Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Khalid Mahmood Faisal
  3. Hue Tum Maseeha Jin Ke

Hue Tum Maseeha Jin Ke

ہوئے تم مسیحا جن کے

جب سوشل میڈیا نہیں تھا، خبریں پرنٹ میڈیا اور ریاستی ٹی وی کی وساطت سے عوام تک پہنچتی تھیں، سرکاری ادارے اس قدر محتاط رہتے کہ کہیں ان کے شعبہ کے خلاف کوئی خبر نہ شائع ہو جائے، اس کے باوجود کبھی کبھی خبر شائع ہو جاتی کہ آپریشن کے دوران ڈاکٹر تولیہ یا قینچی مریض کے پیٹ میں بھول گیا، ظاہر ہے اُس وقت آپریشن تھیٹر ز میں اتنی جدت نہیں پائی جاتی تھی، لوڈشیڈنگ کے عذاب کا سامنا بھی تھا، عمومی طور پر آپریشن تھیٹر کے ٹیکنیشن یا جونیر ڈاکٹر سے یہ غلطی سرزہوتی، جب سرجن فراغت کے بعد مریض کو ٹانکے لگانے کی ذمہ داری ان پر ڈال دیتے۔

میڈیکل شعبہ میں تحقیقی عمل جاری ہے، بیماری کی تشخیص قدرے آسان ہے، باوجود اس کے بہت سی سنگین غلطیاں سرزد ہوتی ہیں، جس کی سزا مریضوں کو ملتی ہے، ساری زندگی اپنے مسیحا کی لاپرواہی کی قیمت انھیں ادا کرنا پڑتی ہے، حلقہ احباب میں سے ایک گویا ہوئے کہ انکی بہن گائنی کے عارضہ میں مبتلا تھیں، ایک پرائیویٹ ہسپتال میں ان کا آپریشن ہوا، لیڈی ڈاکٹر نے اس دوران ایسی غفلت کا مظاہرہ کیا، کہ وہ مریضہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بانجھ ہوگئی، جس نے اس امید سے آپریشن کروایا کہ وہ اولاد جیسی نعمت سے سرفراز ہوگی۔

ایک دوست نے بتایا کہ گذشتہ رات انھیں پیٹ میں شدید درد ہواہے، گھر والوں کی مشاورت سے رات کے آخری پہر کسی پرائیویٹ ہسپتال جانے کافیصلہ کیا، وہاں موجود عملہ نے مریض کی ہسٹری اور ٹسٹ لینے کے بعد کہا کہ آپ کو یہ درد پتے میں پتھری کا ہے لہذا بہتری اسی میں ہے کہ آپ فوراً آپریٹ کروا لیں ہسپتال انتظامیہ اس کا خرچ بھی بتادیا، جو ہزاروں روپئے میں تھا، حکم صادر ہوا کچھ رقم جمع کر وادیں، مریض کی بیٹی نے حال ہی میں ہاوس جاب بھی مکمل کیا تھا، انھوں نے اصرار کیا کہ آپ میڈیسن ہی دیں، اگر آرام نہ آیا تو پھر آپ سے رجوع کریں گے، دور روز تک انھوں نے دوالی اور پھرایک اور ڈاکٹر سے رائے لی اور معروف کلینک سے الٹرا ساونڈ اور دیگر ضروری ٹسٹ بھی کروا لئے ان کے پتے میں کسی بھی قسم کی کوئی پتھری نہیں تھی، دوسرے ڈاکٹر کی رائے تھی کہ درد کا سبب پتہ نہیں ہے۔

اسی قسم کا واقعہ ایک دوست کی مسز کے ساتھ پیش آیا، وہ بھی درد کی حالت میں ایک نجی ہسپتال آئیں، انھیں بھی کہا گیا کہ ان کے پتہ میں پتھری ہے، درد میں آفاقہ صرف آپریشن کی صورت میں ممکن ہے، ورثاء نے ڈاکٹر کی بات پر یقین کرتے ہوئے، آپریشن کروانے پر آمادگی ظاہر کردی، کچھ دن کے جب پین کلرز ادویات کا اثر ختم ہوا، تو پھر سے اسی طرح کا درد ہونا شروع ہوا، دوبارہ انھیں سے رابطہ کیا اور دوسرے ڈاکٹر سے بھی رائے لی انھوں نے بھی کئی ٹسٹ کروادیئے جس میں "ویٹ الرجی"کا ٹسٹ بھی شامل تھا، جب اسکی رپورٹ آئی، تو وہ پازیٹو تھی، مریضہ کو گندم سے الرجی کا عارضہ تھا، مگر ڈاکٹر کی لاپرواہی کی وجہ سے وہ پتے جیسے قدرتی اعضاء اورنعمت سے محروم ہوگئی، اب مریضہ کو نئی پیچیدگیوں کا سامنا تھا۔

