حماس کی حمایت
نہیں معلوم عرب شہزادوں کو یہ علم ہے کہ نہیں کہ انکی ہمسائیگی میں انسانیت سوز سلوک زوروں پر ہے، ان کے ہم مذہب افراد پر بارود کی بارش کردی گئی ہے، راکٹ لانچوں سے حملے ہورہے ہیں، اسکی زد میں کون آتا ہے انکی بلا سے، وہ تو شیر خوار کو بھی اپنا دشمن سمجھتے ہیں، سینکڑوں کی تعداد میں زخمی موجود ہیں، اب تو یہ عالم ہے کہ ہسپتالوں میں جگہ ختم ہو چکی ہے، تعلیمی ادارے، شفاخانے، گھر سب کچھ تو مسمار کر دیا گیا ہے، خاندانوں کے خاندان موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں، کسی گھر کا ایک فرد بچا ہے تو کسی ایک اکلوتا بچہ، یہ سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے، بین کرتی خواتین، بھائیوں کی لرزہ خیز موت پر روتی بہنیں، بیٹوں کی جدائی کے غم میں باپ، پتھر کی مورت بنے بیٹھے ہیں، دلاسہ دینے والا اس لئے کوئی نہیں کہ سب کا دکھ اور غم ایک جیسا ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اس سرزمین پر موت کی بارش ہوئی ہے تو بھی مبالغہ نہیں، ان کا اگر کوئی جرم ہوتا تو انھیں سزا ضرور دی جاتی مگر یہ تو ناحق موت مارے جارہے ہیں۔
ہمارا گمان ہے کہ ان شہزادوں کو یہ تو جانکاری ہوگی کہ مغربی دنیا کے ہزاروں طلباء و طالبات ان دنوں جامعات میں سراپا احتجاج ہیں، بڑی طاقتوں کے ناک میں انھوں نے دم کر رکھا ہے، وہ انسانوں پر پھینکے جانے والے بموں اور ہوائی حملوں کی بابت یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس خون کا حساب لیا جائے، یہ سلسلہ بند کیا جائے، حالانکہ ان کا مذہب، رنگ، نسل مختلف ہے، دم توڑتی انسانیت کو وہ نہیں دیکھ سکتے، امن کے قیام کے عالمی ادارے موجود ہیں، عدالت انصاف ہے تو پھر اس قدر بے حسی کیوں؟ کیا مرنے والے انسانوں کے خون کا رنگ مختلف ہے۔
طلباء و طالبات مغربی ممالک کی ان شاہراہوں پر مارچ کر رہے ہیں، جہاں عرب شہزادے دنیا کی مہنگی ترین گاڑیاں چلاتے ہیں، ان پر ہیرے جواہرات جڑے ہوتے ہیں، انھیں اپنی دولت پر زعم ہے اس لئے یہ گاڑیاں جہازوں پر لائی جاتی ہیں، تاکہ اہل مغرب کو مرغوب کیا جائے، وہ انھیں دیکھ کر حیرت زدہ ہوتے ہیں۔
ایک طرف شہزدوں کی فوج ظفر موج جو ہر طرح دکھ، غم پریشانی سے آزاد ہے، تو دوسری طرف پہاڑ جیسے غم لئے زندگی کو بوجھ سمجھنے والے، اپنی ہی سرزمین پر اجنبی بن بیٹھے ہیں، وہ اپنی ریاست اور قبلہ اول کو آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، یہ صرف ان کا مسئلہ تو نہیں، تو پھر کیوں وہ اپنے خاندانوں کی قربانیاں دیں؟
شہزادوں کو چاہیے کہ وہ کسی سرچ انجن پر جاکر معلوم کریں کہ تیل کی دولت سے پہلے انکی ریاستیں کس حال میں تھیں، سوال یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کی شکست و ریخت کے بعد قومیت کے جس بخار میں آپکے بزرگ مبتلا تھے، اس درد اور جذبہ سے آپ کیوں محروم ہیں، آپ کے ہم زبان حالت جنگ میں ہیں، صہیونی ریاست انکی املاک پر بزور طاقت قبضہ کررہی ہے، اب آپ کا دل اس قومیت کے لئے کیوں نہیں دھڑک رہا ہے، کیا آپ کے بزرگ عرب، اسرائیل جنگوں کو حماقت خیال کرتے ہیں؟
سعودی حکمران شاہ فیصل شہید نے ہنری کسنجر کو کہا تھا کہ ہمیں اتنا تنگ مت کرو، زیادہ تنگ کرو گے توہم اپنے تیل کے کنوؤں کو آگ لگا کر خیموں میں وآپس چلے جائیں گے، یہ وہ وقت تھا جب 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں مرحوم کھل کر سامنے آئے اور تیل کو بطور ہتھیار استعمال کیا تھا۔
اب منظر نامہ بدل چکا ہے، اسی قبیل سے ایک بزرک شہزادے ترکی بن فیصل حماس کے اسرائیل پر 7 اکتوبر حملہ کرنے کے حوالہ سے شکوہ کناں ہیں، وجہ یہ بھی ہے کہ وہ حماس اور اس کے "سیاسی اسلام" کے انقلابی برانڈ کو اپنی حکومت کے لئے خطرہ اس لئے سمجھتے ہیں کہ اس کی موجودگی میں نہ تو ہزاروں شہزادوں کو سرکاری منصب ملیں گے نہ ہی شاہی خزانہ کو جیب خرچ کا ماہانہ بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔
خلیجی ممالک کو یہ بھی قلق ہے اسرائیل تعلقات کو بڑھانے میں بڑی رکاوٹ حماس کا حملہ ہے، اس لئے ان ریاستوں کے فرمانراؤں نے اب محض مذمتی بیانات تک خو کود محدود کر رکھا ہے، تاہم انکی بے چین حکومتیں مغربی سڑکوں پر اسرائیل مخالف مظاہروں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں، لیکن ہم اتنا عرض کئے دیتے ہیں، کہ جس جس حکمران نے بڑی طاقتوں کی خوشنودی کے لئے آمرانہ پالییاں مرتب کی ہیں، وہ خطرناک انجام سے دو چار ہوا ہے، عراقی صدر، لیبیا کے کرنل، فلسطین اتھارٹی کے عرفات، ایران کے شاہ کو انکے وفاداروں نے پناہ دینے سے بھی انکار کیا ہے۔
دکھائی یوں دیتا ہے کہ اب امت کی امامت کی ذمہ داری قطر کی ریاست پر آن پڑی ہے، جہاں حماس کا دفتر ہے اور وہ جنگ بندی کے لئے کوشاں بھی ہے، خدشہ ہے کہ عرب ممالک کی سرد مہری دوحہ اور حماس کے تعلقات کو کمزور نہ کردے، حماس کے سیاسی راہنماء کی شہادت عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، شرق اوسط کے ارباب اختیار نے نجانے کس خوف سے معذرت خواہانہ انداز میں انکی شہادت کی مذمت کی ہے، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی خوشی میں انکی خوشی پنہاں ہے تو وہ بڑی غلط فہمی میں ہیں روشن خیالی کی پالیسیاں بھی انھیں بچا نہیں سکے گی۔
بعید نہیں کہ مغربی جامعات کی شاہراہوں پر فلسطین کے حق میں بھاری بھر مظاہروں سے متاثر ہو کر کوئی مرد مجاہد انکی سرزمین پر جنم لے اور اسرائیل کی بربریت پر آواز بلند کرے جس سے "عرب بہار" کے نئے دور کا آغاز ہو، جس کے آفٹر شاکس اب بھی عرب ریاستوں میں محسوس کئے جاتے ہیں، تو شہزادوں کی مہنگی گاڑیاں، سونے کی کشتیاں اور تلور کے شکار کا شوق دھرے کا دھر نہ رہ جائے، شہزادوں کی بہار خزاں میں نہ بدل جائے، اس لئے بھی ایران نے ہانیہ کی شہادت کا بدلہ لینے کا برملا اعلان کیا ہے اس کے مابعد اثرات خطہ پر لازمی مرتب ہوں گے۔
قبلہ اول کی آزادی کی بڑی ذمہ داری تو ہمسائیگی میں عرب ریاستوں پر عائد ہوتی ہے، مگر ان میں اتنا بھی دم خم نہیں کہ فلسطین پر جبر کے خلاف آواز بلند کرسکیں، اس کے خلاف سراپا احتجاج ہوں، امریکہ کی پشت پناہی جس اسرائیل کو حاصل ہے، اس کے باوجود وہ اپنے اپنے ممالک کے دفاع کی توقع انکل سام سے رکھتے ہیں، تو ان سے بڑا کوئی احمق نہیں۔
سوشل میڈیا کے عہد اور شہزادوں کی عیاشیوں کی موجودگی میں عرب حکمران عوام کو زیادہ دیرحماس کی حمایت سے دور نہیں رکھ سکتے اسکی بڑی مثال قطر میں مرد مجاہد اسماعیل ہانیہ کا جنازہ ہے جس میں عرب کے نوجوانان اور عوام کی بھر پور شرکت ہے۔