینی ان کا بڑا احترام کرتے، جنرل اسلم بیگ نے تسلیم کیا کہ صدام حسین امریکی مفادات کے لئے استعمال ہوا تھا، 17 اگست 1988 کو سانحہ بہاولپور کے ساتھ جنرل ضیاء کی زندگی کا سفر ختم ہوا تو بے نظیر بھٹو نے وقت سے پہلے فیملی کو آرمی ہاوس خالی کرنے کو کہا، ان کے پاس اپنا گھر نہیں تھا، چوہدری شجاعت نے ویسٹرج پنڈی میں اپنا گھر جنرل ضیاء کی فیملی کو دیا۔ مصنف لکھتے ہیں اس کے برعکس جنرل مشرف جب عہدہ سے فارغ ہوئے تو انھوں نے دوبئی اور یورپ کے مہنگے ہوٹلز میں قیام کیا، پنشن میں یہ ممکن نہ تھا ان کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا، کون حساب لے گا؟
جبار مرزا لکھتے ہیں سعودیہ نے یمن جنگ میں پاکستان سے فوج مانگی نواز شریف نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اسلامی ملک کے خلاف لڑنے کے لئے فوج نہیں دوں گا، مکہ، مدینہ کی حرمت کے لئے سارا پاکستان حاضر ہے، راحیل شریف نے بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر بات نہ بنی، اس حمایت کی وجہ سے سعودیہ نے 32 مسلم ممالک کی افواج کی قیادت انھیں سونپ دی۔
مصنف کی رائے ہے کہ ایک سے زیادہ حلقوں سے انتخاب میں حصہ لینا اور بلا مقابلہ منتخب ہونے کی "بدعت" ذوالفقار بھٹو نے ایجاد کی، اس ضد میں بھٹو مرحوم نے ضلعی انتظامی ادارے تباہ کردیئے آپریشن فیئر پلے کی آڑ میں ضیاء الحق نے نہ صرف بھٹو کو معزول کیا بلکہ ان سرکاری ملازمین کو فارغ کیا، جو پیپلز پارٹی کے لئے نرم گوشہ رکھتے، ان میں لاڑکانہ کے ڈی سی بھی شامل تھے، جنہوں نے جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی سے انتخابی کاغذات وصول کرنے سے انکار کیا تاکہ بھٹو بلا مقابلہ منتخب ہو سکے، بعد ازاں خالد کھرل سابق ڈی سی بی بی کے دور میں پارٹی کے وزیر اطلاعات رہے۔
مصنف لکھتے ہیں کہ ایک ایسے اسلامی ملک میں جہاں دس دس روپئے کے چندہ سے مسجدیں بنتی ہوں وہاں ایک باوردی جنرل کی کونسی مجبوری تھی کہ وہ بارڈر پر کھڑے ہو کر کرتار پوری راہ داری بنواتا رہا۔ کتاب میں کشمیر کے چوہدری تصدق کا تذکرہ ہے جس کو ملکہ الزبتھ نے افطاری کے موقع پر کہا کہ آپ برطانیہ کی شہریت کیوں حاصل نہیں کرتے، جواباََ کہا کہ مجھے ملکہ کی وفاداری کا حلف اٹھانا پڑے گا، آپ نے قیام پاکستان کے وقت کشمیر کا سلگتا ہوا ایشو چھوڑا ہے، اس کے نتیجہ میں لاکھوں شہادتیں ہو چکی ہے پھر میں یہ حلف کیسے اٹھا سکتا ہوں۔
مصنف نے کتاب میں مرزا غالب ڈاکٹر اے کیو خاں، فاروق لغاری، ایڈمرل کرامت رحمان، عبدالقادر حسن، آپا رفعت، مسعود مفتی، اثر چوہان محمود شام اور اپنی زوجہ رانی کا ذکر بطور خاص کیا ہے، صحافت، تاریخ، سیاست، ادب کے طلباء وطالبات کے لئے یہ مستند دستاویز ہے جس کوقلم فاونڈیشن لاہور کے روح رواں علامہ عبدالستار عاصم نے اسے شائع کیا، کتاب مصنف کے شعر کی عملی تصویر ہے۔
چلن بدلا ہوا چاہت کے رشتے ٹوٹتے دیکھے
امیر کارواں ہی کارواں کو لوٹتے دیکھے
جنہیں دعویٰ تھا انصاف اور مساواتِ حقیقی کا
انہی کے دست عشرت میں ترازو جھولتے دیکھے