ماہرین طب کا خیال ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں کوئی ریگولرائیزیشن نہیں ہے، کوئی ضابطہ کار طے نہیں ہے، طب سے متعلق افراد اسی لئے لاقانونیت کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے ریاست میں ایک ماہ کی کم عمر میں 675بچے اور27 مائیں صحت کی قابل انسداد پیچیدگیوں کے باعث موت کے منہ میں جانے پر تشویش کا اظہار کیا، پرائیوئٹ سیکٹر میں ہر ہسپتال میں سرجری کے نرخ مختلف ہیں، ڈاکٹرز کا مہنگی ادویات لکھنے، من پسند لیبارٹری سے ٹسٹ کروانے کی بابت سماج میں تحفظات ہیں، ایک رپورٹ میں بتایا گیا فارماسیوٹیکل کمپنیز نے ادویات بیچنے کے عوض ڈاکٹر ز کو "فری عمرہ" کا پیکج بھی متعارف کروا دیا ہے۔

طب سے متعلق افرادبازپرس سے اس لئے بھی محفوظ ہیں کہ آئین پاکستان اب بھی صحت کو بنیادی حق کے طور پر تسلیم نہیں کرتا، صحت کا ذکر آرٹیکل38 میں پالیسی اصول کے طور پر کیا ہے جبکہ عالمی سطح پرانسانی صحت کو بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، پاکستان برائے انسانی حقوق کمیشن نے انسانی صحت کو بنیادی حق کے طور پر تسلیم کرنے اور، شعبہ صحت کابجٹ میں دس فیصد مختص کرنے کا مطالبہ کیا ہے، اس وقت صحت کا بجٹ خطہ میں سب سے کم ہے، ترقی پذیر ممالک جی ڈی پی کا 6 فیصد مقرر کرتے ہیں۔

سرکاری پارٹی کے ممبر صوبائی اسمبلی جن کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہے انھوں نے اسمبلی کے فلور پر سوال اٹھایا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو دی جانے والی ادویات سستی ہیں، مریض کوفائدہ نہیں ہوتا، باہر سے ادویات منگوانے کی ممانعت ہے، یوں مریض اور لواحقین بے بس ہیں، سیریس مریض مر رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ پنجاب سرکار کے اس حکم نامہ سے پہلے اور بعد کے اعداد وشمار مریضوں کے منگوائیں گے اور دیکھیں گے کہ سستی ادویات سے کتنے مریض وفات پا چکے ہیں۔

دل کے عارضہ میں مبتلا مریضوں کو اگر سرجری کی ضرورت ہو تو انھیں طویل انتظار کرنا پڑتا ہے، اس میں سب سے زیادہ متاثر سماج کا پسماندہ اورکمزور طبقہ ہوتا ہے، ارض وطن میں ذہنی مسائل کا شکار افراد کی تعداد کڑورں میں ہے، سرکار کی اس جانب کوئی توجہ نہیں ہے جبکہ ماہر نفسیات کی تعداد انتہائی کم ہے، اس مرض کی ادویات بھی بہت مہنگی ہیں۔ ذہنی امراض کی بڑی وجہ مہنگائی، بے روزگاری، جہالت، ناانصافی، لا قانونیت اور سماجی اور معاشی تفاوت ہے، جس کے سد باب کی ذمہ داری سرکار پر عائد ہوتی ہے۔

سرکار کی بہتر صحت پالیسی تو یہ ہونی چایئے کہ لوگوں کو بیمار ہونے سے بچایا جائے، لیکن جس ریاست میں پارکوں پر قبضہ کیا جاتا رہا ہو، آلودگی، گندا پانی، سیوریج کا ناقص سسٹم موجود ہو وہاں وبائی امراض کا بڑھنا کوئی بڑی بات نہیں ہے، دوسری طرف مہنگے علاج کے خوف سے عوام اتائیوں کے کلینک اور دم، تعویذ گنڈے کو غنیمت سمجھتے ہیں وہاں صحت کو کیونکر بنیادی حق تسلیم کیا جائے گا؟

عوام کے مسیحاؤں کو پوراعلم ہے کہ انکی حماقتوں کی قیمت مریضوں اور ان کے لواحقین نے ادا کرنی ہے، انھیں آئینی اور قانونی طور پر سزا نہیں مل سکتی ہے، علاج کو بنیاد بنا کر مریض سے پیسہ بٹورنے کے لئے وہ اعضاء بھی نکال باہر کرتے ہیں جو درست ہوتے ہیں۔ صوبہ پنجاب شعبہ طب ہی کو آوٹ سورس کررہاہے جو معمولی تحفظ مریضوں کا حاصل تھا اس بھی محروم وہ ہوگئے ڈاکٹرز کی بے روزگاری اس کے علاوہ ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan