درندگی کا خاتمہ

چشم تصور میں لائیں کہ آپ ہنستے بستے گھر میں بہن بھائیوں کو چھوڑ کر آئیں اور کچھ لمحوں بعد ہی آپ کو اپنے بھائی کی المناک موت کی خبر ملے جو آپ کو بہت عزیز ہو تو آپ کے دل پر کیا گزرے گی، یہ ہلاکت نہ تو دہشت گردی کا نتیجہ ہو نہ ہی کوئی ڈکیتی ہو، نہ ہی عزت اور غیرت کا معاملہ ہوبلکہ دن کی روشنی میں آپ کا ہمسایہ بھائی کو محض اس لئے قتل کردے کہ مقتول نے اسے اپنے والد کو قتل کرنے سے منع ہی نہیں کیا بلکہ علمی طور اس کو بچانے کی کوشش کی، مگر بیٹا نما قاتل بجائے اپنے فعل پر شرمندہ ہوتا، اس نے اس مداخلت کو ناپسند کیا اورہمسایہ کوقتل کرکے رستہ سے ہٹایا یہ اپنے والد جیسی ہستی کا خون کرنا چاہتا تھا، جس نے بچپن میں اس کے نازو نخرے اٹھائے، اسکی پرورش کی، جس کا صلہ وہ اپنے والد کو ابدی نیند سلا کر دینا چاہتا تھا، اس لئے کہا جاتا ہے کہ ریاست یا گھر کا اچھا ہمسایہ کسی نعمت سے کم نہیں۔
جماعت اسلامی کے معروف سابق سینیٹر مشتاق خاں کو اپنے بھائی کی ایسی غیر متوقع موت کا دکھ سہنا پڑا، کہا جاتا ہے کہ قاتل نشے کا عادی اور ذہنی مریض تھا، گمان ہے کہ پہلے بھی گھر میں لڑائی جھگڑا کرتا ہوگا، مگر جب معاملہ باپ کے قتل تک پہنچا تو بیچ بچا کرانے آگے بڑھے تو شہادت ان کا مقدربنی ا یسا بھی ہو سکتا تھا یہ مقتول کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
چارسدہ کے مقام پر دوکان کے سامنے چارپائی رکھنا وجہ نزاع بنی جو پانچ بندوں کی جان لے گئی، زبانی تکرار کے بعد ہمسایوں میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا، یہ سانحہ اس ماہ مبارک میں ہوا جس میں گالی دینا تو دور کی بات برائی کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا جاتا، یہ سب سن کردل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں والا معاملہ در پیش ہے، انھیں ایام میں پشاور کے مضافات میں ایک نو عمر لڑکے نے ایڈمن کو اس لئے قتل کر دیا کہ اس نے واٹس ایپ گروپ سے اس کو نکال دیا تھا جس کا ملزم کو رنج تھا، زندان کے پیچھے اسکی تصویر دیکھ دلی رنج ہوا اگر وہ اپنے غصہ پر قابو پا لیتا تو روشن مستقبل اس کا منتظر تھا۔ حلقہ احباب میں سے مہمند ایجنسی کے باسی جو عرصہ دراز سے ملتان میں مقیم ہیں ایک خوبرو جوان کی تصویر دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ میرے ماموں کا بیٹا تھا جس کی شادی کو چند ماہ ہوئے تھے، محلہ میں دو افراد لڑ پڑے یہ انھیں چھڑانے گیا، تو ان میں سے ایک نے اس کے سر پر فائر مارا یہ بیچارہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔
میرے عزیز ٹل کے مقام پر پاکستان ائیر فورس کی طرف سے ڈیوٹی پر مامور تھے، کہنے لگے کہ ان کا کولیگ ایمرجنسی میں چھٹی لے گیا واپسی پر بتایا کہ ماموں قتل ہوگیا تھا، وجہ تنازع یہ تھی کہ دائرہ میں مسلح ہو کر بیٹھے افراد گیم کھیل رہے تھے، اتنے میں ایک چوہا بھاگ کر ان کے درمیان سے گزرا، دو افراد نے اس پر فائر کیا وہ مر گیا، اب یہ بحث چل نکلی کہ کس کی گولی سے چوہا مرا، بحث تنازع بن گئی اور اس کے نتیجہ میں تین افراد مارے گئے، وہ بتاتے ہیں، وہاں مرد سارا دن فارغ رہتے جبکہ کہ خواتین کھیتوں کا کام کرتی اور جانور پالتی ہیں۔ کچھ مدت پہلے پنجاب سے کچھ دوست حیات آباد کی باڑہ مارکیٹ میں شاپنگ کی غرض سے کلاتھ ہائوس میں بیٹھے، کپڑا پسند کرنے کے لئے انھوں نے کئی تھان نکلوائے پسند نہ آنے پر اجازت چاہی تو دوکان دار نے پسٹل نکال لیا اور کہا کہ تم نے ہمارا وقت ضائع کیا کم از کم ایک سوٹ لینا ہوگا۔
انسانی قتل اور دھمکی آمیز مذکورہ واقعات کسی طور پر بھی ایک مہذب سماج کی نشاندہی نہیں کرتے، ایک پرتشدد، جاہل، گنوار معاشرہ کا عکس پیش کرتے ہیں، عمومی طور پر تصور یہ کیاجاتا ہے کہ کے پی کے اعلی رویات، اقدارقبائلی طرززندگی رکھنے والا صوبہ ہے جہاں بڑے چھوٹے کا احترام کیا جاتا ہے، خواتین باپردہ ہوتی ہیں، غالب کا تعلق کسی نہ کسی مذہبی جماعت سے بھی ہے، یہ صوم صلوۃ کے بھی پابند ہیں، یہاں کی کیمونٹی انتہائی جفاکش، محنتی ہے، کسی بھی کام کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی، لیکن بشری کمزوری کے باعث جو پختون بھائی اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے، اپنی غلطیوں پر بعد ازاں انھیں پچھتانا پڑتا ہے۔ اس رویہ کا بڑا سبب جنگ وجدل کا وہ کلچر جو کسی نہ کسی طرح اس خطہ میں آباد رہا، دوسرا یہاں قانونی اور غیر قانونی اسلحہ کی فراوانی ہے، باہم دشمنی میں طوالت بھی بڑی وجہ ہے۔
ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ عدم برداشت کی وجوہات میں کسی کی مداخلت کو ناپسند کرنا، اپنے فیصلے دوسروں پر مسلط کرنا، مہنگائی، بے روزگاری، فرقہ پرستی، جنسی استحصال، دین سے دوری، صبر، بردباری، قناعت کی دولت سے محروم ہونا، سماجی نا انصافی بھی شامل ہے، جب معاشرہ عدم برداشت کے رویہ کو قبول کرنا شروع کر دے، تو بتدریج سماج سے رواداری ختم ہو جاتی ہے عدم برداشت چھپی ہوئی مایوسی سے بھی جنم لیتا ہے۔
قیمتی انسانو ں کے ضیاع کو روکنے کے لئے لازم ہے اس سماج میں رواداری، قناعت پسندی، صبر، تعلیم کو فروغ دینے اور جذبات کو قابو رکھنے کی تربیت دی جائے، جس میں علماء کرام، اساتذہ، میڈیا، عوامی نمائیدگان کو کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے، بنیادی اور اہم ذمہ داری تو والدین ہی کی ہے کہ وہ لڑائی، جھگڑا کے نقصانات سے اپنے بچوں کو آگاہی دیں، عوام الناس کو کسی جرم کے مابعد اثرات اور اسکی سنگینی سے بھی آگاہ کیا جائے، سب سے پہلے بلا تا خیراسلحہ کے استعمال پر فوری پابندی عائد ہونی چاہئے، قانون کی حکرانی کا سخت سزائو ں کے ساتھ اطلاق بھی ناگزیر ہے، نسل نو کو مثبت سرگرمیوں میں شریک کیا جائے، اسی طرح مہمان کو پناہ دینے کی آڑ میں جرائم پیشہ افراد کو تحفظ دینے کی فرسودہ روایت ختم کی جائے۔
قبائلی کلچر میں جرگہ کی بڑی اہمیت ہے انسانوں کے تحفظ کے لئے اس کے عمائدین کو سماج میں عدم برداشت کی مخالفت کرنا ہوگی اور جرائم پیشہ افرادکے سر سے دست شفقت اٹھانا ہوگا خدا نخواستہ ایسا نہ ہویہ درندگی ہر گلی محلہ میں پھیل جائے گی، پھرامن کا قیام ایک خواب بن جائے۔ سینٹ میں مشتاق صاحب کے بھائی کی فاتحہ خوانی کی گئی، پارلیمنٹ اس طرز کے واقعات کے سدباب کے لئے قانون سازی بھی کرے، تمام صوبہ جات سے اس نوع کی درندگی کا خاتمہ وقت کی پکار ہے، تاکہ ہر شہری خود کو محفوظ تصور کرے، تاہم اس کا راستہ اسلامی سزائوں کے نفاذ ہی سے ہو کر گزرتا ہے۔